"HAC" (space) message & send to 7575

عالمی سیاست میں پاکستان کا کردار

جنوبی ایشیا اور اس سے آگے کے خطے میں پاکستان کے کردار پر علمی بحث نے مختلف وقتوں پر پاکستان کو مختلف انداز میں دیکھا ہے۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں نے 1990 ء کی دہائی میں پاکستان کو ایک ممکنہ علاقائی اثر و رسوخ کے طور پر دیکھا۔ تاہم ان کی تشخیص 21 ویں صدی کی دوسری دہائی کے شروع میں بدل گئی جب زیادہ تر تجزیہ کاروں نے علاقائی سیاست کو مثبت انداز میں ڈھالنے کی پاکستان کی صلاحیت کے بارے میں سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ یہ مضمون کچھ ایسے مسائل کا احاطہ کرتا ہے‘ اور اگر پاکستان کو جنوبی ایشیا اور اس سے آگے سیاسی طور پر ہم آہنگ اور معاشی طور پر مستحکم ریاست بننا ہے تو‘ ان مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سنہری اصول یہ ہے کہ کسی ملک کا عالمی کردار اس کی داخلی سیاسی اور معاشی طاقتوں اور کمزوریوں پر منحصر ہوتا ہے۔سرد جنگ کے خاتمے اور دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے سے دو عالمی طاقتوں کے ذریعے عالمی نظام کے تسلط کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بجائے وہ ریاستیں نمایاں ہوئیں جو مختلف خطوں میں ان کے سائز‘ قدرتی وسائل اور معاشی صلاحیت‘ ٹیکنالوجی اور صنعت اور فوجی طاقت کی وجہ سے اہم تھیں۔ ان کے علاقائی سیاسی اثر و رسوخ نے انہیں عالمی سطح پر توجہ مبذول کرانے کے قابل بنایا۔ عالمی سیاست کے بہت سے تجزیہ کاروں نے ان ممالک کے بارے میں بات کرنا شروع کی جن کی پالیسیاں ان کے علاقوں اور باہر کی سیاست کو متاثر کرسکتی ہیں اور ان ریاستوں کو علاقائی اثرورسوخ والی ریاستوں کا نام دیا‘یعنی ایسی ریاستیں جو سیاسی استحکام‘ معاشی لچک‘ ہم آہنگی اور علاقائی امن کو فروغ دے کر اپنے خطے کی سیاست کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بیشتر مصنفین نے پاکستان کو علاقائی طور پر اہم ریاست کے زمرے میں رکھا جس کی پالیسیاں اس کے پڑوس اور اس سے آگے کے خطوں کیلئے سیاسی اور معاشی استحکام اور علاقائی سلامتی کیلئے اہمیت رکھتی ہیں۔
1990ء کی دہائی میں پاکستان کے بارے میں اندازہ یہ تھا کہ اس کے پاس فعال جمہوریت اور علاقائی استحکام کا سبب بننے کے وسائل اور صلاحیت موجود ہے۔ پاکستان کی فوجی اور سیاسی حکمت عملیوں کو عالمی سطح پر سراہا گیا تھا کیونکہ پاکستان کی حمایت یافتہ افغان مزاحمت 1989ء میں افغانستان سے سوویت فوجیوں کے انخلا کا سبب بنی تھی اور 1996ء میں پاکستان نے طالبان کی حمایت کی تھی‘جنہوں نے کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔ پاکستان کی معیشت کو معاشی دباؤ سے نمٹنے کیلئے کافی لچکدار سمجھا جاتا تھا اور خیال یہ تھا کہ 1990ء میں امریکی معاشی و فوجی امداد کی معطلی کے باوجود یہ مثبت سمت میں آگے بڑھتی رہے گی۔ پاکستان کے اندر تشدد اور دہشتگردی موجود تھی لیکن بے قابو نہیں تھی اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان محاذ آرائی کے باوجود سیاسی تسلسل اور استحکام میں کوئی شک نہیں تھا۔
بیشتر تجزیہ کاروں نے 1990ء کی دہائی کے دوران سوچا تھا کہ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے معاشی فوائد حاصل کر سکے گا۔ اس کے افغانستان‘ وسطی ایشیا‘ مشرقِ وسطیٰ‘ چین اور بھارت کے ساتھ زمینی رابطے تھے۔ ایسا ملک اقتصادی تعاون‘ تجارت‘ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ریلوے کنکشنز اور پائپ لائنز کے ذریعے گیس اور تیل کی نقل و حرکت کیلئے ٹرانزٹ روٹ کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ اس قسم کی معاشی سرگرمی کو زراعت اور مقامی صنعت کے ساتھ مل کر پاکستان کی معیشت کیلئے طاقت کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ بہت سے مغربی کثیر القومی تعاون نے پاکستان میں صارفین کے سامان کیلئے اپنے پروڈکشن یونٹ قائم کرنے اور ان مصنوعات کو سڑک کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ چین نے پاکستان اور ایران کے ساتھ زمینی راستوں کو استعمال کرنے کا بھی سوچا‘ تاہم پاکستان کی معیشت کی توسیع اور خطے میں استحکام کے طور پر اس کے کردار کے بارے میں امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ 2004ء کے بعد سے دہشت گردی اندرونی امن و استحکام کیلئے ایک بڑے خطرے کے طور پر ابھری ہے۔ جیسے جیسے معیشت کمزور ہوتی گئی‘ سیاست پولرائزیشن اور تقسیم کا سبب بنی۔
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آغاز تک مختلف سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں نے پاکستان کو ''سب سے خطرناک جگہ‘‘ کے طور پر بیان کرنا شروع کر دیا۔ اکتوبر 2007ء میں نیوز ویک انٹرنیشنل کی ٹائٹل سٹوری میں کہا گیا تھا کہ ''دنیا کی سب سے خطرناک قوم عراق نہیں‘ پاکستان ہے‘‘۔ پاکستان کی داخلی‘ سیاسی‘ معاشی اور سلامتی کی صورتحال پر ایک کتاب کا عنوان ''Descent into Chaos‘‘ تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے پاکستان پر دہشت گردی کے بارے میں دہری پالیسی کا الزام لگایا‘ جس نے کچھ عسکریت پسند گروہوں کی حمایت کی اور کچھ کے خلاف سخت کارروائی کی۔ پاکستان نے اس تنقید کو مسترد کردیا لیکن زیادہ تر ریاستیں پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کرتی رہیں۔ نومبر 2008ء میں بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ایک نئی نچلی سطح پر پہنچ گئے۔ ان کے دو طرفہ تعلقات میں گراوٹ اگست 2019 ء میں ہوئی جب بھارت نے کشمیر کی ریاستی حیثیت سے انکار کیا اور اسے دو یونین علاقوں میں تقسیم کر لیا۔ اگست 2021ء میں کابل میں طالبان حکومت کے ساتھ پاکستان کو سکیورٹی سے متعلق سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
علاقائی اثر و رسوخ یا درمیانی سطح کی علاقائی طاقت کے طور پر پاکستان کی پسماندگی کی وضاحت کئی عوامل سے کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے بڑے حفاظتی مسائل کا تعلق خطے سے ہے۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ پریشان کن تعلقات نے تنازع کو بڑھاوا دیا اور سکیورٹی کے دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ بیرونی سلامتی کے خدشات کو کم کرنے اور اندرونی سیاسی اور معاشی صورتحال کی طرف سے توجہ ہٹانے کیلئے بھارت اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنا ضروری ہے۔ دوسرا عنصر غالب شہری‘ بیوروکریٹک اور عسکری اشرافیہ کے مزاج سے متعلق ہے۔ اگر غالب اشرافیہ اپنے تنگ اور ذاتی مفادات کی خدمت کیلئے زیادہ پُرعزم ہے اور ریاستی وسائل سے فائدہ اٹھانے کیلئے عوامی عہدے تک رسائی کا استعمال کرتی ہے تو ریاست اپنے معاشی مسائل پر قابو نہیں پا سکتی۔ اگر غالب اشرافیہ اپنے وفاداروں کو ریاستی وسائل تقسیم کرتی ہے اور انسانی فلاح و بہبود اور معاشرتی ترقی کیلئے کام کرنے کے بجائے اپنی ذاتی مالی سلطنتوں کی تعمیر میں مدد کرتی ہے تو ریاست سماجی و معاشی عدم مساوات‘ غربت اور پسماندگی میں اضافے کا سامنا کرتی ہے۔ تیسرا‘ کوئی بھی ریاست علاقائی توازن یا درمیانی سطح کی طاقت کا کردار ادا نہیں کر سکتی اگر اسے شدید اندرونی تقسیم اور اختلافی تحریکوں یا گہری سیاسی پولرائزیشن کا سامنا ہو۔ اندرونی طور پر منقسم ریاست علاقائی اور عالمی سطح پر بااثر کھلاڑی نہیں بن سکتی۔ چوتھا‘ ایک ریاست جو ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے وہ خطے کو متاثر کرنے کیلئے سفارتی اثر و رسوخ مہیا نہیں کرسکتی۔ پانچویں بات یہ کہ نہ تو جمہوری نظام سب سے زیادہ اہم ہے اور نہ ہی آمریت۔ اہم عہدیداروں اور اداروں کی حکمرانی کا معیار‘ تعلیم اور صحت کی سہولتیں‘ قانون کی حکمرانی اور ملازمت پیدا کرنے والی معیشت پر توجہ کے ساتھ ریاست انسانی وسائل کی ترقی پر کتنی توجہ دیتی ہے‘ یہ زیادہ اہم ہے۔عالمی اور علاقائی سطح پر ایک ریاست کا کردار اس ریاست کے غالب اشرافیہ اور ان کی پالیسیوں پر دیگر ریاستوں کے اعتماد سے بھی متاثر ہوتا ہے‘یعنی دیگر ریاستوں سے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کرنے کی اس کی صلاحیت کا عالمی تاثر کیا ہے ؟پاکستان ان ڈومینز میں بہتر کارکردگی دکھائے تو خطے میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں