"AIZ" (space) message & send to 7575

قربانی کی اہمیت

الخدمت فائونڈیشن ملک کا ایک نامور ادارہ ہے‘ جو گزشتہ کئی برسوں سے خدمتِ انسانیت کے کاموں میں مشغول ہے۔ قدرتی آفات کے دوران یہ تنظیم متاثرین کی مدد میں ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے۔ اسی طرح دنیا کے دوسرے مقامات پر بھی اگر لوگوں‘ خصوصاً مسلمان بھائیوں کو کوئی تکلیف ہو تو اس تنظیم کے لوگ ریلیف کے کاموں میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ 12 مئی کو الخدمت فائونڈیشن نے عید الاضحی کے موقع پر کی جانے والی قربانی کی اہمیت‘ فضیلت اور اس سے متعلقہ مسائل کے حوالے سے لاہور‘ خیابانِ جنا ح پہ واقع اپنے مرکزی سیکرٹریٹ میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ اس سیمینارکا مقصد جہاں قربانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا‘ وہیں غزہ میں بسنے والے مظلوم مسلمان بھائیوں کو عید کے موقع پریاد رکھنا بھی تھا۔ سیمینار میں الخدمت کے نائب صدر عبدالشکور‘ مدثر احمد شاہ‘ پروفیسر ڈاکٹر کاشف نعمان‘ ڈاکٹر ذکر اللہ مجاہد اور دیگر نمایاں شخصیات نے شرکت کی اور اس موقع پر قربانی کی روح کو اجاگر کرنے کے لیے مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔ اس موقع پر میں نے جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ وہ درج ذیل ہیں:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے تخلیق کیا اور سورۃ الذاریا ت کی آیت نمبر 56 میں ارشاد فرمایا ''میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادات کے مختلف طریقے ہیں جن میں دعا‘ ذکر الٰہی‘ روزہ‘ حج‘ عمرہ اور دیگر بہت سی عبادات شامل ہیں۔ انہی میں سے ایک عبادت اللہ تبارک وتعالیٰ کے پیدا کردہ جانوروں کو اللہ کے راستے میں ذبح کرنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مختلف امتوں میں قربانی کو لازم فرمایا تھا۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الحج کی آیت نمبر 34 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔ سمجھ لو کہ تم سب کا معبودِ برحق صرف ایک ہی ہے‘ تم اسی کے تابع فرمان ہو جائو اور(اے نبی!) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے! انہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے‘ ان کے دل تھرا جاتے ہیں۔ انہیں جو برائی پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں‘ نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ اس میں سے بھی دیتے رہتے ہیں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ پر اس وحی کا بھی نزول فرمایا کہ آپﷺ اپنی جملہ عبادات کو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کرنے کا اعلان فرما کر امت کو صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے کی تلقین فرمائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الانعام کی آیات 162 تا 163 میں ارشاد فرماتے ہیں ''آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا‘ یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں‘‘۔
قربانی کی تاریخ بہت طویل ہے۔ قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آدم علیہ السلام کے بیٹوں کا اختلاف بھی قربانی کی قبولیت اور عدم قبولیت کی وجہ ہی سے ہوا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعہ کو سورۃ المائدہ کی آیات 27 تا 31 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو‘ ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا‘ ان میں سے ایک کی نذر تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی‘ تو وہ کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا‘ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔ گو تُو میرے قتل کے لیے دست درازی کرے لیکن میں تیرے قتل کی طرف ہرگز اپنے ہاتھ نہ بڑھائوں گا‘ میں تو اللہ پروردگارِ عالم سے خوف کھاتا ہوں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تُو میرا گناہ اور اپنے گناہ اپنے سر پر رکھ لے اور دوزخیوں میں شامل ہو جائے۔ ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ پس اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر دیا اور اس نے اسے قتل کر ڈالا‘ جس سے نقصان پانے والوں میں سے ہو گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کس طرح اپنے بھائی کی نعش کو چھپا دے‘ وہ کہنے لگا: ہائے افسوس! کیا میں ایسا کرنے سے بھی گیا گزرا ہوگیا کہ اس کوے کی طرح اپنے بھائی کی نعش کو دفنا دیتا؟ پھر تو (بڑا ہی) پشیمان اور شرمندہ ہوگیا‘‘۔
قربانی کی اس تاریخ میں ایک نیا رنگ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قربانیوں کے ذریعے بھر ا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مثالی زندگی گزاری۔ آپ دعوتِ توحید کے حوالے سے جوانی ہی میں سینہ سپر ہو گئے اور ہمیشہ توحیدِ خالص کی دعوت دی اور اس سلسلے میں کسی کی مخالفت کی پروا نہیں کی۔ آپ علیہ السلام نے جوانی میں بت کدے میں جا کے کلہاڑے سے تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور دربارِِ نمرود میں بھی صدائے توحید کو بلند فرمایا۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت میں وادیٔ بے آب و گیاہ میں حضرت ہاجرہ کو بڑھاپے میں پیدا ہونے والے ننھے اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ چھوڑ دیا۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام دوڑ کود کے قابل ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بڑا عجیب خواب دیکھا۔ آپ علیہ السلام نے دیکھا کہ آپ اپنے بیٹے کے گلے پہ چھری چلا رہے ہیں۔ اس واقعے کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الصافات کی آیات 99 تا 106 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''اور اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا: میں تو ہجرت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں‘ وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا۔ اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما۔ تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔ پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے‘ تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا: میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تُو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا جان! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے‘ اِن شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے (باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقینا تُو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا‘ بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا‘‘۔
عید الاضحی کے موقع پہ ہونے والی قربانی درحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اسی عظیم الشان قربانی کی یادگار ہے۔ جس وقت ہم قربانی کرتے ہیں‘ ہمیں سورۃ الحج میں مذکور یہ درس ضرور یاد رہنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو محض ہمارے دل کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الحج کی آیت نمبر 37 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اُسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے‘‘۔ اگر جانور کے گلے پر چھری چلاتے ہوئے ہم اپنی ناجائز تمنائوں او ر خواہشات کی قربانی دیتے ہیں تو یقینا اس قربانی کے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہونے کے روشن امکانات ہیں۔ لیکن اگر ہم جانور کے گلے پر چھری تو چلاتے ہیں اور اللہ کے خوف اور اس کی محبت کودل میں جگہ نہیں دیتے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کوہمارے بہائے ہوئے لہو اور گوشت کی کوئی ضرورت نہیں۔
اِس موقع پر قربانی کے بعض احکامات و مسائل کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی۔ الخدمت فائونڈیشن کے ذمہ داران‘ کارکنان و سامعین نے بڑی دلجمعی اور توجہ سے تمام گزارشات کو سنا اور تقریب کے بعد تنظیم کے ذمہ داران کے ساتھ ایک خوبصورت نشست بھی ہوئی اور انہوں نے مجھے یادگاری شیلڈ پیش کی۔ یو ں یہ تقریب اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوئی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں