مدر ڈے‘ فادر ڈے‘ ٹیچر ڈے

رشتے اور محبتیں دنوں میں قید ہو چکیں!
باپ کے لیے فادر ڈے‘ ماں کے لیے مدر ڈے‘ استاد کے لیے ٹیچر ڈے‘ محبوب کے لیے ویلنٹائن ڈے! نہ جانے کون کون سے ڈیز اور بھی! پندرہ سالہ نواسے کو کہا کہ تمہاے بابا (والد) جب بھی آئیں‘ کھڑے ہو جایا کرو! تھوڑا سا حیران ہوا۔ پھر پوچھا: نانا ابو! کیا جب بھی آئیں کھڑا ہو جایا کروں؟ کہا: ہاں! جب بھی‘ جہاں بھی‘ تم پہلے سے بیٹھے ہوئے ہو اور وہ آئیں تو کھڑے ہو جایا کرو! خواہ ہر پانچ منٹ بعد یا ہر دو منٹ بعد! وہ تو اچھا ہوا اس نے یہ نہیں کہا کہ ایسا صرف فادر ڈے پر کروں گا۔ مجھے یاد ہے کل کی طرح کہ دادا جان آتے تھے تو میرے والدِ گرامی اور اُن کے بھائی کھڑے ہو جاتے تھے۔ پھر جب تک دادا جان بیٹھتے نہیں تھے‘ ان کے فرزند کھڑے رہتے تھے۔ گلی میں چلتے ہوئے ان سے آگے نہیں چلتے تھے۔ مسجد سے نکلتے تھے تو بیٹے جوتے سیدھے رُخ کر کے‘ ان کے سامنے رکھتے تھے۔ کھانا کھانے سے پہلے‘ کوزہ پکڑ کر اُن کے ہاتھ دھلاتے تھے تاکہ انہیں چارپائی سے اُترنا نہ پڑے! کہیں جانا ہوتا تو پہلے اُن سے اجازت لیتے اور دعا کراتے۔ اور یہ سب کچھ صرف ہمارے گھرانے تک مخصوص نہ تھا۔ ہر گھر میں‘ ہر خاندان میں تب ایسا ہی ہوتا تھا۔ ہمارے گاؤں میں‘ ہماری برادری کا ایک زمیندار تھا۔ ہم اُسے چاچا کہتے تھے۔ اُس کے تین بیٹے تھے۔ تینوں غیر تعلیم یافتہ! جب یہ تینوں بیٹھک (مردانے) میں بیٹھے ہوئے ہوتے تو باپ کے قدموں کی آہٹ سنتے ہی‘ اس کے آنے سے پہلے کھڑے ہو جاتے! نہیں معلوم یہ ہندو رسم ہے یا مسلم رسم‘ مگر ہمارے علاقے میں‘ ملتے وقت یا جدا ہوتے وقت‘ ماں کے اور باپ کے پیر پکڑے جاتے۔ ہمارے والد اور اُن کے بھائی ضرور ایسا کرتے۔ وہ اپنی ماں‘ یعنی ہماری دادی جان کے رات کے کھانے کے بعد‘ ہر روز‘ بلا ناغہ‘ پاؤں‘ پنڈلیاں اور کاندھے دباتے۔ دادا جان کے سر پر‘ اکثر و بیشتر تیل کی مالش کرتے! دادا جان‘ سر اور داڑھی پر خضاب لگاتے تھے۔ والد گرامی انہیں کہا کرتے کہ کالے خضاب کے بجائے مہندی لگایا کیجیے۔ مگر ساتھ ہی‘ جب بھی شہر سے آتے‘ ان کے لیے خضاب کی شیشیاں بھی لاتے۔ اُن شیشیوں پر‘ اُس زمانے میں ''بی مارکہ خضاب‘‘ لکھا ہوتا! دادا جان ہنستے کہ منع بھی کرتا ہے اور لا کر بھی دیتا ہے۔
آج ہم دوسری انتہا پر ہیں! باپ کام سے لوٹتا ہے۔ بیٹا‘ صوفے یا پلنگ پر نیم دراز‘ فون یا لیپ ٹاپ سامنے رکھے ہوئے ہے۔ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا‘ کھڑے ہونا یا اس کے ہاتھوں سے بیگ یا بریف کیس لے لینا تو دور کی بات ہے۔ ٹھیک ہے پچاس ساٹھ سال پہلے کی قدروں میں کچھ باتیں نامناسب بھی تھیں! مثلاً ماں باپ کے سامنے بیوی سے بات تک نہیں کی جا سکتی تھی۔ رشتے ناتے دادا ہی طے کرتا تھا۔ محبت یا اپنی پسند کا کوئی چکر ممکن ہی نہ تھا۔ بابا جو فیصلہ کرتا‘ کوئی اس کے فیصلے سامنے چُوں بھی نہیں کر سکتا تھا۔ نوزائیدہ بچوں کے نام بھی دادا ہی رکھتا تھا۔ آج منظر نامہ بدل گیا ہے۔ نوجوان جوڑے بچوں کے نام اپنی مرضی سے رکھتے ہیں۔ ہاں‘ کچھ ماں باپ سے اس کی رسمی منظوری لے لیتے ہیں۔ مشترکہ نظام (جوائنٹ فیملی سسٹم) ختم ہونے کے قریب ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ مگر ادب آداب کے معاملے میں بھی دوسری انتہا آ گئی ہے۔ بزرگوں کا احترام اور اہمیت‘ دونوں چیزیں افسوسناک حد تک کم ہو گئی ہیں۔ استاد کا ادب بالکل ختم ہو گیا ہے۔ اس میں استاد کا اپنا قصور بھی ہے۔ استاد کے طور طریقے کمرشل ہو چکے۔ ادب‘ دل سے اُس وقت ہوتا تھا جب استاد بے لوث اور بے غرض خدمت کرتا تھا۔ چھٹیوں میں اساتذہ معاوضے کے بغیر زائد کلاسیں پڑھاتے۔ ہم نے بڑوں سے سنا ہے کہ اٹک آئل کمپنی کھوڑ میں‘ جو ہمارے گاؤں کے قریب ہے‘ ہائی سکول تھا جہاں کے ہیڈ ماسٹر محمد خان صاحب تھے۔ ارد گرد کی بستیوں کے طلبہ سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں رہتے تھے۔ ماسٹر محمد خان صاحب‘ ہر روز‘ شام کا کھانا اپنے گھر میں کھانے کے بعد‘ بورڈنگ ہاؤس میں آ جاتے تھے جہاں رات دیر تک طلبہ کو ہوم ورک کراتے اور پڑھاتے۔ آج اس بے غرض اور بلا معاوضہ محنت کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس بے لوث خدمت ہی کا اثر تھا کہ طلبہ‘ فارغ التحصیل ہونے کے کئی برس بعد بھی ماسٹر صاحب کو دیکھتے یا ملتے تو کھڑے ہو جاتے اور بالکل اسی طرح احترام کرتے جس طرح سکول میں کرتے تھے۔
آج کی صورتحال میں مدرڈے‘ فادر ڈے اور ٹیچر ڈے کا تصور اور رواج غنیمت ہے۔ اس کی پشت پر مغرب کی عملیت پسندی ہے۔ اہلِ مغرب نے ہر مسئلے کا حل نکال لیا ہے۔ مزدوری مہنگی ہوئی اور قلی نایا ب ہوئے تو اٹیچی کیسوں کے نیچے پہیے لگا لیے۔ تھکاوٹ دور کرنے کے لیے مساج چیئر ایجاد کر لی۔ صفائی کے لیے خود کار مشینیں بنا لیں۔ رات کو سو جاتے ہیں تو مشین فرشوں کی صفائی کرتی ہے۔ لان کی گھاس بھی خودکار مشین ہی کاٹتی ہے۔ اسی طرح بے حد مصروف زندگی میں جب انہوں نے دیکھا کہ ماں باپ کو اکثر و بیشتر ملنے یا ان کی مسلسل دیکھ بھال کرنے کا وقت نہیں ملتا تو سال کا ایک دن ان کے نام کر دیا کہ وہ دن ان کے ساتھ گزاریں یا ان کی خدمت میں تحفے پیش کریں! اس مشینی اور مصروف زندگی میں یہی ہو سکتا تھا۔ اور یہی غنیمت ہے۔ اولڈ ہوم کا تصور بھی مجبوری ہی لائی۔ جب میاں بیوی دونوں صبح سویرے سے لے کر شام چھ سات بلکہ آٹھ بجے تک گھر سے باہر ہوں گے‘ اور بچے سکولوں میں‘ تو بوڑھے باپ یا ماں کو دن کے وقت کون سنبھالے گا۔ جو اولڈ ہوم مغربی ملکوں میں دیکھے ہیں ان میں بوڑھوں کو وقت پر کھانا اور ادویات دی جاتی ہیں۔ کمرے اور باتھ روم کی صفائی ہر روز کی جاتی ہے۔ مستقل سٹاف کے علاوہ رضاکار آ کر الگ خدمت کرتے ہیں۔ اخبارات‘ کتابیں‘ ٹیلی ویژن‘ سب کچھ مہیا کیا جاتا ہے۔
ہم وقت کا پہیہ الٹا نہیں چلا سکتے۔ تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ فکرِ معاش غالب ہو رہا ہے۔ زندگی بہت زیادہ مصروف ہو چکی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود ہمیں اُن قدروں کی حفاظت کرنا ہو گی جو مثبت ہیں اور جن سے مغرب آج مکمل طور پر محروم ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ قدریں ہمارے ہاں بھی قصۂ پارینہ کا روپ دھار لیں‘ ہمیں ان قدروں کو سنبھال لینا چاہیے۔ ان میں ماں باپ اور خاندان کے دیگر بزرگوں کا احترام سر فہرست ہے۔ اب فیصلے کرنا ان کے اختیار میں نہیں رہا مگر فیصلوں میں انہیں شامل تو کیا جانا چاہیے۔ آپ بچوں کے نام اپنی خواہش کے مطابق ضرور رکھیے مگر رسمی طور پر بڑوں کی اشیرباد تو لے لیجیے۔ سفر پر نکل رہے ہیں تو انہیں پروگرام سے آگاہ کیجیے اور نکلنے سے پہلے ان سے دعا کرائیے۔ انہیں یہ احساس نہ ہو کہ وہ عضوِ معطل ہو گئے ہیں۔ انہیں محسوس ہو کہ انہیں وہ اہمیت دی جا رہی ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔ ورنہ یاد رکھیے! وقت کی چکی بہت تیزی سے چل رہی ہے:
پیستی جاتی ہے اِک اِک کو ظہور ؔ
آسیائے گردشِ لیل و نہار
( آسیا‘ چکّی کو کہتے ہیں)۔ بہت جلد آپ بھی اسی مرحلے پر پہنچنے والے ہیں! کہ بقول علامہ اقبال:جو تھا نہیں ہے‘ جو ہے نہ ہو گا‘ یہی ہے اک حرفِ محرمانہ!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں