ذوالکلاع حِمْیَرِی کے نام خط: یمن‘ حضرموت اور طائف کے درمیان آباد قبائل پر بنوحمیر سے تعلق رکھنے والے سردار ذوالکلاع کی حکمرانی تھی۔ قبیلہ حمیر تاریخ میں ایک بہت معروف اور طاقتور قبیلہ شمار ہوتا ہے۔ یمن کے علاقے میں صدیوں تک اس خاندان کے اقتدار کا ڈنکا بجتا رہا۔ آنحضورﷺ کے دور میں اگرچہ حمیر کی وہ شان وشوکت نہ رہی تھی مگر پھر بھی عظیم عمارت کے کھنڈرات کی اپنی ایک شان تھی۔ ذوالکلاع بادشاہ تھا اور فرعون کی طرح اپنے آپ کو خدا کہلایا کرتا تھا۔ اس کے دربار میں حاضر ہونے والے جب تک اسے سجدہ نہ کر لیتے‘ شرف باریابی نہ پا سکتے تھے۔ اس تک بھی آنحضور پاکﷺ نے دعوت پہنچائی۔
یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ دعوت اُن وفود کے ذریعے پہنچائی گئی جو آنحضورﷺ نے مختلف علاقوں میں بھیجے اور انہوں نے رؤسا تک زبانی دعوتِ اسلام پہنچائی یا کوئی خط اس کے پاس بھیجا گیا۔ البتہ یہ بات معلوم ہے کہ اس خوش بخت انسان نے‘ جو خدا کہلایا کرتا تھا‘ خدائی کا دعویٰ ترک کرکے اسلام قبول کیا اور بندگیٔ رب کی حلاوت سے مالامال ہوا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اسے اپنی سابقہ روش پر بہت ندامت ہوئی اور اس نے اس کی تلافی میں ایک دن میں اٹھارہ ہزار غلام آزاد کیے۔ اس کی زندگی مشہور صوفی بزرگ حضرت ابراہیم بن ادھمؒ سے کافی مشابہ ہے۔ اس نے بادشاہی چھوڑ کر زہد کی زندگی اپنائی اور خلافتِ فاروقی میں اپنے علاقے سے ترکِ وطن کرکے مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
مکتوبِ نبوی بنام شاہِ مصر: مصر کے حکمران کا نام یا خطاب مقوقس تھا۔ اس کے نام بھی آنحضورﷺ نے دعوتی خط لکھا جو حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ اس کے پاس لے کر گئے۔ آنحضورﷺ نے حدیبیہ سے واپس آتے ہی صحابہ کرام سے فرمایا کہ میں مصر کے حکمران کے نام خط بھیجنا چاہتا ہوں‘ تم میں سے کون یہ خدمت انجام دے گا‘ جو یہ خدمت انجام دے گا اس کا اجر و ثواب اللہ کے ذمے ہوگا۔ مجلس میں حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے فوراً اٹھ کر عرض کیا: یا رسول اللہﷺ میں یہ خدمت انجام دوں گا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: بارک اللہ فیک یا حاطب۔ (اے حاطب اللہ تعالیٰ تجھ کو برکت عطا فرمائے)۔ (السیرۃ الحلبیہ‘ جلد سوم‘ ص: 280)۔
حق بات کسی فرد تک پہنچانا انسان کے لیے باعثِ اجر وثواب ہوتا ہے۔ اسلام میں یہ ایک مستقل ضابطے اور اصول کی حیثیت سے مسلّم ہے کہ دعوتِ حق اور شہادتِ حق اعلیٰ ترین نیکی ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے لیے حضرت حاطبؓ مدینہ سے مصر کے شہر اسکندریہ پہنچے اور مقوقس کے بارے میں لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بادشاہ سلامت سمندر میں ایک کشتی میں بیٹھے‘ اپنے درباریوں سے مشاورت کر رہے ہیں۔ حضرت حاطبؓ نے ایک کشتی کرائے پر لی اور اس پر سوار ہو کر بادشاہ کی کشتی کے قریب پہنچے اور اسے آنحضورﷺ کا خط دکھایا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس شخص کو میرے پاس میری کشتی میں لایا جائے۔ چنانچہ انہیں اس کے پاس لے جایا گیا۔ انہوں نے آنحضورﷺ کا خط اس کی خدمت میں پیش کیا۔ اس خط کا پورا متن تاریخ میں محفوظ ہے۔ ڈاکٹر شوقی ابوخلیل نے اسے عیون الاثر اور اعلام السائلین کے حوالے سے اطلس سیرۃ النبی میں نقل کیا ہے۔ خط کا متن یوں بیان ہوا ہے:
یہ خط محمد رسول اللہ کی جانب سے مصر کے حکمران مقوقس کو لکھا جا رہا ہے۔ سلام ہو اس شخص پر جس نے راہِ ہدایت اختیار کی۔ میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ مسلمان ہوجائو محفوظ رہو گے۔ مسلمان ہو جائو اللہ تمہیں دہرا اجر عطا فرمائے گا لیکن اگر تم اعراض کرو گے تو رعایا کے مسلمان نہ ہونے کا گناہ بھی تمہیں برداشت کرنا ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) ''اے اہل کتاب! آ جائو اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مسلّمہ و مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اپنے میں سے کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائیں۔ اگر اہلِ کتاب نہ مانیں تو اے مسلمانو! تم اعلان کردو کہ سب لوگ گواہ ہو جائیں کہ ہم مسلمان ہیں‘‘۔ (آل عمران: 64)
حضرت حاطبؓ اور مقوقس کے درمیان بہت دلچسپ گفتگو ہوئی‘ جو تاریخ میں محفوظ ہے۔ مقوقس نے پوچھا کہ میں تمہیں تمہارا دین چھوڑنے کی دعوت دوں تو تم کیا کہو گے؟ اس کے جواب میں حضرت حاطبؓ نے نہایت بلیغ اور حکیمانہ انداز میں فرمایا: ''ہمارا دین اعلیٰ ترین اور سچا ترین ہے۔ ہم اسے تبھی چھوڑ سکتے ہیں جب ہمیں اس سے بہتر دین نظر آئے اور (ہمارا) وہ دین اسلام ہے جو ہر لحاظ سے کافی ہے۔ بیشک اس نبی‘ حضرت محمدﷺ نے لوگوں کو دعوت دی‘ تو سب سے زیادہ مخالفت قریش نے کی اور (تمام قوموں کے درمیان) نبیﷺ کے سب سے بڑے دشمن یہودی ہیں‘ البتہ عیسائی مسلمانوں کے بہت زیادہ قریب ہیں‘‘۔
مقوقس کہنے لگا: ''کیا جن کا پیغام آپ لائے ہیں وہ نبی نہیں؟‘‘
حضرت حاطبؓ نے جواب دیا: ''کیوں نہیں؟ آپ اللہ تعالیٰ کے بھیجے نبی اور رسولِ برحق ہیں‘‘۔
مقوقس کہنے لگا: ''تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب انہیں ان کی قوم نے ان کے شہر سے نکالا تو انہوں نے بد دعا کیوں نہ کی؟‘‘
حضرت حاطبؓ نے فرمایا: ''حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ کیا وہ نبی نہیں تھے؟ تو پھر جب ان کی قوم نے ان کو سولی پر لٹکانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے بددعا کیوں نہ کی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کو انہیں اوپر اٹھانا پڑا؟‘‘
مقوقس کہنے لگا: ''بہت خوب! تم ایک دانا شخص ہو جو بہت بڑے دانا شخص کے پاس سے آئے ہو‘‘۔
اس کے بعد مقوقس نے آنحضورﷺ کے قاصد کو بہت عزت واحترام کے ساتھ آنحضورﷺ کے نام اپنا پیغام دیا جس میں آپﷺ کی بھرپور تعریف تھی۔ اس نے آنحضورﷺ کے لیے بہت سے تحائف بھی بھیجے۔ مقوقس نے تحفے کے طور پر حضرت ماریہ قبطیہؓ اور حضرت سیرینؓ قبطیہ جو خوبصورت مصری لڑکیاں تھیں‘ مدینہ بھجوائیں۔ حضرت ماریہؓ آنحضورﷺ کے حرم میں داخل ہوئیں۔ انہی کے بطن سے آنحضورﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ پیدا ہوئے۔ حضرت سیرینؓ کو آنحضورﷺ نے اپنے صحابی اور شاعرِ اسلام حضرت حسان بن ثابتؓ کو ہدیہ کر دیا۔ بعض روایات کے مطابق وہ ان کی اہلیہ تھیں۔ مشہور سفید خچر دُلْدُلْ جس پر آنحضورﷺ سواری کرتے رہے‘ مقوقس ہی کا روانہ کردہ تھا۔ اس نے بہت سے قیمتی پارچہ جات بھی آپﷺ کی خدمت میں بھیجے۔
حضرت ماریہؓ کے مناقب: حضرت ماریہؓ کے بہت سے مناقب بیان کیے گئے ہیں۔ ایک مرتبہ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا: میری دادی محترمہ حضرت ہاجرہ (حضرت اسماعیلؑ کی والدہ) بھی قبطیہ تھیں اور میرے پیارے بیٹے ابراہیم کی والدہ ماریہ بھی قبطیہ ہیں۔ آپﷺ کے دیگر فرزندوں کی طرح یہ بیٹے حضرت ابراہیمؓ بھی بچپن ہی میں وفات پا گئے۔ اس موقع پر آنحضورﷺ اور حضرت ماریہؓ دونوں کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے مگر آپﷺ نے صبرِ جمیل کا مظاہرہ کیا اور حضرت ماریہؓ کو بھی انتہائی پیار اور شفقت سے صبر کی تلقین فرمائی۔ حضرت ماریہؓ کا بھی کمال ہے کہ انہوں نے اس جانکاہ صدمے پر صبر کیا۔ ایک مرتبہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ قبطیوں کے ساتھ اہلِ ایمان کو حسنِ سلوک کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ ان سے ہمارا معاہدے کا تعلق بھی ہے اور حضرت ہاجرہؓ اور حضرت ماریہؓ کی نسبت سے نسبی وخونی تعلق بھی ہے۔ مقوقس نے اگرچہ اسلام قبول نہ کیا‘ مگر آنحضورﷺ سے صلح کا معاہدہ کرنے کے بعد زندگی بھر اس پر قائم رہا۔