انتظامیہ قانون کیخلاف احتجاج کی اجازت نہ دے،پی ٹی آئی سے رابطہ کیلئے کمیٹی تشکیل دی جائے:اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد(اپنے نامہ نگار سے ، مانیٹرنگ ڈیسک )اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ 24 نومبر کو انتظامیہ قانون کیخلاف احتجاج کی اجازت نہ دے ۔
پی ٹی آئی جلسہ کے معاملے میں سیکرٹری داخلہ کو وزیر داخلہ یا کسی مناسب شخص کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ کمیٹی پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ رابطہ کرے اور کمیٹی پی ٹی آئی قیادت کو بیلاروس کے صدر کے دورے کی حساسیت سے آگاہ کرے ،عدالت کو یقین ہے کہ جب یہ رابطہ ہو گا تو کچھ نہ کچھ پیش رفت ہو گی۔ چیف جسٹس عامرفاروق نے تاجر رہنما اسد عزیز کی درخواست پر سماعت کا پانچ صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامہ جاری کردیا،جس میں عدالت کامزید کہناہے کہ کمیٹی میں چیف کمشنر اسلام آباد کو بھی شامل کیا جائے ،عدالت نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج ، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ امن و امان قائم رکھنے کے لیے اسلام آباد انتظامیہ قانون کے مطابق تمام اقدامات اٹھائے ،انتظامیہ کی ذمہ داری ہے قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے دی جائے ،یقینی بنایا جائے عام شہریوں کے کاروبار زندگی میں کوئی رخنہ نہ پڑے ،پُرامن احتجاج اور پبلک آرڈر 2024 دھرنے ، احتجاج، ریلی وغیرہ کی اجازت کے لیے مروجہ قانون ہے۔
اسلام آباد انتظامیہ مروجہ قانون کے خلاف دھرنا، ریلی یا احتجاج کی اجازت نہ دے ،عدالت نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر داخلہ قانون کے مطابق اسلام آباد میں امن و امان یقینی بنائیں، سیکرٹری داخلہ وزیر داخلہ یا کسی مناسب شخص کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیں اور کمیٹی پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ رابطہ کرے ، کمیٹی پی ٹی آئی قیادت کو بیلاروس کے صدر کے دورے کی حساسیت سے آگاہ کرے ، عدالت کو یقین ہے کہ جب یہ رابطہ ہو گا تو کچھ نہ کچھ پیش رفت ہو گی،کمیٹی میں چیف کمشنر اسلام آباد کو بھی شامل کیا جائے ،امن و امان قائم رکھنے کے لیے اسلام آباد انتظامیہ قانون کے مطابق تمام اقدامات اٹھائے ، انتظامیہ کی ذمہ داری ہے قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے دی جائے ،پی ٹی آئی اسلام آباد میں احتجاج کے لیے ڈپٹی کمشنر کو سات روز پہلے درخواست دے ، اجازت ملنے پر احتجاج کیا جاسکتا ہے ، وزیر داخلہ یہ پیغام پی ٹی آئی لیڈرشپ تک پہنچائیں،عدالت نے وزارتِ داخلہ کو مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی ہدایت کی اور یہ بھی کہاکہ مذاکرات میں کوئی بریک تھرو نہیں ہوتا تو فریقین امن و امان کی صورتحال یقینی بنائیں،حکومت و انتظامیہ اسلام آباد میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے اقدامات کریں،پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی بھی آج کی کارروائی میں عدالت میں پیش نہیں ہوا۔
امید ہے پی ٹی آئی وزیرداخلہ کی جانب سے سامنے لائے گئے پہلوؤں پر غور کریگی،امید ہے پی ٹی آئی قیادت بنائی گئی کمیٹی کے ساتھ بامقصد بات چیت کرے گی،عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکرٹری داخلہ سے رپورٹ اور فریقین سے تحریری جواب طلب کرلیا،آئندہ سماعت27 نومبر کو ہوگی۔قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں احتجاج رکوانے کے لئے دائر درخواست میں ریمارکس دیئے کہ عام شہری کا کیا قصور ہے ؟ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے ؟ جناح سپر ٹریڈر ایسوسی ایشن کے صدر اسد عزیز نے رضوان عباسی ایڈووکیٹ کے ذریعے سیکرٹری داخلہ ، چیف کمشنر اسلام آباد ، آئی جی اسلام آباد اور پی ٹی آئی چیئرمین کو فریق بناتے ہوئے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کے غیر قانونی احتجاج کو روکنے کا حکم دیا جائے ، احتجاج سے اسلام آباد پر لشکر کشی کا تاثر مل رہا ہے ، سیکرٹری داخلہ ، چیف کمشنر ، آئی جی کو احتجاج روکنے کا حکم دیا جائے ، محسن نقوی عدالت پیش ہوئے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کو بیلاروس کا ایک وفد آ رہا ہے ، ہر دوسرے دن ہمیں کینٹنر لگانے پڑتے ہیں ، تفصیلات دوں گا ہم نے کنٹینر کے کرایوں کی مد میں کتنی رقم ادا کرنی ہے ، ہم احتجاج سے نہیں روکتے لیکن اپنے علاقوں میں کریں ، بچوں کے سکول بند ہوتے ہیں، کاروبار تباہ ہوتے ہیں ، احتجاج اپنے اپنے علاقوں میں کریں ، چیف جسٹس نے کہا کہ کنٹینر لگانا اور انٹرنیٹ بند کرنا اس کا حل نہیں ہے ، جو بھی کرنا ہے پارٹی کو سیاسی طور پر انگیج بھی کر سکتے ہیں لیکن کنٹینر اس کا حل نہیں ، یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ پی ٹی آئی کو انگیج کر لیں ؟ محسن نقوی نے کہا کہ تاریخیں وہ رکھی جاتی ہیں جب باہر سے کوئی وفد پاکستان آ رہا ہوتا ہے ، یہ کیا طریقہ ہے کہ احتجاج کے لئے اسلام آباد آ جائیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہی یہاں مین کردار ہیں ، آپ نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ کیا کرنا ہے ، وزیر داخلہ نے کہا کہ کچھ دیر پہلے 38 لوگ شہید ہو گئے ہیں ، ادھر فوکس کریں یا ادھر کریں ، ہم نے ایف سی کسی ایک طرف دینی ہے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کو دیں ، میں آپ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، ہم نے ریڈ زون کا تحفظ کرنا ہے ، میں خود بھی کنٹینرز لگانے کے بالکل خلاف ہوں ، پتہ نہیں کہا جا رہا ہے کہ یہ جہاد ہے اور قبضہ کرنا ہے ، اللہ نہ کرے کہ اس طرح کی صورتحال میں کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ ہو جائے ۔
قبل ازیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہاکہ پی ٹی آئی سے مذاکرات نہیں ہو رہے ۔،24نومبر کو بیلاروس کا وفد اسلام آباد آرہا ہے ،اس دوران بھی اسلام آباد میں موبائل سروس بند ہوگی،اجازت کے بغیر جلسے جلوس کی اجازت نہیں دے سکتے ،پوری ٹیم اپنے انتظامات پورے کرے گی، پنجاب پولیس، رینجرز ایف سی سب مل کر فرائض انجام دیں گے ،کوئی مذاکرات نہیں ہورہے ، مذاکرات دھمکی سے نہیں ہوتے ،اس حق میں ہوں کہ بیٹھ کر بات چیت ہونی چاہیے ،یہ کوئی صورت نہیں کہ دھمکیاں دیں اور کہیں بیٹھ کر بات کریں ،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور آئی جی سے رابطہ رہتا ہے ،خیبرپختونخوا حکومت سے امن و امان کی صورتحال پر بات چیت ہوتی رہتی ہے ،خیبرپختونخوا ملک کا اہم صوبہ ہے جہاں ضرورت ہوگی مدد کریں گے ،ہم مذاکرات کر کب رہے ہیں ؟،ڈیڈ لائن تب ہوتی ہے جب مذاکرات ہو رہے ہوتے ہیں،افغان شہری پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں،آ کر ہمارے لوگوں پر ڈنڈے برسائیں ، دھمکیاں دیں پھر کہیں مذاکرات ہوں ،یہ نہیں ہو گا،اجازت کے بغیر اسلام آباد میں جلسے و جلوس کی اجازت نہیں دے سکتے ،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا ،بیرسٹرگوہر بانی پی ٹی آئی سے ملے تھے ،ہمارا مقصد ہے کہ ریڈ زون ،ڈی چوک کو محفوظ بنائیں۔ان کا کہنا تھا عوام فیصلہ کرے کہ انہی اوقات میں کیوں احتجاج کیا جاتا ہے ؟ عوام دیکھے کہ اس صورتحال کا فائدہ کس کو ہوتا ہے ؟عمران خان سے متعلق انہوں نے کہا کہ عمران خان کو رہا کرنا میرے اختیار میں نہیں ،عمران خان پر متعدد کیسز ہیں ان کی رہائی کا فیصلہ عدالتیں کریں گی۔ اسلام آباد آکر احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ،جو ڈی چوک پر آئے گا وہ گرفتار ہوگا۔
اسلام آباد، لاہور (نیوز رپورٹر ، نیوز ایجنسیاں) وزارت داخلہ کی ہدایت پر وفاقی دارالحکومت میں آج 22 نومبر رات کو موبائل سروس اور انٹرنیٹ سروس بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، وزارت داخلہ کی جانب سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو موبائل سروس اور انٹرنیٹ سروس بند کرنے کے لیے ہدایت دی گئی ، پی ٹی اے حکام نے موبائل سروس اور انٹرنیٹ سروس معطل کرنے کے لیے ٹیلی کام کمپنیوں کو الرٹ کردیا ہے پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کرتے ہوئے کارکنوں کی گرفتاریوں کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں ۔ذرائع کے مطابق وفاقی پولیس نے 26 نمبر چونگی کے اطراف میں گرینڈ آپریشن کا فیصلہ کیا ہے ، تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز کو نفری کے ہمراہ 26 نمبر طلب کر لیا گیا ہے ۔وفاقی پولیس کی جانب سے 26 نمبر چونگی کو مکمل طور پرکلیئر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔
پی ٹی آئی کارکنوں اور غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے خلاف بھی آپریشن کیا جائے گا۔پولیس کی بھاری نفری مستقل بنیادوں پر 26 نمبر چونگی اور اطراف میں تعینات رہے گی۔حکومت پنجاب کی ہدایت پر محکمہ داخلہ پنجاب نے صوبے کے 3 اضلاع راولپنڈی،اٹک اور جہلم میں رینجرز طلب کر لیں۔وفاقی وزارت داخلہ کو بھجوائے گئے خط کے مطابق راولپنڈی اور اٹک میں رینجرز کے 2،2 ونگز جبکہ جہلم میں رینجرز کی1 کمپنی تعینات کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب نے بتایا کہ راولپنڈی اور اٹک میں رینجرز جمعہ22 نومبر سے غیر معینہ مدت کیلئے تعینات ہونگے جبکہ جہلم میں22 سے 27 نومبر تک رینجرز تعینات کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔تحریک انصاف کی 24 نومبر کی احتجاج کی کال پر حکومت اور انتظامیہ حرکت میں آگئی، جس کے بعد اسلام آباد کی طرح راولپنڈی میں بھی دفعہ 144نافذ کردی گئی ہے جبکہ اسلام آباد میں غیرقانونی مقیم افغان شہریوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کی تیاری شروع کردی گئی ہے ، دارالحکومت کو ایک ہزار کنٹینرز کی مدد سے بند کیا جائے گا۔