مکتوبِ نبوی بنام والیانِ عمان: حبشہ اور بحرین کے حکمرانوں کے بعد تیسرا سعادت مند حکمران جس نے مکتوبِ نبوی ملنے پر اپنے مذہب کو چھوڑ کر اسلام کو اختیار کیا وہ والیٔ عمان جعفر بن جلندی تھے۔ عمان بھی عرب علاقوں میں شامل ہے۔ یہاں آنحضورﷺ کے دور میں دو بھائی صاحبِ اقتدار تھے۔ ان کے والد جلندی نے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا جیفر حکمران بنا‘ جو اپنے باپ کی وصیت کے مطابق اپنے بھائی عبد بن جلندی کو امورِ مملکت میں شریک رکھتا تھا۔ جیفر کا عربی نام جعفر ہی تھا مگر عیسائیت قبول کرنے پر وہ جعفر سے جیفر ہو گیا۔ ان بھائیوں کے پاس نبی اکرمﷺ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو سفیر بنا کر بھیجا جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔
حضرت عمرو بن العاصؓ اپنی ذہانت و فراست کی وجہ سے بہت بلند پایہ شخصیت تھے۔ آپؓ جاہلی زندگی میں بھی ایک کامیاب سفارتکار کے طور پر مختلف ممالک کے حکمرانوں کے ہاں قبیلۂ قریش کی نمائندگی کر چکے تھے۔ مہاجرینِ حبشہ کو واپس لانے کے لیے قریش نے جو دو رکنی وفد نجاشی کے دربار میں بھیجا تھا اس میں عبداللہ بن ابی ربیعہ اور عمرو بن العاص شامل تھے۔ یہ مہاجرین کو واپس لے جانا چاہتے تھے مگر اس میں انہیں کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی۔ کہاں اسلام کے خلاف سفیر بن کر حبشہ جانا اور کہاں آج سفیرِ نبوی کے طور پر عرب حکمرانوں کو دعوتی خط پہنچانا۔ سبحان اللہ! جب ایمان دل میں قرار پکڑ لے تو عظیم انقلاب رونما ہو کر رہتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کا نامہ مبارک لے کر حضرت عمروبن العاصؓ عمان پہنچے تو پہلے ان کی ملاقات وہاں کے شہزادے عبد بن جلندی سے ہوئی۔ وہ بڑا خوش خلق انسان تھا۔ حضرت عمروؓ نے اسے اپنی آمد کا مقصد بتایا تو اس نے کہا کہ اصلی حکمران تو میرا بھائی ہے‘ میں اس سے تمہاری ملاقات کرائے دیتا ہوں۔ عبد اور اس کا بھائی پہلے سے حضرت عمرو بن العاصؓ کو جانتے تھے۔ آپؓ کے اس سفر کی روداد مختلف تاریخوں میں مذکور ہے۔ زادالمعاد میں حافظ ابنِ قیمؒ نے جو تفصیلی تذکرہ کیا ہے اس کے مطابق‘ یہ دونوں بھائی بالآخر مسلمان ہو گئے تھے۔ حضرت عمروؓ چند روز عمان میں مقیم رہے اور بادشاہ اور اس کے بھائی دونوں سے ان کی کئی نشستیں ہوئیں جن کے دوران اسلامی تعلیمات پر بھی تبادلۂ خیالات ہوتا رہا۔
اس واقعہ کی کچھ تفصیل اس لیے یہاں لکھی جارہی ہے کہ اس میں آج کے مسلم حکمرانوں کے لیے ایک بہت بڑا درس ہے۔ ان دونوں بھائیوں نے ایک موقع پر جب سپر طاقتوں کا تذکرہ کیا تو حضرت عمروؓ نے کہا کہ سپر تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے‘ کوئی مخلوق کسی کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔ جب حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضرت نجاشی کے مسلمان ہونے کا تذکرہ کیا تو عمانی شہزادے کو بڑا تعجب ہوا اور اس نے آغاز میں اسے خلافِ واقعہ سمجھا‘ چنانچہ اس نے سوال کیا کہ عمرو! تم جو کچھ کہہ رہے ہو یہ درست نہیں اور تم جانتے ہو کہ انسان کیلئے جھوٹ سے بڑھ کر کوئی چیز ذلت بخش نہیں ہوتی۔ حضرت عمروؓ نے جواب میں کہا: ''میں نے جھوٹ نہیں کہا اور اسلام میں جھوٹ بولنا کسی صورت بھی جائز نہیں‘‘۔ اس کے بعد ان دونوں کے درمیان درج ذیل دلچسپ مکالمہ ہوا۔
عبد: ہرقل نے کیا کیا؟ کیا اسے نجاشی کے اسلام لانے کا حال معلوم ہے؟ عمرو بن العاصؓ: ہاں۔ عبد: تم کیونکر ایسا کہہ سکتے ہو؟
عمرو بن العاصؓ: نجاشی ہرقل کو خراج دیا کرتا تھا۔ جب سے مسلمان ہوا ہے‘ اس نے کہہ دیا ہے کہ اب وہ اگر ایک درہم بھی مانگے گا تو نہ دوں گا۔ ہرقل تک یہ بات پہنچ گئی۔ ہرقل کے بھائی بناق نے کہا: یہ نجاشی‘ شاہِ روم کا ادنیٰ غلام اب خراج دینے سے انکار کرتا ہے اور ان کے دین کو بھی اس نے چھوڑ دیا ہے۔ ہرقل نے کہا: پھر کیا ہوا؟ اس نے اپنے لیے ایک مذہب پسند کر لیا اور قبول کر لیا‘ میں کیا کروں؟ بخدا اگر اس بادشاہی کا مجھے خیال نہ ہوتا تو میں بھی وہی کرتا جو نجاشی نے کیا ہے۔
عبد: دیکھو عمرو کیا کہہ رہے ہو؟
عمرو بن العاصؓ: قسم ہے خدا کی سچ کہہ رہا ہوں۔
عبد: اچھا بتاؤ وہ کن چیزوں کے کرنے کا حکم دیتا ہے؟ اور کن چیزوں سے منع کرتا ہے؟
عمرو بن العاصؓ: وہ اللہ عزوجل کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں اور معصیت الٰہی سے روکتے ہیں۔ وہ زنا اور شراب کے استعمال سے اور پتھروں‘ بتوں اور صلیب کی پرستش سے منع فرماتے ہیں۔
عبد: کیسے اچھے احکام ہیں جن کی وہ دعوت دیتے ہیں۔ کاش میرا بھائی میری رائے قبول کرے‘ ہم دونوں محمدﷺ کی خدمت میں جا کر ایمان لائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میرے بھائی نے اس پیغام کو رد کیا اور دنیا ہی کا راغب رہا تو وہ اپنی ذات کے ساتھ اپنے ملک کیلئے بھی سراپا نقصان ثابت ہوگا۔ عمرو بن العاصؓ: اگر وہ اسلام قبول کرے گا تو نبی اکرمﷺ اسی کو اس ملک کا بادشاہ تسلیم فرمالیں گے۔ وہ صرف اتنا کریں گے کہ یہاں کے اغنیا سے صدقہ و زکوٰۃ وصول کرکے یہاں کے غربا میں تقسیم کرادیا کریں گے۔ (رحمۃ للعالمین: ص: 153 تا 154) عبد دل سے مطمئن ہو چکا تھا کہ اسلام ہی سچا دین ہے اور حضرت عمروبن العاصؓ کی ایمان افروز گفتگو سے اس کے دل سے تمام بادشاہوں کا خوف بھی نکل چکا تھا‘ مگر اصل فیصلہ تو اس کے بھائی کو کرنا تھا جو حکمران تھا۔ اس دوران عبد اپنے بھائی کو بھی ہر روز کچھ نہ کچھ باتیں بتا دیا کرتا تھا۔
قاضی محمد سلیمان منصور پوری تحریر فرماتے ہیں: ''ایک روز عمرو بن العاصؓ کو بادشاہ نے طلب کیا‘ چوبداروں نے دونوں جانب سے بازو تھام کر انہیں بادشاہ کے حضور پیش کیا۔ بادشاہ نے کہا: اسے چھوڑ دو۔ چوبداروں نے چھوڑ دیا۔ یہ بیٹھنے لگے تو چوبداروں نے پھر ٹوکا‘ انہوں نے بادشاہ کی طرف دیکھا‘ بادشاہ نے کہا: بولو تمہارا کیا کام ہے؟ عمروبن العاص نے خط دیا جس پر مہرثبت تھی۔ جیفر نے مہر توڑ کر خط کھولا‘ پڑھا‘ پھر بھائی کو دیا اس نے بھی پڑھا اور عمروبن العاصؓ نے دیکھا کہ بھائی زیادہ نرم دل ہے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ قریش کا کیا حال ہے؟ عمروبن العاص نے کہا کہ سب نے طوعاً وکرہاً اطاعت اختیار کر لی ہے۔ بادشاہ نے پوچھا: اس نبی کے ساتھ رہنے والے کون لوگ ہیں؟ عمروبن العاصؓ نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کو رضا و رغبت سے قبول کیا۔ سب کچھ چھوڑ کر نبی اکرمﷺ ہی کی صحبت کو اختیار کر لیا ہے اور پورے غوروفکر اور عقل و تجربہ سے آپﷺ کی جانچ کر لی ہے۔ بادشاہ نے کہا: اچھا‘ تم کل پھر ملنا۔ عمرو بن العاصؓ دوسرے دن بادشاہ کے بھائی سے پہلے ملے‘ وہ بولا کہ اگر ہماری حکومت کو صدمہ نہ پہنچے تو بادشاہ مسلمان ہو جائے گا۔ عمرو بن العاصؓ پھر بادشاہ سے ملے۔ بادشاہ نے کہا: میں نے اس معاملہ میں غور کیا‘ دیکھو اگر میں ایسے شخص کی اطاعت اختیار کرتا ہوں جس کی فوج ہمارے ملک تک نہیں پہنچی تو میں سارے عرب میں کمزور سمجھا جاؤں گا حالانکہ اگر اس کی فوج اس ملک میں آئے تو میں ایسی سخت لڑائی لڑوں کہ تمہیں کبھی سابقہ پیش نہ آیا ہو۔ عمرو بن العاصؓ نے کہا کہ بہتر‘ خط تو آپ کو مل گیا ہے‘ میں واپس چلا جاتا ہوں۔ بادشاہ نے کہا: نہیں کل تک ٹھہرو۔ دوسرے دن بادشاہ نے حضرت عمروؓ کے پاس اپنا درباری بھیج کر آپؓ کو بلایا اور دونوں بھائی مسلمان ہو گئے اور رعایا کا اکثر حصہ بھی اسلام لے آیا‘‘۔ (رحمۃ للعالمین: ص155)
حضرت عمرو بن العاصؓ جب عمان سے واپس مدینہ منورہ آئے اور آنحضوﷺر کو ان دونوں بھائیوں کے قبولِ اسلام کی خوشخبری سنائی تو آپﷺ بہت خوش ہوئے۔ اسی طرح پوری جماعتِ صحابہ کو بھی بہت خوشی ہوئی۔ اسلام اپنا راستہ ہر جانب بنا رہا تھا۔ اللہ لوگوں کے دلوں کو اپنے دین کی طرف مائل کر رہا تھا۔ سبحان اللہ وبحمدہٖ سبحان اللہ العظیم!