"KMK" (space) message & send to 7575

تاریخ بڑی ظالم ہے

میں یہ بات پورے یقین سے تو نہیں کہہ سکتا کہ جنوبی افریقہ میں رہائش پذیر پاکستانیوں کی اکثریت کس سیاسی پارٹی کے ساتھ ہے تاہم ایک عرصے کے بعد بیرونِ پاکستان کسی ملک میں مقیم پاکستانیوں میں کسی حد تک سیاسی جماعتوں سے متعلق توازن دیکھنے کو ملا۔ ممکن ہے میرا اندازہ سو فیصد درست نہ ہو کہ بعض اوقات آپ محض ان لوگوں کی بنیاد پر‘ جن سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے‘ کوئی اندازہ قائم کر لیتے ہیں جو شاید حقیقی طور پر اتنا درست نہیں ہوتا لیکن یہ بات طے ہے کہ کم از کم جنوبی افریقہ میں رہائش پذیر پاکستانی پی ٹی آئی بلکہ زیادہ درست لکھوں تو عمران خان کی محبت میں اس طرح مبتلا نہیں ہیں جس طرح یورپ اور امریکہ وغیرہ میں ہیں۔
ظاہر ہے‘ میں نے یہ اندازہ خود سے ملنے والے دوستوں اور دیگر لوگوں کی گفتگو سے لگایا ہے۔ ممکن ہے میرا اندازہ خام ہو کہ جنوبی افریقہ میں دو‘ ڈھائی لاکھ پاکستانی رہائش پذیر ہیں اور میری ملاقات تو محض گنتی کے چند لوگوں سے ہوئی ہے اس لیے اس مختصر سے ''سیمپل‘‘ کی بنیاد پر نتیجہ نکالتے ہوئے فیصلہ کرنا شاید درست نہ ہو‘ مگر یہ بھی پہلی مرتبہ ہی ہوا کہ کسی یکطرفہ سیاسی نظریات کے علاوہ صورتحال دکھائی دی۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ جتنے دوستوں اور دیگر لوگوں سے ملاقات ہوئی انہیں پاکستان کے حالات کے بارے میں ایک جیسا ہی فکر مند اور متردد پایا۔
نو مئی والے دن میں جوہانسبرگ میں تھا۔ اس سے پہلے میں تین دن اپنے دوستوں ڈاکٹر نوید انجم اور ملک عبدالوحید کے پاس کنگ ولیمز ٹاؤن میں تھا۔ جوہانسبرگ سے کنگ ولیمز ٹاؤن جانے کیلئے پہلے میں بذریعہ ہوائی جہاز ایسٹ لندن گیا۔ ایسٹ لندن ایئر پورٹ کا نام اس علاقے اور جنوبی افریقہ کے دیگر حصوں میں پھیلے ہوئے عددی حساب سے سب سے بڑے قبیلے ''کوسا‘‘کے 375سال پہلے گزرنے والے بادشاہ پھالو کے نام پر ''کنگ پھالو‘‘ ایئر پورٹ ہے۔ بادشاہ کا پورا اور درست نام لکھنا‘ پڑھنا اور پکارنا نہ صرف میرے لیے ناممکن ہے بلکہ افریقان (افریقہ کے مقامی قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد افریقان کہلاتے ہیں)کے علاوہ کسی بھی شخص کیلئے ایسا کرنا اگر ناممکن نہ بھی ہو تو مشکل ضرور ہے۔ اس میں دو بنیادی مسائل ہیں۔ پہلا تو یہ کہ افریقان زبانوں کے کئی حروف کی صوتی ادائیگی کسی غیرافریقان کیلئے اس لیے ممکن نہیں کہ وہ ان مخصوص حروف کی ادائیگی کرتے ہوئے منہ سے کبھی تو ''ٹخ‘‘ کی آواز نکالتے ہیں اور کبھی کسی حرف کی ادائیگی محض زبان کو اپنے تالو سے لگا کر ایک عجیب سی آواز نکال کر کرتے ہیں اس لیے اس قسم کی صوتی ادائیگی کوکسی بھی غیرافریقان زبان میں ضبطِ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔ جنوبی افریقہ میں مقیم کچھ پاکستانی حضرات‘ جو ان حروف کی صوتی ادائیگی سے تھوڑی شد بد بھی رکھتے تھے‘ ان کو اردو میں تحریر کرنے کے کسی بھی فارمولے سے ناواقف ہیں۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اگر ان ناموں کو انگریزی میں لکھا ہوا پڑھیں تب بھی معاملہ ایسا گمبھیر ہے کہ چند دن کیلئے ادھر آنیوالے کیلئے سوائے کنفیوژن و پریشانی کے اور کچھ نہیں ہے۔ لکھتے کچھ ہیں اور پڑھتے کچھ اور ہیں۔ مثلاً بادشاہ پھالو کے قبیلے کو پکارتے تو ''کوسا‘‘ ہیں لیکن اسے Xhosaلکھتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا کا تعلق اسی قبیلے سے تھا۔ انگریزی حرف (J) کو (Y)کی آواز سے پڑھتے ہیں۔ اس کا علم بھی یوں ہوا کہ جنوبی افریقہ میں رہنے والے تین دوستوں کا نام اتفاق سے انجم ہے اور افریقان انہیں انجم پکارنے کے بجائے ''اَن یْم‘‘ پکارتے ہیں۔ اب ایسے میں کسی مقامی نام کو درست طریقے سے اردو میں لکھنا بھلا کس طرح ممکن ہے۔ 1728ء سے 1755ء تک کوسا قبیلے پر حکومت کرنیوالے بادشاہ پھالو کا پورا نام لکھنے میں Phalo kaTshiwo ہے مگر عالم یہ ہے کہ اسکے نام کے دوسرے حصے کا جس سے دریافت کیا‘ اس نے اسے مختلف طریقے سے ادا کرتے ہوئے اس مسافر کو مزید کنفیوژ کردیا۔
جنوبی افریقہ میں ویسے تو درجنوں بادشاہ ہیں جو مختلف قبائل کے سربراہ کے طور پر اپنے لیے اس ٹائٹل کو استعمال کرتے ہیں‘ تاہم ان میں سے درجن بھر کے لگ بھگ کو ہی سرکاری طور پر بادشاہ تسلیم کیا جاتا ہے اور انہیں بہت سی مراعات‘ جن میں سرکاری وظیفہ بھی شامل ہے‘ حاصل ہیں۔ جنوبی افریقہ کی تاریخ کا سب سے مشہور قبائلی بادشاہ‘ جو افریقی داستانوں میں ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے‘ زولو قبیلے کا نہایت ہی بہادر اور جنگجو بادشاہ شاکا عرف شاکا زولو ہے۔ شاکا نے زولو قبیلے پر 1816ء سے لے کر 1828ء تک صرف بارہ سال حکومت کی مگر ان بارہ سال کے دوران اس نے بے شمار قبائلی جنگوں میں فتوحات کے ذریعے اپنے زولو قبیلے کو اس کی عددی تعداد سے کہیں بڑھ کر زمینوں‘ کھیتوں‘ چراگاہوں اور جنگلوں کا مالک بنانے کے علاوہ علاقے کے دیگر قبائل کو یا تو اس علاقے سے باہر دھکیل دیا یا انہیں اپنا مطیع اور باجگزار بنا لیا۔ اسی دوران کنگ شاکا نے اس علاقے میں گوروں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور حکومت کو اپنے علاقے میں بزورِ طاقت روکنے کی نہ صرف بھرپور کوشش کی بلکہ گوروں کو جنوبی افریقہ میں اپنی اس نو آبادی کے قیام کے سلسلے میں جتنی مزاحمت کنگ شاکا کی طرف برداشت کرنا پڑی‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ کنگ شاکا ہی تھا جس کے بارہ سالہ دورِ اقتدار نے زولو قبیلے کو‘ جو عددی تعداد میں حالانکہ اس خطے کا سب سے بڑا قبیلہ نہ تھا مگر اس کے باوجود اسے اس وسیع و عریض خطے کا سب سے طاقتور قبیلہ بنا دیا۔ ڈربن ایئرپورٹ کا نام کنگ شاکا انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے۔ ڈربن اور اس سے متصل سارا علاقہ زولو لینڈ کہلاتا ہے۔
یہ شاید انسانی فطرت ہے کہ لامحدود اختیارات اور بلاشرکت غیرے والی حکمرانی انسان کے دماغ کو آسمان پر چڑھا دیتی ہے اور وہ خود کو طاقت کے اس بلند منصب پر پاکر ایسے ایسے فیصلے کرنے لگ جاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کوئی صاحبِ عقل و خرد حکمران بھلا ایسے فیصلے کس طرح کر سکتا ہے مگر تاریخ ایسے حکمرانوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی مقبولیت‘ طاقت‘ اقتدار اور لامحدود اختیارات کے نشے میں ایسے ایسے فیصلے کیے جو نہ صرف بالآخر انکے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنے بلکہ انکو اپنے ان غیرمنطقی اور بعض اوقات ناقابلِ قبول اور ناقابلِ عمل فیصلوں کے نتیجہ میں اپنی جان سے جانا پڑا۔ یہی کچھ زولو قبیلے کے ناقابلِ یقین حد تک بہادر اور افریقی تاریخ کے جنگجو ترین سرداروں میں نمایاں ترین حیثیت کے حامل کنگ شاکا کے ساتھ ہوا۔کنگ شاکا نے ارد گرد کے سارے قبیلوں کو جنگوں میں شکست دینے‘ انکے علاقوں پر قبضہ کرنے اور انہیں اپنی قلمرو سے نکال باہر کرنے کے بعد نہ صرف ایک مستحکم اور مضبوط زولو سلطنت قائم کی بلکہ اپنی خداداد انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے قبیلے کے سارے سماجی ڈھانچے کو نئی شکل دے کر ایسی مقبولیت حاصل کی جو شاید اس سے قبل کسی قبائلی سردار کو حاصل نہ تھی۔ پھر اچانک اس نے ایسے فیصلے کرنا شروع کردیے جو عقل وخرد سے ماورا تھے۔ مثلاً اس نے حکم دیا کہ اگلے سال کوئی فصل کاشت نہیں کی جائے گی۔ زولو قبیلے کا کوئی شخص دودھ نہیں پیے گا (دودھ زولو قبیلے کی بنیادی خوراک تھی) اور اسی طرح کے دیگر فیصلوں نے اس کے جان کے دشمنوں کو اپنے مقصد میں کامیاب ہونے میں سہولت فراہم کی۔ ستمبر 1828ء میں اسکے تین سوتیلے بھائیوں نے اسے قتل کردیا۔اب جمہوریت میں اس طرح کے قتل تو بند ہو گئے ہیں مگر انسانی فطرت نہیں بدلی۔ جمہوریت میں اب یہی کام قانون کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ عدالتی قتل جمہوریت کی اختراع و ایجاد ہے اور مستعمل بھی ہے مگر عدالتی قتل کے ذریعے کبھی کسی کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ ایسے مقتول تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔ جیسے کنگ شاکا ابھی تک ایک لیجنڈ کے طور پر زندہ ہے۔ قارئین ! بات نو مئی سے شروع ہوئی اور کنگ شاکا زولو تک پہنچ گئی۔ اصل موضوع پر آئندہ سہی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں