نجاشی‘ شاہِ حبشہ کے نام مکتوب: آپﷺ نے تیسر اخط شاہِ حبشہ کے نام بھیجا۔ نبی اکرمﷺ کے دور میں حبشہ ایک سرسبز وشاداب اور خوشحال ملک تھا۔ یہاں کا حکمران اور یہاں کے عوام مالی لحاظ سے بھی خوشحال تھے اور امن وامان کی صورتحال بھی بہت بہتر تھی۔ حبشہ کا حکمران عادل اور نیک دل تھا۔ اس لیے نبی اکرمﷺ نے نبوت کے پانچویں سال اپنے صحابہ کو حکم دیا تھا کہ مکہ کو چھوڑ کر حبشہ کی جانب ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ آنحضورﷺ کے صحابہ نے مکہ سے ہجرت کی اور بحرۂ احمر کو عبور کرتے ہوئے حبشہ کی بندرگاہ مسووہ پر جا اترے۔ وہاں سے لگ بھگ دو سو کلومیٹر جنوب کی طرف دارالحکومت لا کسوم تھا۔ صحابہ کرامؓ نے اس شہر میں رہائش اختیار کر لی اور نہایت امن کے ساتھ یہاں وقت گزارا۔ یہ عرصہ تقریباً پندرہ سالوں پر محیط تھا۔ شاہِ حبشہ کے دربار میں حضرت جعفرؓ کی معرکہ آرا تقریر بھی سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے اور شاہِ حبشہ کا سورۂ مریم کی آیات سن کر رقت سے آبدیدہ ہو جانا بھی ہماری تاریخ میں محفوظ ہے۔ اس بادشاہ کا نام اصحمہ بن ابجر تھا۔ نجاشی اس کا لقب تھا‘ جس طرح روم کے حکمران قیصر اور ایران کے حکمران کسریٰ کہلاتے تھے۔ افریقی زبان میں نجاشی کا تلفظ نجوس ہے اور اس کا معنی ہے بادشاہ۔ (بحوالہ اطلس سیرت نبوی از ڈاکٹر شوقی ابوخلیل‘ ص: 121)
نجاشی کے نام آنحضورﷺ نے جو خط لکھا وہ حضرت عمروؓ بن امیہ ضمری نے اس تک پہنچایا۔ آنحضورﷺ نے اپنے خط میں شاہِ حبشہ کو بھی اسی طرح اسلام کی دعوت دی جس طرح دوسرے ملوک و امراء کو دی تھی۔ نجاشی نے آپﷺ کا خط وصول کرتے ہی اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اور آنحضورﷺ پر ایمان لانے کا اعلان کر دیا۔ امام ابن قیم نے زاد المعاد میں بیان کیا ہے کہ نجاشی نے اس موقع پر بھرے دربار میں قبولِ اسلام کے بعد جو خطاب فرمایا اس میں آنحضورﷺ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ اس کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے:
''میں گواہی دیتا اور قسم کھاتا ہوں کہ آپ وہی نبی اُمی ہیں جن کا اہلِ کتاب انتظار کر رہے ہیں اور جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے راکب الحمار (گدھے کے سوار) سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت دی ہے‘ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے راکب الجمل (اونٹ سوار) کے نام سے محمد رسول اللہﷺ کی خوشخبری دی گئی اور مجھے آپﷺ کی رسالت کا اس درجہ یقین ہے کہ مشاہدے کے بعد بھی میرے اس یقین میں (کوئی) اضافہ نہ ہوگا۔ (ابن قیم زاد المعاد‘ ج: 3‘ ص: 290‘ سیرت خیر الانام‘ ص: 304)
غائبانہ نماز جنازہ: مؤرخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ نجاشی نے قبولِ اسلام کے بعد آنحضورﷺ کی خدمت میں جوابی خط لکھا اور اپنے قبولِ اسلام کی اطلاع دینے کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ اگر آپﷺ فرمائیں تو میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائوں۔ نجاشی کا خط لے کر اس کا بیٹا اور ولی عہد ساٹھ آدمیوں کے ہمراہ بذریعہ کشتی حجاز کی طرف روانہ ہوا‘ مگر بدقسمتی سے یہ کشتی سمندر میں ڈوب گئی اور اس میں سوار لوگ جاں بحق ہو گئے۔ بہر حال آنحضورﷺ کو نجاشی کے قبولِ اسلام کی اطلاع مل گئی اور آپﷺ نے اس کو اپنے ملک پر عدل وانصاف کے ساتھ حکمرانی جاری رکھنے کی تلقین فرمائی۔
صحیح بخاری کتاب الجنائز میں یہ حدیث درج ہے کہ آنحضورﷺ نے حضرت نجاشی کی وفات پر صحابہ کرامؓ کو اس واقعہ کی اطلاع دی اور اپنے اس سچے اور وفادار امتی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔ نجاشی کا انتقال رجب 9 ہجری میں ہوا۔ حقیقت میں تو نجاشی حضرت جعفرؓ اور ان کے ساتھیوں کی دعوت وتبلیغ کے نتیجے ہی میں مسلمان ہو چکا تھا‘ مگر آنحضورﷺ کا خط ملنے پر اس نے باقاعد اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کیا۔ وقت کے تمام بادشاہوں اور حکمرانوں میں یہ شخص سب سے زیادہ خوش نصیب تھا۔
مکتوب نبوی بنام شاہِ بحرین: بحرین ایک چھوٹی سی ریاست تھی جسے اندرونی آزادی حاصل تھی‘ مگر شاہِ ایران نے اسے باجگزار ریاست کے طور پر اپنی قلمرو میں شامل کر رکھا تھا۔ یہاں کا حکمران نسلاً عرب تھا۔ آنحضورﷺ نے قبولِ اسلام کی طرف دعوت پر مشتمل جب خطوط لکھے تو اس وقت منذر بن سادیٰ تخت نشین تھا۔ آنحضورﷺ نے حضرت علا بن الحضرمیؓ کے ہاتھ اپنا نامہ مبارک بھیجا۔ جب حضرت علاؓ اس کے پاس پہنچے تو اس نے ان کا استقبال کیا‘ خط کا مضمون پڑھا اور پھر کچھ سوچ بچار کے بعد اس نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسے معلوم تھا کہ ایران کا شاہ اس بات پر سیخ پا ہو گا‘ مگر اس کی فطرتِ سلیمہ نے اسے سبقت الی الخیر پر آمادہ کر دیا۔ اس عرب حکمران نے اپنے قبولِ اسلام کے بعد آنحضورﷺ کی خدمت میں خط بھی تحریر کیا جس میں اطلاع دی کہ نامہ مبارک ملنے کے بعد میں نے اور میرے علاوہ میری رعایا میں سے بھی بعض لوگوں نے دینِ حق کو قبول کر لیا ہے‘ لیکن بعض لوگ ناگواری کا اظہار بھی کر رہے ہیں جبکہ کچھ عناصر نے تو مخالفت بھی کی ہے۔ میری ریاست میں یہودی اور مجوسی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ان کے متعلق آپﷺ جو ارشاد فرمائیں گے میں اس کی تعمیل کروں گا۔ نبی اکرمﷺ نے اس کے اس خط کے جواب میں دوسرا خط روانہ فرمایا جس کا مضمون یوں بیان کیا گیا ہے: ''جو نصیحت حاصل کرتا ہے اس کا اپنا ہی بھلا ہے‘ جو نصیحت کو مسترد کر دے اسے زبردستی اسلام میں داخل نہیں کیا جا سکتا۔ جو یہودیت اور مجوسیت پر قائم رہنا چاہیں انہیں اپنے مذہب پر قائم رہنے کی آزادی دی جائے‘ مگر ان پر جز یہ عائد کیا جائے‘‘۔ جزیہ معمولی سا ٹیکس ہوتا ہے اور اس کے بدلے میں ذمی رعایا کو جن حقوق ومراعات کی اسلامی ریاست کی طرف سے ضمانت دی جاتی ہے‘ وہ بہت عظیم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے انسان کو آزادیٔ اختیار کا مکمل حق دیا ہے۔ زبردستی کسی کو اس کا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ یہ واضح ہے کہ اسلام اپنی غیر مسلم رعایا سے اسلامی ریاست کی بالادستی تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ ساری رعایا کے لیے لازمی ہے۔ اس کے بدلے میں مسلم رعایا کو ان کے مذہب کے معاملات میں آزادی مل جاتی ہے۔ ان کی جان ومال اور عزت وآبرو کے ساتھ تمام انسانی حقوق کا تحفظ اور ضمانت اسلامی ریاست کی ذمہ دار بن جاتی ہے۔ ان کے اس مکمل تحفظ کے صلے میں ان سے معمولی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے‘ جسے اسلامی اصطلاح میں جزیہ کہا جاتا ہے۔ حضرت منذرؓ نے آپﷺ کے حکم کے مطابق غیر مسلم رعایا پر جزیہ عائد کیا۔ ان میں سے جو بھی اپنی مرضی سے اسلام میں داخل ہو جاتا‘ اس کا جزیہ خود بخود ساقط ہو جاتا تھا۔ حبشہ کے حکمر ان نجاشی کے بعد دوسرے نمبر پر جس حکمران نے مکتوبِ نبوی کے جواب میں اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی وہ یہی خوش نصیب حاکمِ بحرین تھے۔ بحرین اگر چہ چھوٹا سا علاقہ تھا مگر اس میں دولت کی فراوانی کی وجہ سے لوگ خوشحال تھے۔ منذر بن ساویٰؓ کے قبولِ اسلام کے بعد رعایا کے کافی حصے نے اسلام قبول کر لیا۔ جن لوگوں نے آغاز میں اپنے مذہب پر رہنے کو تر جیح دی‘ انہیں بھی آہستہ آہستہ احساس ہونے لگا کہ ان کے مذہب سے کہیں زیادہ بہترین دین وہ ہے جو ان کے حاکم نے قبول کیا ہے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد یہ پوری ریاست اسلام میں داخل ہو گئی اور آج کے دن تک یہاں کی آبادی سو فیصد مسلمان ہے۔
اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا جیسا کہ اسلام دشمن قوتیں اپنے جھوٹے پروپیگنڈے سے تاثر دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسلام اپنی اخلاقیات اور عدل وانصاف کے نظام کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتا گیا اور خوش نصیب لوگ گمراہی سے نکل کر راہ ہدایت پر آتے چلے گئے۔ الحمدللہ! یہ سلسلہ آج کے دن تک جاری ہے۔