الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات ملتوی کرنے کا قانونی اختیار نہیں:چیف جسٹس:فل کورٹ سماعت کرے:اٹارنی جنرل

الیکشن  کمیشن کے  پاس  انتخابات  ملتوی  کرنے  کا  قانونی  اختیار  نہیں:چیف  جسٹس:فل  کورٹ  سماعت کرے:اٹارنی  جنرل

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوامیں عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ایمرجنسی لگا کر ہی انتخابات ملتوی ہوسکتے۔

 الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات ملتوی کرنے کا قانونی اختیار نہیں، ملک کو بحران کے حوالے نہیں کرسکتے ،آٹے کیلئے لائنیں لگیں،آپس میں دست و گریبان کی بجائے انکا سوچیں،الیکشن کیلئے ہماری تنخواہوں پر کٹ لگایا جاسکتا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان کو خوش آمدید کہا اور ریما رکس دئیے کہ امید ہے اٹارنی جنرل معاملے میں بھر پور قانونی معاونت کریں گے ،اٹارنی جنرل نے کہا یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے ، دو ججز نے پہلے فیصلہ دیا،عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی،عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے ، موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عملدرآمد کی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا اس وقت سوال فیصلے کا نہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے ،بینچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے کیلئے بیٹھے ہیں،اٹارنی جنرل کا انحصار تکنیکی نکتے پر ہے ،ان کے آغاز سے مایوس ہوا ہوں،سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا،اٹارنی جنرل تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں، سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے ،اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے ،لوگ آٹے کیلئے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں،تحریک انصاف اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملکی حالات کو بہتر کیا جائے ،تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے ،اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے ،انتخابات کرانے کیلئے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے۔

الیکشن کیلئے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے ،بیس ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے ،حکومت اخراجات کم کر کے بیس ارب نکال سکتی ہے ،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا یکم مارچ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے ،یہ بتائیں کہ کیا نوے روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے ؟کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے ؟ نوے دن اب بھی گزر گئے ہیں،آئین کی ہمارے ملک میں کوئی پروا نہیں کرتا،الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں،یہاں سوال یہ ہے کہ اب نوے دن سے زیادہ تاریخ کون بڑھائے گا؟سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے ؟اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں،چیف جسٹس نے مزید کہا صدر کے فیصلے کو ختم کرنے کے الیکشن کمیشن کے اقدام کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے ،الیکشن کرانا آئینی تقاضا ہے ،پہلی مرتبہ عدالت انتخابات موخر کرنے کے امکان کا جائزہ لے رہی ہے ،الیکشن ملتوی کرنے کے تنازع کو خلا میں نہیں دیکھیں گے ،سوال یہ ہے کہ کیا مالی دشواریوں اور امن عامہ کی بنیاد پر لمبے عرصے کیلئے انتخابات ملتوی کیے جاسکتے ہیں؟،محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے باعث الیکشن میں محض چالیس دن کی تاخیر ہوئی،الیکشن کے التوا کی قانونی وجوہات موجو دہوں تو بتادیں، جمہوریت کیلئے قانون کی حکمرانی لازمی ہے ،قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، قانون کی حکمرانی نہ ہو تو افراتفری پیدا ہوجاتی ہے اور پورا نظام غیر فعال ہوجاتا ہے ،جمہوریت کیلئے ایک خاص سیاسی ہم آہنگی ضروری ہے ،سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے ،جمہوریت کیلئے انتخابات ضروری ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا عدالتی فیصلہ پر عمل ہو چکا ہے ،صدر مملکت کی دی گئی تاریخ پر الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا،سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدر مملکت کی تاریخ کو تبدیل کر دے۔

الیکشن کمیشن کے پاس نوے دن کے اندر شیڈول ایڈ جسٹ کرنے کا اختیار ہے ،الیکشن کمیشن بظاہر نوے دن سے تاخیر نہیں کرسکتا۔وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیئے کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے ، انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو یہ بحران مزید بڑھے گا، چیف جسٹس نے کہا آپ کی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے ،پی ٹی آئی کو پہل کرنی ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے ،ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے ،معاشی حالات دیکھیں آٹے کیلئے لائنیں لگی ہوئی ہیں،آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ منتخب نمائندے ہوتے ہیں،تحریک عدم اعتماد آجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی،وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے ،الیکشن کمیشن نے پنجاب کی حد تک عدالتی فیصلہ پر عمل کیا،الیکشن کمیشن نے اپنے آرڈر میں آئین کے دو آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا کہ آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں،اگر الیکشن کمیشن آٹھ اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا الیکشن کمیشن تاریخ تبدیل کرنے کیلئے صدر سے رجوع کرسکتا تھا،تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں،وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی کمیشن رجوع کرسکتا ہے ۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا آرٹیکل220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے ،الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے موقف لے کر فیصلہ لکھ دیا،عدالت کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا،انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہو گا،ہر شخص اور ادارہ آئین اورقانون پر عمل کرنے کا پابند ہے ۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی،کیا 90 دن بعد کی تاریخ درست تھی؟ صدر نے بھی الیکشن تاریخ نوے دن کے بعد کی دی،آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں، بیرسٹر علی ظفر نے کہا اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہو سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے ، جسٹس منیب اختر نے کہا اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا،ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ایک ہی دن انتخابات کیلئے رجوع کیا جا سکتا ہے ،الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا،الیکشن کمیشن چھ ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو دو سال بھی کر سکے گا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے یہاں آئین خاموش ہے ، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے ؟ جسٹس منیب اختر نے کہا پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا،سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہو گا؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہو سکتے ،جسٹس منیب اختر نے کہا اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگران حکومت فنڈز کیسے دے گی،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جو مسائل آج ہیں کیا وہ 8 اکتوبر کو نہیں ہو سکتے ،یہ صورتحال ہو تو الیکشن ہی نہیں ہوں گے ،علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کہا فنڈزفراہم نہیں کیے گئے ،جسٹس منیب اختر نے کہا اخبار میں وزیر اعظم کا بیان تھا کہ وفاقی حکومت نے فروری تک 500 ارب ٹیکس جمع کیا،حیرت ہے کہ پانچ سو ارب میں سے بیس ارب نہیں دئیے گئے ۔ علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے حکمنامے کے مطابق سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ فنڈز دینا مشکل ہو گا،وزارت خزانہ نے مشکل کہا تھا انکار نہیں کیا تھا، جسٹس منیب اخترنے کہاسیکرٹری خزانہ نے تو کہا کہ الیکشن کیلئے فنڈز نہ ابھی ہیں نہ آگے ہوں گے ،اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں،حکومت کا کوئی سیکرٹری ایسا بیان کیسے دے سکتاہے ؟،ٹیکس جمع ہو کر وفاقی خزانے میں جاتا ہے ۔پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ فیڈرل کنسولٹیڈ فنڈز پارلیمنٹ کی منظوری سے خرچ ہوتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے پوچھااگر اسمبلی تحلیل ہوجائے تو کیا فنڈز جاری ہی نہیں ہو سکیں گے ؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے ،عام روٹین میں نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے ،سیکرٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سیکرٹری خزانہ منظور کردہ بجٹ سے ہٹ کر فنڈز کیسے دے سکتا ہے ۔ بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ یہ تکنیکی نکتہ ہے کہ پیسے کہاں سے آنے ہیں؟الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے کہ جہاں مسئلہ ہو صرف وہاں پولنگ منسوخ ہو سکتی ہے ،ایسا نہیں ہو سکتا کہ پورا الیکشن ملتوی کر دیا جائے ،گزشتہ سال چیف الیکشن کمشنر نے بتایا تھا کہ نومبر دوہزار بائیس میں الیکشن کیلئے تیار ہیں،اب الیکشن کمیشن اچانک کہتا ہے فنڈز نہیں ہیں،فنڈز نہ ہونا الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ نہیں،الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عملہ موجود ہے ،سکیورٹی فراہم کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ،سکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا ہے ،پولیس نفری کم ہونے کا بہانہ تو ہمیشہ رہے گا۔ چیف جسٹس نے کہا پنجاب کی صورتحال خیبرپختونخوا سے مختلف ہے ،ترکی میں زلزلہ متاثرہ علاقوں کے علاوہ ہر جگہ الیکشن ہو رہے ہیں، ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں،کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے ،علی ظفر نے کہا ایبسلوٹلی ناٹ، چیف جسٹس نے کہا ایبسلوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور کو کہا تھا،چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ کیاالیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کا تعین کرنے کا اختیار ہے ،کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کر سکتا ہے ،الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات کی تاریخ منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دیتا،کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے ،اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی،ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے ،معاشی بحران کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا،بحران سے نمٹنے کیلئے قربانی دینا ہوتی ہے ،پانچ فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے ،خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے ،پنجاب میں اب تک صرف 61 آپریشن ہوئے ،سندھ میں 367 جبکہ خیبرپختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے ،پنجاب کی صورتحال خیبرپختونخوا سے مختلف ہے ۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی الیکشن منعقد ہوئے ،فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں،کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جاسکتا،دہشتگردی کا مسئلہ نوے کی دہائی سے ہے ،کیا نوے کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے ،کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئیں،پیپلزپارٹی کی سربراہ کا قتل بڑا سانحہ تھا،ان تمام حالات کے باوجود انتخابات ہوتے رہے ہیں،مردم شماری کے بعد چار ماہ حلقہ بندی میں بھی لگتے ہیں،2017 سے ایک سیاسی جماعت مردم شماری پر اعتراض کر رہی ہے ،عوام کی نمائندگی ہی شفافیت ہونی چاہیے ،بینظیر بھٹو کی شہادت پر الیکشن صرف چالیس دن آگے ہوئے تھے کیونکہ احتجاج کے باعث الیکشن کمیشن کے دفاتر نظر آتش کردئیے گئے تھے ،الیکشن کیلئے سیاسی پختگی کی ضرورت ہے ، الیکشن کمیشن کا فیصلہ جلد بازی میں لکھا گیا،الیکشن کمیشن کے پاس کوئی اتھارٹی یا قانون نہیں تھا کہ الیکشن تاریخ کی توسیع کرتے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وہ اختیار استعمال کیا جو اسکا تھا ہی نہیں، تاریخ صدر یا گورنر نے دینا ہوتی ہے اور الیکشن کمیشن نے اس کے مطابق شیڈول دینا ہوتا ہے ،تاخیر کو یہ عدالت معاف کرسکتی ہے اور اس عدالت نے تاخیر کو معاف کیا بھی۔جسٹس مندوخیل نے کہا کہ پھر اس کا مطلب ہے کہ مزید تاخیر کو بھی معاف کیا جاسکتا ہے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا الیکشن کمیشن ہائیکورٹ سے بھی رجوع کرسکتا تھا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا اس معاملہ میں سپریم کورٹ کا حکم تھا تو معاملہ یہیں آنا تھا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہائیکورٹ جانے سے آپ کو کیا مسئلہ ہے ،آئین واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہائیکورٹ نے کروانا ہے ، بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایا کہ وقت کی قلت ہے مزید چارہ جوئی میں مزید وقت ضائع نہیں کرسکتے ،معاملہ دو صوبوں کا ہے ایک ہائیکورٹ عمل نہیں کروا سکتی، عوامی مفاد کا معاملہ ہے مناسب ہو گا سپریم کورٹ خود کیس سنے ، الیکشن کمیشن اداروں کو ہدایات جاری کر سکتا ہے ،ادارے عملدرآمد نہ کریں تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے ،الیکشن کمیشن نے عدالت کو کہا تھا وہ تاریخ مقرر نہیں کر سکتے ، عدالت فیصلہ کرے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک خوش ہوں گے ،قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں،غیر آئینی اقدام کے خلاف عدالت ہی آخری دیوار ہے ،آئین کا پہلا اصول اسلام دوسراجمہوریت ہے ،جمہوریت انتخابات سے ہی ہوتی ہے ۔ جسٹس امین الدین خان نے سوال اٹھایا کہ کیا سپیکر پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ مشترکہ درخواست گزار بن سکتے ہیں؟ سپیکر کا منصب تو غیر سیاسی ہوتا ہے وہ کس طرح ایک سیاسی جماعت کے آلہ کار بن سکتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے معاملہ فل کورٹ میں سننے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کو دیکھا جاسکتا ہے ۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف پنجاب کی حد تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا گیا ہے ،گورنر کے پی کا معاملہ سپریم کورٹ میں الگ سے چیلنج ہے ،الیکشن کمیشن کے فیصلے کا دفاع اس کے وکلا کریں گے ،حکومت سے فنڈز اور سکیورٹی کا مطالبہ کیا گیا تھا،پولنگ سٹیشنز پر فوج تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا،فنڈز کے حوالے سے کل سیکرٹری خزانہ سے معلومات لے کر تفصیل دوں گا،آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 170ارب حکومت نے وصول کرنے تھے ،اضافی وصولی کیلئے ضمنی بجٹ دیا گیا،جو معلومات ابھی دے رہا ہوں وہ میری سمجھ کے مطابق ہیں، تیس جون تک 170 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف ہے ،آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ شرح سود میں اضافہ کیا جائے ،شرح سود میں اضافے سے مقامی قرضوں میں اضافہ ہوا،اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق غریب اور صوبے امیر ہوئے ہیں،معاشی صورتحال سے کل آگاہ کروں گا۔اس موقع پر فواد چودھری نے اپنی سیٹ سے کھڑے ہو کر عدالت کو بتایا کہ ترقیاتی منصوبوں کیلئے بھی اراکین کو فنڈز دئیے گئے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ہدایت لے کر آگاہ کروں گا،ترقیاتی فنڈ والی بات شاید پانچ ماہ پرانی ہے ،مسئلہ آئینی اختیار کا نہیں وسائل کی کمی کا ہے ،وزارت دفاع نے کہا کہ سکیورٹی حالات کی وجہ سے فوج فراہم نہیں کرسکتے ،ہوسکتا ہے الیکشن کمیشن نے سوچا ہو تمام اسمبلیوں کی مدت اکتوبر میں مکمل ہوجائے گی،1988 میں انتخابات اگست میں ہونے تھے۔

جنرل ضیا کی وفات کے بعد الیکشن نومبر میں ہوئے ،قائم مقام صدر نے الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کیا تھا،1988 میں بھی فنڈز کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا،سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے سے خلا پر کیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر کہا کہ معاملہ ترجیحات کا ہے ،لیپ ٹاپ کیلئے دس ارب روپے نکل سکتے ہیں تو الیکشن کے لیے بیس ارب کیوں نہیں،جسٹس منیب اختر نے ایک موقع پر کہا کہ کیا ہم سمجھیں قوم دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے ،کیا یہ پھر بنانا ریپبلک بن گیا ہے ، فورسز حکومت کے ماتحت ہوتی ہیں، وہ کیسے کہہ سکتے ہیں ہم نہیں کرسکتے ،ڈیوٹی کرنے میں کیا مسئلہ ہے ؟ڈیوٹی تو ڈیوٹی ہے ، افواج حکومت کے ماتحت ہیں، وہ کیسے سکیورٹی کی فراہمی سے انکار کر سکتے ہیں؟فوج کو الیکشن ڈیوٹی کرنے میں کیا مسئلہ ہے ؟ ذمہ داری تو ذمہ داری ہوتی ہے ، کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرنا چاہیے تھا۔اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ آئینی اختیار استعمال کرنے میں سوال ہو تو معاملہ عدالت ہی آتا ہے ،اس سوال کا بہتر جواب الیکشن کمیشن کے وکیل دے سکتے ہیں،2008 میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کی نئی تاریخ خود دی تھی،کسی جماعت نے الیکشن کی نئی تاریخ کو چیلنج نہیں کیا تھا،2013 میں اس وقت کی سیاسی قیادت نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا،ملک کے اس وقت کے حالات اور اب کے حالات میں فرق ہے ،عدالت کو مردم شماری سے بھی آگاہ کروں گا،مردم شماری ابھی بھی جاری ہے ،سرکاری عملہ مردم شماری میں مصروف ہے ،مردم شماری کے بعد نشستوں کا تناسب بدل جاتا ہے ،جس مردم شماری کے نتائج شائع ہو چکے ہوں اس کی بنیاد پر ہی الیکشن ہوتے ہیں،30 اپریل کو مردم شماری مکمل ہونی ہے ،حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے پر بھروسانہیں کرتے ،مردم شماری کا اثر پنجاب اور کے پی کے میں قومی اسمبلی کے الیکشن پر پڑے گا۔مزید سماعت آج پھر ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں