ایشیائی ترقیاتی بینک نے کہا ہے کہ اس کی امداد آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے اگلا معاہدہ ہو جاتا ہے تو اے ڈی بی بھی پاکستان کی مدد کرے گا‘ جبکہ آئی ایم ایف نے اپنی سٹاف رپورٹ میں کہا ہے کہ نئی حکومت نے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پالیسیوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے تاہم پاکستان میں سیاسی بے یقینی برقرار ہے اور پاکستانی معیشت کے لیے منفی خطرات غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں۔ پاکستان کے ساتھ نئے قرض پروگرام پر مذاکرات کے لیے پہلے مرحلے میں آئی ایم ایف کی تکنیکی ماہرین کی ٹیم پاکستان پہنچ چکی ہے اورمذاکرات کا آغاز 15 مئی سے شیڈول ہے۔ آئی ایم ایف مشن چیف نیتھن پورٹر وفد کی قیادت کریں گے جبکہ ان کی وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر حکام سے ملاقاتوں کا بھی امکان ہے۔ نیا قرض پروگرام چھ سے آٹھ ارب ڈالرز اور تین سال یا اس سے زیادہ دورانیے پر محیط ہو سکتا ہے۔ فی الحال ایف بی آر کے ٹیکس اہداف حاصل نہ کرنے پر آئی ایم ایف کو مطمئن کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ معاشی طور پر ملک اب بھی آئی سی یو میں ہے‘ اگرچہ فوری طور پر لیکویڈیٹی بحران کو حل کر دیا گیا ہے اور ڈیفالٹ سے بچا لیا گیا ہے اور اس سے مارکیٹ کو کچھ اعتماد بھی حاصل ہوا ہے۔ اس سے قبل جب یورو بانڈ کی ادائیگی واجب الادا تھی تو قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ آیا ملکی خزانہ بانڈز کی ادائیگی کرنے کے قابل ہو گا یا نہیں‘ اس طرح کے منفی تبصروں نے تناؤ پیدا کر دیا تھا اور مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ شروع ہو گیا جس سے شرح مبادلہ میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ تاہم اپریل میں ایک ارب ڈالر یورو بانڈ کی ادائیگی بروقت کر دی گئی جس سے مارکیٹ کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں مزید معاشی نسخوں کی ضرورت نہیں ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان جانتا ہے کہ اسے کیا کرنے کی ضرورت ہے لیکن وہ کبھی کرتا نہیں ۔ ہمارے مسائل کا حل یہی ہے کہ جو ہم جانتے ہیں اس پر عملدرآمد کیا جائے۔ معیشت آہستہ آہستہ بحال ہو رہی ہے‘تاہم اب بھی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال کو دور کرنے کا انحصار حکومت کی اقتصادی اور ساختی اصلاحات کو نافذ کرنے کے عزم اور صلاحیت پر ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل ایک اچھا اقدام ہے‘ پاکستان کو غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے طویل المدتی منظم حل کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں ایک اہم عنصر فرموں کی ملک سے باہر منافع واپس بھیجنے کی صلاحیت ہے۔ اسی وقت سرمایہ کاروں کو یقین ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں پیسہ کمانا ممکن ہے۔ اس وقت منافع کی منتقلی ایک مشکل کام ہے۔
دوسری طرف ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر نو ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔ روپے کی قدر مستحکم اور افراطِ زر میں کمی آ رہی ہے۔ پچھلے 8 سے 10 ماہ میں میکرو اکنامک اشاریے صحیح سمت میں آگے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مالیاتی سطح پر نظم و ضبط آیا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دو سے تین مہینے سرپلس تھا اور اس مالی سال کے مجموعی خسارے میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں نئے ریکارڈز قائم ہوئے ہیں۔ یہ سب اہم اشاریے ہیں۔ بظاہر سرمایہ کار حکومت‘ بالخصوص خصوصی سرمایہ کاری کونسل پر اعتماد کر رہے ہیں۔جیسا کہ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ حکومت کا کام پالیسی بنانا ہوتا ہے‘ اصل کام نجی شعبے نے کرنا ہوتا ہے۔ مشکل سے نکلنے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کو لیڈ کرنا ہوتا ہے‘ حکومت اس حوالے سے صرف پالیسی دے سکتی ہے۔ حکومت گورننس کو بہتر بناتی ہے نہ کہ اداروں کو خود چلانے لگتی ہے۔ اس وقت تین شعبوں میں سٹرکچرل ریفارمز پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا ٹیکس ٹو جی ڈی پی۔ دوسرا‘ سرکاری اداروں کی نجکاری اور تیسرا توانائی۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں قانون پر عمل درآمد کرانا ضروری ہے۔ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر عمل در آمد نہیں ہو رہا۔ لیکیجز کو روکنا اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا چاہیے۔ اپریل میں ٹیکس رجسٹریشن کے لیے مہم کا آغاز کیا گیا تھا مگر لوگوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ٹیکس نیٹ میں آنے کے بعد انہیں مسلسل ہراساں کیا جائے گا۔ سرکار کو چاہیے کہ وہ عوام کو سہولت دے‘ ان کے تحفظات کو دور کرے مگر ٹیکس نیٹ میں لانے کی مہم سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ ٹیکس نیٹ سے باہر شعبوں کو ٹیکس میں لانے کے لیے دیگر اداروں کا سہارا لینے کے بجائے ایف بی آر کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ایف بی آر کے پاس تقریباً تیس ہزار سے زائد کا سٹاف ہے اور براہِ راست ٹیکس ریکوری صرف دو فیصد ہے۔ تقریباً اٹھانوے فیصد ٹیکس وِد ہولڈنگ کے ذریعے اکٹھا کیا جاتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ود ہولڈنگ ٹیکس لگ بھگ ختم ہو چکا ہے‘ وہاں سرکار خود ٹیکس اکٹھا کرتی ہے لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ جب ایف بی آر پراپرٹی پر 7E ٹیکس اکٹھا نہیں کر پاتا تو رئیل اسٹیٹ والوں سے کہا جاتا ہے کہ آپ یہ ٹیکس اکٹھا کرکے ہمیں جمع کرائیں۔ نان فائلرز سے ٹیکس اکٹھا کرنے کی ذمہ داری بینکوں پر ڈال رکھی ہے۔ نان فائلرز گاڑیاں خریدنے والوں سے ٹیکس کولیکشن کی ذمہ داری آٹو کمپنیوں پر ہے۔ اب ٹیلی کام کمپنیوں پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ نان فائلرز کی سم بند کریں۔ اگر ٹیکس اکٹھا کرنے کا سارا کام انہی اداروں نے کرنا ہے تو پھر ایف بی آر کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا سائز اور بجٹ کم کر دینا چاہیے یا اسے ٹھیکے پر دے دینا چاہیے جیسا کہ وزیراعظم صاحب فرما چکے ہیں۔
اس وقت نجکاری کے حوالے سے کافی کام ہو رہا ہے۔ نجکاری کمیٹی نے چوبیس اداروں کی نجکاری کی سفارش کی ہے۔ اس حوالے سے محض خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کرنی چاہیے اور منافع بخش اداروں کو اس فہرست میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت کا دائرہ کار سٹرٹیجک اور ضروری ریاستی اداروں تک ہونا چاہیے۔ سٹرٹیجک اور اہم ریاستی ملکیتی اداروں کی بھی درجہ بندی کی جانی چاہیے۔ درجہ بندی میں نہ آنے والے اداروں کو نجکاری میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ جن چوبیس اداروں کو نجکاری فہرست میں شامل کیا گیا ہے ان میں زرعی ترقیاتی بینک‘ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن‘ بجلی کے پیداواری یونٹس اور تقسیم کار کمپنیاں شامل ہیں۔ سٹیٹ لائف انشورنس‘ سندھ انجینئرنگ لمیٹڈ اور پاکستان ری انشورنس کارپوریشن بھی نجکاری کی فہرست میں شامل ہیں۔ ممکنہ طور پر اگلی میٹنگ میں نجکاری پروگرام کو مرحلہ وار حتمی شکل دی جا سکتی ہے۔
اس وقت توانائی کے سیکٹر پر بھی کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری سمیت اندرونی معاملات پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ ملکی مسائل میں بڑا حصہ توانائی کے شعبے نے ڈالا ہے۔ مہنگی بجلی پیدا کرنے کے نظام اور آئی پی پیز معاہدوں نے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سستی اور ماحول دوست بجلی کی پیداوار کو سپورٹ کرے۔ اس سے توانائی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ جہاں آئی پی پیز کا خیال رکھا جا رہا ہے وہیں گھروں اور فیکٹریوں میں سولر لگانے والوں کا بھی خیال کیا جائے۔ ہر گھر اور فیکٹری‘ جہاں سولر سسٹم لگا ہے‘ وہ آئی پی پی کے مساوی ہے اور سرکار کو سستی بجلی بنا کر بیچ رہے ہیں لیکن حکومت انہیں تنگ کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے۔ کسی ڈویژن میں تین ماہ قبل پیدا کیے گئے بجلی یونٹس سرکار نہیں خرید رہی‘ کہیں یہ مدت چھ ماہ ہے اور کہیں ایک سال ہے۔ مختلف علاقوں میں سولر کے حوالے سے مختلف چارجز وصول کیے جا رہے ہیں۔ اگر عام آدمی بجلی کے معاملے میں خود مختار ہونا چاہتا ہے تو سرکار کو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ توانائی کے مسائل اسی طرح حل ہو سکتے ہیں۔