حضور نبی اکرمﷺ قریش کے معزز ترین خاندان میں ماہِ ربیع الاوّل‘ عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ عیسوی تقویم کے لحاظ سے یہ 570ء بنتا ہے۔ حضور پاکﷺ سے قبل اس خطے میں آپﷺ کے جدِ امجد حضرت اسماعیل علیہ السلام صدیوں پہلے مقام نبوت پر فائز ہوئے تھے۔ ان کے بعد ان کی اولاد میں کوئی نبی نہ آیا۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بعد آپ کی نسل میں واحد پیغمبر محمد بن عبداللہﷺ معبوث ہوئے جو خاتم النبیین ہیں‘ سید الانبیاء والرسل ہیں اور پوری انسانیت کی طرف سے تاقیامت بھیجے گئے ہیں۔ یوں اگرچہ نبی اکرمﷺ حجاز عرب میں مبعوث ہوئے مگر آپﷺ کسی ایک قوم یا علاقے کیلئے نہیں بھیجے گئے‘ نہ ہی کسی خاص زمانے کی قید کے ساتھ آپﷺ کو مبعوث کیا گیا۔ آپﷺ پوری انسانیت کیلئے ہادی بنا کر بھیجے گئے اور قیامت تک جن و انس کیلئے آپﷺ ہی کی اتباع نجات کا ذریعہ قرار دی گئی۔ قرآن مجید میں اللہ رب العالمین نے آپﷺ کا منصب عالی یوں بیان فرمایا ہے: اور (اے نبی) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کیلئے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے‘ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (سبا: 28)
اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی زبانی پوری انسانیت کو یہی پیغام اس انداز میں پہنچایا: اے نبی کہو کہ ''اے انسانو! میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے‘ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے‘ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے‘ پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبیِ اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے‘ اور پیروی اختیار کرو اس کی‘ امید ہے کہ تم راہِ راست پا لو گے‘‘۔ (الاعراف: 158) چونکہ آپﷺ عرب وعجم اور شرق وغرب سب کیلئے نبی بنا کر بھیجے گئے‘ اس لیے پیغام حق کو درج بالا مضمون اور روح کے ساتھ دنیا کے ہر انسان تک پہنچانے کا فریضہ آپﷺ نے اُس دور کے حالات و وسائل کے تناظر میں جس انداز میں ادا کیا وہ بے مثال ہے۔ اس سے بہتر کارکردگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آپﷺ اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ تھے اور انہیں ادا کرنے کیلئے نہ لومتِ لائم سے کبھی خوف زدہ ہوئے نہ کبھی حرص وطمع کا کوئی جال منزل کھوٹی کر سکا۔ آپﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ایک ایک لمحہ گواہ ہے کہ کسی بڑے سے بڑے جابر کا خوف اور رعب آپﷺ کے پُرعزم قدموں کو کبھی نہ ڈگمگا سکا۔ اللہ رب العالمین نے آپﷺ سے فرمایا تھا کہ جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا جائے اسے بلا کم وکاست پہنچا دیں ''اے پیغمبر! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو‘‘ ۔ اسی آیت میں آگے چل کر فرمایا: اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلے میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔ (المائدہ: 67)
عرب کے اندر جہاں تک آپﷺ خود پہنچ سکتے تھے وہاں تک پہنچنے کا آپﷺ نے بنفسِ نفیس اہتمام کیا۔ جن جن قبائل تک مختلف وفود اور نمائندگان کو بھیجا جاسکتا تھا ان تک آپﷺ نے اپنے صحابہ کے ذریعے دعوت پہنچائی۔ دعوت کے اس طویل سفر میں خود آپﷺ کو طائف کی وادیوں سے گزرنا پڑا جس کی تفصیلات سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔ آپﷺ کے صحابہ کرامؓ کو رجیع اور بئر معونہ کے مقتل میں شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرتے ہوئے خلعتِ شہادت زیبِ تن کرنا پڑی۔ جزیرہ نما عرب سے باہر کئی عرب رؤسا بھی حکمران تھے اور عربوں کے علاوہ بہت بڑی بڑی غیر عرب اور عجمی ریاستیں بھی قائم تھیں۔ ان میں سے کئی ریاستوں کو سُپر طاقت ہونے کا گھمنڈ بھی تھا۔ اس وقت کی معلوم دنیا میں جہاں تک پہنچنا ممکن تھا‘ وہ قوم اور آبادی اسلامی دعوت سے روشناس کرا دی گئی۔
اس عظیم الشان فریضہ کی اہمیت تو مکی زندگی ہی میں بالکل واضح تھی کیونکہ آپﷺ کی عالمگیر اور تاقیامت قائم رہنے والی قیادت وسیادت اور نبوت ورسالت کا فیصلہ آ چکا تھا‘ لیکن مکہ کے حالات عالمگیر فریضے کی ادائیگی کیلئے انتہائی ناسازگار تھے۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں بھی دشمنانِ اسلام نے آپﷺ کو مسلسل پریشان کیے رکھا۔ اس فرضِ منصبی کی ادائیگی کیلئے آپﷺ کو یہ فرصت صلح حدیبیہ کے بعد کے زمانے میں نصیب ہوئی۔ چنانچہ آپﷺ نے اس فرصت سے فی الفور فائدہ اٹھایا۔ آپﷺ حدیبیہ کے سفر سے واپس پہنچے تو ماہِ محرم ہی میں تمام ملوک و امرا کے نام بہت جامع خطوط کے ذریعے اپنا پیغام پہنچا دیا۔ آپﷺ کے خطوط کا ریکارڈ تاریخ کی تمام امہات کتب اور مراجع کے اندر موجود ہے۔ آپﷺ کے خطوط کی تفصیل اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والے واقعات اختصار کے ساتھ نذرِ قارئین کیے جا رہے ہیں۔
آنحضورﷺ کے دور میں دنیا کا سب سے طاقتور حکمران رومی سلطنت کا بادشاہ تھا جو قیصر کہلاتا تھا۔ آنحضورﷺ کے دور میں اس سلطنت کے تاجدار کا اصلی نام ہرقل تھا۔ آپﷺ نے سب سے پہلا خط اسی کے نام روانہ کیا۔ چند سال قبل ایرانیوں نے رومیوں کو بری طرح شکست سے دوچار کیا۔ چنانچہ ہرقل نے رومی فوجوں کی پے درپے شکستوں کے بعد ایرانیوں کے مقابلے پر خود رومی لشکروں کی کمان سنبھال کر بہت شاندار تاریخی فتوحات حاصل کیں۔ اسے بازنطینی ریاست کے بادشاہوں میں بہت عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اُس کی تخت نشینی 610ء میں ہوئی اور 641ء میں اپنی وفات تک یہ برسرِ اقتدار رہا۔ آنحضورﷺ کے جامع و مانع خط کامتن جو تاریخی کتابوں میں نقل کیا گیا ہے‘ یوں ہے:
''محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے‘ ہرقل حاکم روم کے نام! سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے‘ میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں‘ اسلام لے آ‘ سلامت رہے گا‘ تجھے اللہ تعالیٰ دہرا اجر دے گا اور اگر تو روگردانی کرے گا تو تیری تمام رعیت کے اسلام نہ لانے کا گناہ تجھ پر ہوگا۔ اے اہلِ کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آئو۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی شے کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں (سے) کوئی کسی کو اللہ کے سوا کار ساز نہ بنائے۔ اگر یہ بات نہ مانیں تو آپ کہہ دیجیے کہ تم گواہ رہو ہم (اللہ کے) فرماں بردار ہیں‘‘۔ (سیرۃ خیر الانام‘ ص: 302)
قیصر کے پاس آپﷺ کا خط لے کر جانے والے صحابی حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبیؓ تھے۔ جب وہ خط لے کر چلے توانہوں نے آنحضورﷺ سے عرض کیا کہ قیصر روم کے بارے میں معروف ہے کہ وہ براہِ راست خط وصول کرنے کے بجائے اپنے گورنروں کے ذریعے وصول کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ بغیر مہر وہ کسی خط کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتا۔ نبی اکرمﷺ نے تمام حکمرانوں کے نام اپنے خطوط پر مہر ثبت کرنے کے لیے اپنی انگوٹھی کی پشت پر ''محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کندہ کروائے۔ ''محمد رسول اللہ‘‘ ہر خط پر آنحضورﷺ کی مہر لگائی گئی۔ یہ خط بیت المقدس میں قیصر روم کے دربار میں پیش کیا گیا‘ کیونکہ اس وقت قیصر روم یروشلم میں آیا ہوا تھا۔ بصریٰ کے حاکم اور قیصر روم کے گورنر کو مطلع کرکے خط پیش کیا گیا مگر حضرت دحیہ کلبیؓ نے خود بنفس نفیس پہنچ کر یہ خط ہرقل کے حوالے کیا تھا۔
ملوک وشاہان کے نام یہ خطوط محرم 7ھ بمطابق 628-29ء میں لکھے گئے تھے۔ قیصر نے تمام سفارتی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت عزت و احترام کے ساتھ خط وصول کیا اور اس کا مضمون پڑھوایا۔ خط کے نفسِ مضمون سے واقف ہونے کے بعد اس نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ کیا ان دنوں جزیرہ نمائے عرب سے تاجروں کا کوئی وفد یروشلم آیا ہوا ہے تو اسے بتایا گیا کہ ہاں آیا ہوا ہے۔ (جاری)