کانو صاحب بہت اچھے آدمی تھے۔ پڑھے لکھے اور آسودہ حال! واحد مصروفیت اخبار بینی تھی۔ اور یہ اخبار بینی ہی ان کے گھر والوں کے لیے مصیبت بنی ہوئی تھی۔
اخبار ہارڈ کاپی نہیں پڑھتے تھے۔ کمپیوٹر پر پڑھتے تھے۔ اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ (یہ آگے چل کر آپ جان جائیں گے) ایک دو اخبارات پر قناعت نہیں کرتے تھے۔ ملک بھر کے تمام اخبارات‘ جو انٹرنیٹ پر پڑھے جا سکتے تھے‘ پڑھتے تھے۔ پڑھنے کا لفظ شاید موزوں نہیں۔ وہ اخبارات پڑھتے نہیں‘ بلکہ ایک ایک سطر‘ ایک ایک فقرہ‘ ایک ایک لفظ ماپتے اور تولتے تھے۔ بیگم صاحبہ سخت مزاج تھیں۔ ان کے سامنے بات کرنے کا یارا نہ تھا۔ بچے اپنے اپنے کام پر چلے جاتے تھے۔ بیگم پر جو غصہ ہوتا‘ اور بیگم صاحبہ کے زیر دست ہونے کی وجہ سے یاس کی جو ایک عمومی اور مستقل کیفیت تھی‘ اس کا توڑ کانو صاحب نے یہ نکالا تھا کہ جہاں جہاں کمنٹ کرنے کی گنجائش تھی‘ کمنٹ کرتے اور اندر کا سارا زہر باہر نکال دیتے۔ کالم نگار ان کا پسندیدہ شکار تھے۔ کالموں کے نیچے ایسے ایسے کمنٹ لکھتے کہ بندہ سن کر یا پڑھ کر کانوں کو ہاتھ لگائے۔ اخبار والوں سے بھی دل میں دشمنی پالی ہوئی تھی کیونکہ وہ ان کے طعن و تشنیع اور دشنام سے بھرے کمنٹس کو متوازن اور مہذب کر دیتے تھے۔ یہ بات کانو صاحب کو گوارا نہیں تھی۔ ایسے مواقع پر ان پر ایک دورہ سا پڑ جاتا۔ مرگی جیسی کیفیت طاری ہو جاتی۔ ہاتھ پاؤں مُڑ جاتے۔ منہ سے جھاگ نکلنے لگتی۔ گردن اکڑ جاتی۔ زمین پر لوٹنے لگتے۔ نیم بے ہوشی کے عالم میں اخبار والوں کے بارے میں نا زیبا کلمات کہتے۔ گھر والوں کو مصیبت پڑ جاتی۔ کئی بار ایسے مواقع پر ہسپتال لے جائے گئے۔ ہوش میں آتے تو ڈاکٹروں اور نرسوں کو بے نقط سناتے کہ جب کوئی مرض نہیں تو علاج کس چیز کا ہو رہا ہے۔
کانو صاحب نے ایک رجسٹر رکھا ہوا تھا۔ اس میں ہر کالم نگار کے لیے کچھ صفحات مخصوص کیے ہوئے تھے۔ ہر کام نگار کی ذاتی زندگی کے بارے میں جو کچھ کہیں سے ملا‘ وہاں نوٹ کیا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ ہر ایک کی عمر‘ اس کے بچوں کی تعداد‘ بچوں کے پروفیشن‘ کہاں کہاں ہیں‘ بیرون ملک ہیں تو کس کس ملک میں ہیں‘ کالم نگار نے کہاں کہاں ملازمت کی‘ کون کہاں کا ہے‘ غرض تمام ممکنہ معلومات نوٹ کی ہوئی تھیں۔ کانو صاحب کا ریکارڈ تھا کہ کبھی کسی کالم نگار کی تعریف نہیں کی۔ کوئی حکومت پر تنقید کرتا تو کمنٹ میں حکومت کے خیر خواہ بن جاتے۔ حکومت کی تعریف کرتا تو کمنٹ میں حکومت کے پرخچے اڑا کر رکھ دیتے۔ ساتھ ہی کالم نگار کو رگڑا لگاتے۔ کوئی کالم نگار پاکستان مخالف امریکی پالیسیوں پر تنقید کرتا تو رجسٹر میں اس کالم نگار کے کوائف کھنگالتے۔ اگر اس کی بچی یا بچہ امریکہ میں پڑھ رہا ہوتا یا ملازمت کر رہا ہوتا تو کانو صاحب پھول کی طرح کھِل اُٹھتے۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ کمنٹ میں کالم کے نفس مضمون کو نظر انداز کرتے ہوئے کالم نگار پر بچوں کے حوالے سے ایسے ایسے تیر‘ بھالے اور نیزے پھینکتے کہ خدا کی پناہ! ایسا کرتے ہوئے ان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ ہوتی‘ دل اطمینان سے بھرا ہوا ہوتا اور چہرے پر بشاشت آ جاتی! اگر کوئی کالم نگار کسی سیاستدان پر تنقید کرتا تو وہ کمنٹ میں لکھتے کہ تمہیں تو اس سے بغض ہے۔ کالم نگاروں کے سروں پر وہ الفاظ اور وہ فقرے تھوپتے جو انہوں نے زندگی میں کبھی نہیں لکھے تھے۔ پھر ترنگ میں آ جاتے۔ دوستوں کو فون کر کر کے بتاتے کہ آج فلاں کالم نگار کی ایسی تیسی کر دی۔ صوبائیت اور علاقائیت بھی پھیلاتے۔ کالم نگار پنجاب کا ہوتا تو اسے پنجابی ہونے کا طعنہ دیتے۔ سندھ کا ہوتا تو سندھی ہونے کا طعنہ دیتے۔ کسی کو پوٹھوہار کے حوالے سے گالیاں دیتے۔ بہت سوں نے ان کی ای میل بلاک کر رکھی تھی مگر اس کا انہیں علم نہیں تھا۔ ای میل بلاک کر دی جائے تو ای میل کرنے والا بے خبر رہتا ہے۔
ایک دن کانو صاحب اپنے کمرے میں بیٹھے تھے۔ شام کا وقت تھا۔ ان کی بیگم اور بچے لاؤنج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ اچانک کمرے سے اونچی اونچی آوازیں آنے لگیں۔ پھر گالیاں‘ ننگی گالیاں سنائی دینے لگیں۔ گھر والوں کو گمان گزرا کہ کوئی کانو صاحب کے کمرے میں گھس کر ان سے جھگڑ رہا ہے۔ سب بد حواس ہو کر ان کے کمرے کی طرف بھاگے۔ اندر داخل ہوئے تو کانو صاحب منہ سے مغلظات بک رہے تھے اور ہاتھوں سے اپنے بال نوچ رہے تھے۔ پھر انہوں نے کمرے کی چیزوں کو ادھر ادھر پھینکنا شروع کر دیا۔ تکیہ دیوار پر دے مارا۔ گلدان سنگھار میز کے شیشے پر پھینکا‘ جو چکنا چور ہو گیا۔ بیوی اور بچوں نے بڑی مشکل سے پکڑ کر کرسی پر بٹھایا۔ پانی پلایا۔ پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگے: فلاں کالم نگار کو وٹس ایپ پر پیغام بھیجا تھا۔ جواب دینے کے بجائے اس نے بلاک کر دیا ہے۔ اس کی یہ جرأت؟ میں اسے چھوڑوں گا نہیں! یہ کہا اور غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں۔ پھر جیسے ان پر جنون کا دورہ پڑا۔ کافی دیر کے بعد ٹھنڈے ہوئے تو بیگم نے پوچھا کہ وٹس ایپ پر کالم نگار کو کیا پیغام بھیجا تھا۔ کانو صاحب نے انتہائی سادگی اور کمال معصومیت سے بتایا کہ صرف اتنا لکھا تھا کہ تم لفافہ صحافی ہو! بیگم پہلے تو خوب ہنسی اور پھر گرج کر پوچھا کہ اس گندے اور گھناؤنے الزام کے بعد وہ تمہیں بلاک نہ کرتا تو کیا تمہارے مرحوم والدین کے لیے سورہ یٰسین پڑھتا ؟ یہ بھی کانو صاحب کی اذیت رساں رگ کا خاص مشغلہ تھا۔ کبھی کالم کے نیچے کمنٹ میں لکھتے کہ تم Paid ہو۔ کبھی لکھتے کہ تم سے یہ‘ یا وہ‘ لکھوایا گیا ہے۔ مگر اب کے انہوں نے لفافہ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اس سے ان کی طبیعت کو بہت سکون ملا تھا۔ خیر بیگم نے ڈانٹا بھی اور سمجھایا بھی! چند دن گزرے تھے کہ عدالت سے سمن موصول ہوا۔ جس کالم نگار کو کانو صاحب نے وٹس ایپ پر لفافہ صحافی ہونے کا طعنہ دیا تھا‘ اس نے پولیس اور دوسرے اداروں کی مدد سے ان کا محلِ وقوع اور گھر کا ایڈریس معلوم کرا لیا تھا۔ پھر اس نے موصول شدہ وٹس ایپ پیغام کی بنیاد پر ان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا اور عدالت سے درخواست کی کہ ان سے پوچھا جائے میں نے کس سے‘ کب‘ اور کیسے لفافہ وصول کیا ہے؟ کانو صاحب کا سر گھوم گیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسا ہو گا۔ وہ تو اپنی آرام دہ خوابگاہ میں بیٹھ کر‘ گالیوں‘ افترا پردازیوں اور الزامات کی منجنیقوں سے پتھر پھینک پھینک کر لطف اندوز ہوتے تھے اور اس زعم میں تھے کہ کسی کو کیا خبر میں کون ہوں اور کہاں رہتا ہوں!
کانو صاحب نے وکیل کیا۔ اس نے پانچ لاکھ روپے مانگے۔ منت ترلہ کرنے کے بعد اور کہہ کہلوا کر تین لاکھ کی فیس طے ہوئی۔ وکیل نے فیس پہلے لی اور بات بعد میں کی۔ وکیل کا پہلا سوال یہ تھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت یا گواہ ہے جس کی رُو سے آپ نے کالم نگار پر لفافہ لینے کا الزام لگایا؟ کانو صاحب نے ممیاتے ہوئے جواب دیا کہ ثبوت تو کوئی نہیں! وکیل زیر لب مسکرایا۔ اسے دو اور دو چار کی طرح معلوم تھا کہ کانو صاحب پھنسے ہی پھنسے مگر تین لاکھ روپے وہ لے چکا تھا۔ عدالتی کارروائی میں وکیل نے بس ہوں ہاں کر کے اپنی موجودگی کا ہلکا سا احساس دلایا۔ دلیل کوئی نہ تھی۔ جج نے ثبوت مانگا۔ کانو صاحب گول گول دیدے گھمانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکے۔ انہیں کالم نگار سے زبانی اور تحریری معافی مانگنی پڑی!
اپنے ارد گرد دیکھیے۔ بہت سے کانو صاحبان دکھائی دیں گے!