آئینی بالادستی سے ہی ملک آگے بڑھے گا،آئی ایم ایف کے پاس جانا ناکامی:عاصمہ جہانگیر کا نفرنس

آئینی بالادستی سے ہی ملک آگے بڑھے گا،آئی ایم ایف کے پاس جانا ناکامی:عاصمہ جہانگیر کا نفرنس

لاہور (کورٹ رپورٹر،نیوز ایجنسیاں)لاہور میں منعقدہ دوروزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے آخری روز مقررین نے خطاب میں کہا ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی سے ہی ملک آگے بڑھے گا،آئی ایم ایف کے پاس جانا ناکامی کا اعتراف ہے ۔

لاہور (کورٹ رپورٹر،نیوز ایجنسیاں)لاہور میں منعقدہ دوروزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے آخری روز مقررین نے خطاب میں کہا ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی سے ہی ملک آگے بڑھے گا،آئی ایم ایف کے پاس جانا ناکامی کا اعتراف ہے ۔مقامی ہوٹل میں ہونیوالی کانفرنس کے مختلف سیشنز سے سابق وزیر اعظم و چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر ، پی ٹی آئی کے سینیٹر سید علی ظفر ،سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ ،سربراہ بلوچستان نیشنل پارٹی اختر مینگل،بلوچستان کے وزیر راحیلہ درانی ،پیپلزپارٹی کے رہنما تاج حیدر، فاروق ایچ نائیک، فرحت اللہ بابر ،پشتونخواہ نیشنل عوامی پارٹی کے چیئرمین خوشحال خان کاکڑ،ثوبیہ علیخان ،مسلم لیگ (ن)کے رکن قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی ،یورپین پارلیمنٹ کے سابق رکن جان چشناہان ، جسٹس شہرام سرور چودھری، پراسکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ ،سابق صدر سپریم کورٹ بار یاسین آزاد ،جسٹس (ر)شاہ خاور ، سابق گورنرز سٹیٹ بینک رضا باقر،سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا ، شاہد حفیظ کاردار ،سابق سینیٹر افراسیاب خٹک،رکن صوبائی اسمبلی احمد اقبال ،ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور دیگر نے بھی اظہار خیال کیا۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ 58 ٹو بی کے خاتمے کے بعد عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اب 58(2)بی کا اطلاق عدلیہ کرے گے ،پھر اس کے بعد پہلے میں پھر نواز شریف گھر گئے ،پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں، سیاسی جماعتیں انسانی حقوق، مساوات اور عوام کے حقوق کے تحفظ کا واحد موقع ہیں۔ عدلیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے ،آئین کی بالادستی سے ہی ملک آگے بڑھے گا،عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار ہونا چاہیے ،مارشل لاء نے ہمارے جمہوری کلچر کو تباہ کیا۔ سیدال خان ناصر نے کہا کہ بلوچستان کے تمام مسائل کا حل سیاسی ڈائیلاگ سے ہوگا ، قوم پرست جماعتوں اور تمام سیاسی لوگ سے بات چیت کرنا ہو گی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آئی ایم ایف میں جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم ناکام ہو چکے ہیں، آئی ایم ایف ایک بیوروکریسی ہے ، وہ سب ممالک کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں ،ہم 24 ویں بار آئی سی یو میں جا رہے ہیں، اس سے حل نہیں نکلے گا۔

 سینیٹر سید علی ظفر نے کہا کہ شہری آزادیوں کا تحفظ ہمارا فرض ہونا چاہیے جیسا کہ قائد اعظمؒ نے آزادی کے فوراً بعد اعلان کیا تھا، سیاسی قوتوں نے طویل جدوجہد کے بعد آئین پاکستان تیار کیا اور اب اس کی حفاظت کرنا سیاستدانوں کا فرض ہے ،سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی فوج کو مارشل لا لگانے کا موقع فراہم کرتی رہی اور سیاستدان اپنی ساکھ کھو رہے ۔ ڈاکٹر رضا باقر نے کہاکہ ہماری معیشت کا ستر فیصد حصہ قرض ہے ، ہمارا قرض مسلسل بڑھ رہا ہے ، اگر ہم نے قرض کو ختم کرنا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کو کردار ادا کرنا ہو گا، کیونکہ یہ کسی ایک حکومت کے بس کی بات نہیں ، ہمیں اس کو قومی ترجیح کے طور پر اپنانا ہو گا۔ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہاکہ پاکستان کا کل قرض اس وقت 87 ٹریلین ہے ہم نے پچھلے بارہ سالوں میں قرض ڈبل کر دیا ہم قرض کے ٹریپ میں پھنس گئے اور بنیادی طور پر اس کی وجہ ہمارے فیصلے ہیں۔ ہمیں بجٹ خسارے کوکم کرنے اور ایکسپورٹ بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ سید فرہاد علی شاہ نے کہاکہ انصاف نہ صرف ہوگا بلکہ ہوتا نظر آئے گا۔ اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کو اسلام آباد میں احتجاج نہیں کرنے دیا جاتا، میں پاکستان کی پارلیمنٹ، عدلیہ اور سیاسی جماعتوں سے نا امید ہو چکا ہوں، ہمیں تو ابھی تک یہ حق حاصل نہیں کہ ہم اپنا مدعا بیان کر سکیں۔ یاسین آزاد نے کہا کہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ منتخب حکومت کو اقتدار سے ہٹایا گیا لیکن عدلیہ نے روکنے کے بجائے غیر آئینی اختیارات کو کور فراہم کیا ۔ خوشحال خان کاکڑ نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے ایشو اس وقت اہم مسئلہ ہے ، پاکستان ایک فیڈریشن ہے تو قومی بنیادوں پر صوبے بننے چاہئیں ، تمام عوامی مسائل کے اختیارات صوبوں کے پاس ہونے چاہئیں بجٹ سینیٹ سے پاس ہونا چاہئے ۔ 

شاہد حفیظ کاردار نے کہا کہ ہم آج جس جگہ کھڑے ہیں تو اس کے ہم خود ذمہ دار ہے ، پچھلے 45سال ہماری طرز حکومت ایسی ہی رہی ، ہم خسارے کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں ،آئی ایم ایف کے اگلے پروگرام سے قبل آٹھ ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے ۔ رضا باقر نے کہا کہ اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ سیاسی معاملات کے حل کے بغیر معاشی معاملات ٹھیک نہیں ہو سکتے ،ہمارا خسارہ کیا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے ، 2007سے ہمارا قرضہ بڑھتا گیا ، بجٹ خسارے کی تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ممبر پاکستان بار اختر حسین نے کہاکہ میں اس کانفرنس کے اعلامیے کی حمایت کرتا ہوں، ججز کے معاملے میں سپریم کورٹ صرف یہ طے کرے گی کہ اداروں کی مداخلت غیر قانونی ہے ۔ سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ 73 کے آئین کی بناد پر بننے والا سوشل کنٹڑیکٹ ختم ہوچکا ، نیا سوشل کنٹریکٹ تحریر کرنا ہوگا ۔سابق مئیر نارووال احمد اقبال نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد بھی صوبوں کو وہ نہ مل سکا جو ملنا چاہیے تھا،30سال پہلے کی نسبت آج بھی دیہات میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں ۔ عبد المالک بلوچ نے کہا کہ اس وقت آئین خود اپنا تحفظ مانگ رہا ہے ،بلوچستان میں الیکشن نہیں آکشن ہوئی ،جس نے مال لگایا وہ جیت گیا،جب تک عوامی نمائندے پارلیمان میں نہیں آئیں گے جمہوریت نہیں آئیگی ، بلوچستان کی محض 17 سیٹیں ہیں وہ بھی کسی کی مرضی سے طے ہوتی ہیں ۔ راحیلہ درانی نے کہا سیاست میں آنا عورتوں کیلئے پھولوں کی سیج نہیں کیونکہ انھیں اتنی آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا ،2015 میں سپیکر بنی تو 10 ماہ تک نوٹیفکیشن ہی جاری نہ کیا گیاں ۔

سابقہ رکن اسمبلی خیبر پختونخواثمر بلور نے کہااپنی آواز کی طاقت سے ہی عورت مضبوط بنے گی ۔ڈاکٹر سویر ا پرکاش نے کہا کہ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے یہ جدوجہد جاری رہنی چاہیے ۔ سابق رکن اسمبلی مہناز اکبر عزیز نے کہا الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتی ہوں کہ ویب سائیٹ پر الیکشن میں خواتین کے کردار بارے ڈیٹا اپ لوڈ کرے ۔ ٹرانس جینڈر ثوبیہ علیخان نے کہا کہ علاج ، تعلیم، ملازمت اور اسمبلی سمیت تمام جگہوں پر ٹرانس جینڈرزکیلئے مواقع پیدا کئے جائیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سابق سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ پاکستانی عوام انتخابی نظام پر اعتماد نہیں کرتے ، پی ٹی آئی الیکشن نظام میں تبدیلی کا معاملہ ایوان میں پیش نہ کرسکی ، پوسٹل بیلٹ کو ریگولرائز کرنے اور ووٹرز لسٹوں کو عوام کے لئے جاری کیا جانا چاہئے ۔ بلال اظہر کیانی نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیساتھ انکا امیدوار کہاں سے ہو گا اس پر بھی غور کی ضرورت ہے ۔یورپین پارلیمنٹ کے سابق رکن جان چشناہان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں عاصمہ کی زندگی میں ان سے نہیں مل سکا ،غزہ میں جو ہو رہا ہے اس میں امن ہونا چاہئے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں