پاکستان کی تاریخ میں 28 مئی یومِ تکبیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس روز پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا 24 سال بعد بھرپور عملی جواب دیا تھا۔ پاکستان کا ایٹمی قوت بننا اس لیے ضروری تھا کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت اس کلب میں شامل ہو گیا تھا اور اس کے حکمران ہر روز ڈینگیں مار رہے تھے کہ ہم بڑی قوت ہیں۔ اس عظیم اور کٹھن منزل کے حصو ل کے لیے ایک لمبی جدوجہد اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی غیبی نصرت درکار تھی۔ اللہ نے اس منزل سے ارضِ پاک کو 28مئی 1998ء کو ہم کنار کر دیا۔ ماہِ مئی آتا ہے تو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی یادیں بھی دلوں میں تازہ ہو جاتی ہیں۔ اس کالم میں قومی تاریخ کے اس اہم موضوع اور اس کے موجد کی زندگی پر کچھ عرض کیا جائے گا۔
دنیا میں ہرانسان خالی ہاتھ آتا ہے۔ قدرت اس کی دستگیری کرتی ہے اور وہ لاتعداد نعمتوں سے نوازدیا جاتا ہے۔ پھر یہ بھی تاریخ کی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بارہا اس عارضی زندگی کی خوشیاں غم میں بدل جاتی ہیں اور کامیابی کے شاندار ریکارڈ گمنامی اور کبھی بدنامی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انسان بے بس ہے اور خالق ہمہ مقتدر! اس حقیقت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تقدیر کے فیصلے نافذ ہو کر رہتے ہیں۔ عظیم انسانوں کو زندگی میں ان کی قوموں نے شاذ و نادر ہی کبھی ان کا حق دیا ہے۔ انسانی معاشروں میں محسنین کی قدر کم ہی کی گئی ہے۔ قدر نہ کرنا بھی سانحہ ہے‘ مگر محسن کشی تو ناقابلِ معافی جرم ہے۔ محسنین اپنا فرض ادا کر کے خود کو مطمئن پاتے ہیں۔
تاریخ کی گزرگاہوں میں عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ عوام و خواص ان محسنین کی قدروقیمت اور حقیقی مقام بروقت کم ہی پہچان پاتے ہیں۔ جب وہ دنیا سے چلے جائیں‘ تو لوگ روتے اور نوحہ کرتے ہیں۔ ان میں کئی تو واقعی رو رہے ہوتے ہیںاور کئی بہروپیے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ یہ سب پہچانے جا سکتے ہیں اور تاریخ ان کی اصلی تصویر میں ان کو محفوظ بھی کر لیتی ہے۔
آج محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کے بارے میں کچھ واقعات لکھنے بیٹھا ہوں تو سوچ رہا ہوں کیا لکھوں اور کیسے لکھوں؟ بھوپال کی سرزمین پر جنم لینے والی اس عظیم شخصیت سے زندگی میں بالمشافہ صرف تین مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔ ہر ملاقات یادگار تھی۔ ایک بار گجرات میں اور دو بار مرکزِ جماعت اسلامی منصورہ‘ لاہور میں یہ شرف حاصل ہوا۔ ان ملاقاتوں میں جو چند باتیں باہمی تبادلہ خیال کے دوران ہوئیں ان کی ایک دھیمی سی تصویر اب تک ذہن میں موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد بار بار وہ منظر یاد آتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھوپال میں یکم اپریل 1936ء کو ایک پختون نسل سے تعلق رکھنے والے معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بھوپال میں آپ کا خاندان کئی صدیوں سے مقیم تھا جو بہت عزت و قدر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ کے والد عبدالغفور خان سرکاری سکول میں معلم تھے جنہوں نے تدریس کے علاوہ وزارتِ تعلیم کے دیگر شعبوں میں بھی بطور افسر خدمات سرانجام دیں۔ڈاکٹر صاحب کی والدہ بھی پشتون نسل سے تعلق رکھتی تھیں اور بہت دینی سوچ رکھنے والی گھریلو خاتون تھیں۔ عبدالقدیر خان صاحب کے بقول مرحوم نے زندگی بھر مذہب سے جس طرح اپنا تعلق قائم رکھا‘ اس میں ان کے والدین بالخصوص ان کی والدہ مرحومہ کا بہت بڑا کردار ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اللہ نے مثالی ذہانت سے نوازا تھا۔ ابتدائی عمر سے ہی ہر چیز کو غوروخوض سے دیکھتے اور اپنے والدین سے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کئی سوال کرتے۔ سکول میں داخل ہوئے تو اساتذہ سے بھی بہت سوال پوچھتے۔ آپ نے بھوپال میں پہلی جماعت سے دسویں تک تعلیم حاصل کی۔ وہیں سے 1951ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ایک سال بعد 1952ء میں بھوپال سے ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ آپ کا خاندان اپنے بہت سے رشتہ داروں کے ساتھ کراچی میں آباد ہوا۔ ڈاکٹر صاحب زیادہ عرصہ اسلام آباد میں مقیم رہے مگر صوبہ سندھ اور کراچی سے اپنا تعلق آخری دم تک خوب نبھایا۔ جواب میں اہلِ سندھ نے بھی مثبت کردار کا مظاہرہ کیا۔
اس حوالے سے مرحوم نے اپنی بیماری کے دوران نہایت آزردگی کے ساتھ کہا کہ ملک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں سے کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ کم از کم ان کی مزاج پرسی ہی کر لیں‘ سوائے ان کے صوبے کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے۔ واضح رہے کہ مراد علی شاہ نے مرحوم کے جنازے میں بھی شرکت کی جب کہ اصحابِ اقتدار میں سے کوئی بھی قابلِ ذکر شخصیت ان کے جنازے میں شامل نہ ہوئی۔ وزیرداخلہ شیخ رشید کی ذمہ داری لگا دی گئی کہ وہ آخری رسوم کا اہتمام کرا دیں‘ مگر عوام کے بقول شاہ فیصل مسجد میں جنازے کے دوران سائونڈ سسٹم ایسا ناقص و ناکارہ تھا کہ ہزاروں نمازیوں تک آواز پہنچ ہی نہ سکی۔
ستمبر‘ اکتوبر 2021ء میں ڈاکٹر صاحب کورونا کے مرض میں مبتلا ہوئے تو انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اس دوران بعض شرپسندوں نے اپنی پوسٹوں میں یہ بات مشہور کر دی کہ ڈاکٹر صاحب وفات پا گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کے جواب میں فوری طور پر ہسپتال سے بیان جاری کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روبصحت ہیں۔ پھر ہسپتال سے گھر آ گئے۔ ان کا آخری کالم بھی اخبار میں چھپا لیکن اللہ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مدّاح خوش تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو اللہ نے صحت دے دی ہے مگر کسے معلوم تھا کہ تقدیر کا فیصلہ کیا ہے۔ اس دوران ڈاکٹر صاحب کو اچانک 10 اکتوبر 2021ء کی صبح اپنے گھر میں خون کی الٹی ہوئی اور اس کے نتیجے میں وہ بے ہوش ہو گئے۔ قبل اس کے کہ کسی ہسپتال یا معالج کے پاس لے جائے جاتے‘ اسی روز آپ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے وہ ماہ و سال جو ابتلا میں گزرے انتہائی دلدوز تھے۔ وفات کی خبر پر جو لوگ ڈاکٹر صاحب کی تعریف و توصیف میں بیان بازیاں کر رہے تھے ان بہروپیوں کا حال شاعر چکبست نارائن نے اپنے شعر میں کیا خوب بیان کر دیا ہے۔
اس کو ناقدریٔ عالم کا صلہ کہتے ہیں
مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
متحدہ ہندستان میں جو مقامات تاریخی حیثیت رکھتے ہیں‘ بالخصوص مسلم شخصیات کے حوالے سے‘ ان میں بھوپال کا نام نمایاں ہے۔ یہ مسلم ریاست تھی اور یہاں کے مسلم حکمران انسانوں کے قدر شناس ہونے کے ساتھ قدر دان بھی تھے۔ بھوپال جس جگہ واقع ہے‘ اس میں اور اس کے گردونواح میں سولہویں صدی عیسوی میں ایک خاتون حکمران تھی۔ مغل فوج کے ایک جنگجو دوست محمد خاں پختون نے یہاں اپنا تسلط جمایا اور اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد فتح گڑھ نامی قصبے میں ایک قلعہ تعمیر کیا۔ پھر ایک شہر وجود میں آیا جس کا نام بھوپال رکھا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی سامراج کے دور میں ریاست بھوپال ایک معاہدے کے نتیجے میں 1818ء میں وجود میں آئی۔ حیدرآباد دکن کے بعد ہندستان میں یہ دوسری بڑی مسلم ریاست تھی۔
1819ء سے 1926ء تک 107سال تک اس ریاست پر ایک پختون مسلمان خاندان کی چار خواتین قدسیہ بیگم‘ سکندر بیگم‘ شاہجہاں بیگم اور کیخسرو جہاں بیگم نے حکومت کی۔ جس طرح نواب کا لقب مرد مسلم حکمرانوں کے لیے استعمال ہوتا تھا‘ اسی طرح ان خواتین کے نام سے پہلے بیگم کا سابقہ استعمال ہوتا تھا۔ یوں یہ سب مذکورہ خواتین بیگم کے لقب کے ساتھ حکمران رہیں۔ اس حکومت کو بیگمات کی حکومت بھی کہا جاتا تھا۔(جاری)