بھارت کو ایک اور دھچکا،مصر میں وزیراعظم شہباز شریف اور محمد یونس کی ملاقات:پاکستان سے تعلقات مضبوط بنانے پر اتفاق کرلیا:بنگلہ دیش
قاہرہ،اسلام آباد(نامہ نگار،دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک)بھارت کو ایک اور دھچکا، قاہرہ میں وزیراعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش کی نگران حکومت کے سربراہ کے درمیان اہم ملاقات ہوئی جس کے بعد نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس نے کہا اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔
عالمی میڈیا کے مطابق یہ اتفاق رائے بنگلہ دیش کے بھارت کے ساتھ بہت زیادہ سرد مہری کا شکار موجودہ روابط کیلئے ممکنہ طور پر ایک نیا امتحان ثابت ہو گا، بنگلہ دیش موجودہ عبوری حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دور میں بھارت کے بہت قریب رہا ہے ،جبکہ شیخ حسینہ نے ابھی تک بھارت میں پناہ لے رکھی ہے ، بنگلہ دیشی عبوری حکومت چاہتی ہے کہ نئی دہلی شیخ حسینہ کو ملک بدر کر کے بنگلہ دیش کے حوالے کر دے ، جس سے بھارت اب تک انکاری ہے ۔شہباز شریف اور ڈاکٹر یونس کی ملاقات مصر میں ڈی 8سمٹ کے موقع پر ہوئی، ملاقات کے بعد ڈاکٹر یونس نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ 1971ء میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی اور آزادی کے واقعات سے جڑی ہوئی اور تاحال موجود تمام رنجشوں اور شکایات کو بھی حل کیا جائے ۔
اے ایف پی کے مطابق محمد یونس کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق انہوں نے شہباز شریف سے کہایہ مسائل اور موضوعات بار بار سامنے آتے رہتے ہیں، آئیے مل کر ان مسائل کو حل کر لیں، تاکہ ہم آگے کی طرف بڑھ سکیں،دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ ڈھاکہ اور اسلام آبا دکے درمیان زیادہ دوطرفہ تجارت اور کھیلوں اور ثقافت کے شعبوں میں زیادہ باہمی تبادلوں کے ساتھ آپس کے تعلقات کو مضبوط بنایا جانا چاہیے ۔محمد یونس نے کہا وہ آٹھ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک) کی بحالی کی بھرپور خواہش رکھتے ہیں، یہ تنظیم اپنے دو بڑے رکن ممالک پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کے باعث برسوں سے عملی طور پر تعطل کا شکار ہو چکی ہے ،میں چاہتا ہوں کہ سارک کے رکن ممالک کے سربراہان لازمی طور پر مل بیٹھیں، چاہے صرف ایک مشترکہ گروپ فوٹو کے لیے ہی، اس لیے کہ اس سے بھی دنیا کو ایک واضح اور مضبوط پیغام جائے گا۔
ادھر شہبا زشریف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا محمد یونس کے ساتھ ملاقات میں گرمجوشی اور دل سے تبادلہ خیال ہوا،ہم نے مل کر اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہمیں اپنے دوطرفہ اور کثیرالجہتی تعاون کو مزید گہرا کرنا چاہیے ۔خیال رہے کئی دہائیوں کے بعد رواں سال نومبر میں پاکستان سے پہلا مال بردار جہاز براہ راست بنگلہ دیش کی چٹاگانگ بندرگاہ میں کنٹینرز اتارنے کیلئے لنگر انداز ہوا تھا۔وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت اور سفر کی سہولت کے لیے حالیہ اقدامات پر بنگلہ دیش کا شکریہ ادا کیا جس میں پاکستان سے آنے والے سامان کے 100فیصد فزیکل معائنہ کی شرط کو ختم کرنا اور ڈھاکہ ایئرپورٹ پر پاکستانی مسافروں کی جانچ پڑتال کیلئے قائم خصوصی سکیورٹی ڈیسک کو ختم کرنا شامل ہے ۔وزیراعظم نے پاکستانی ویزا کے درخواست دہندگان کے لیے اضافی کلیئرنس کی شرط ختم کرنے پر بھی بنگلہ دیش کا شکریہ ادا کیا۔قبل ازیں وزیراعظم کے مصر کے شاہی محل پہنچنے پر مصری صدر عبدالفتح السیسی نے استقبال کیا، وزیراعظم کی انڈونیشیا کے صدر پرابوو سوبیانتو سے بھی ملاقات ہوئی ، شہباز شریف نے کہا انڈونیشیا پاکستان کا قابل بھروسہ تجارتی شراکت دار ہے ،خوردنی تیل کا زیادہ تر حصہ اسی سے درآمد کرتے ہیں، دونوں رہنمائوں نے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے قریبی رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا۔وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ پاکستان انڈونیشیا کے تعاون اور حمایت سے آسیان کا مکمل ڈائیلاگ پارٹنر بنے گا۔ شہباز شریف نے صدر پرابوو سوبیانتو کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی جو انہوں نے قبول کرلی۔دونوں رہنمائوں نے فلسطین کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ ، غزہ میں جنگ بندی اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ایک جامع طریقہ کار اختیار کرنے پر زور دیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے ترک صدر رجب طیب اردوان سے بھی ملاقات کی اور باہمی تعلقات، تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے پر زور دیا۔
وزیراعظم نے کہا پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تاریخی، برادرانہ اور کثیر الجہتی تعلقات ہیں، انہوں نے صدر اردوان کی قیادت میں ترکیہ کی مثالی ترقی کو سراہا اور کہا دونوں ممالک کو ملکی سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں بالخصوص آئی ٹی، زراعت اور گرین ٹیکنالوجی کے نئے شعبوں میں اقتصادی تعاون بڑھانا چاہیے ۔ شہباز شریف کی ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے بھی ملاقات ہوئی،وزیراعظم نے ایرانی صدر کو دورہ پاکستان کی دعوت دے دی، اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں، دو طرفہ تجارت، معیشت اور دیگر امور پر گفتگو کی، دونوں رہنماؤں نے سلامتی اور علاقائی روابط کے حوالے سے تعلقات مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ بھی کیا،شہباز شریف نے برکس کا رکن بننے پر ایران کو مبارکباد دی، پاکستان نے برکس میں رکنیت کیلئے حمایت کی درخواست بھی کی۔شہباز شریف نے ترقی پذیر ممالک کی تنظیم ڈی -8 کے 11 ویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اجلاس کی میزبانی پر مصری حکومت اور اس کی قیادت کو مبارکباد دی اور آذربائیجان کو ڈی -8 کا رکن بننے پر خوش آمدید کہا ، وزیراعظم نے کہا چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار ملازمتیں فراہم کرتے ہیں اور مقامی سطح پر کاروبار کو فروغ دیتے ہیں ۔ اس سال سربراہی اجلاس کا مرکزی خیال ‘‘نوجوانوں میں سرمایہ کاری، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے رجحان کو فروغ دینا ’’ دراصل 21 ویں صدی میں ہماری اجتماعی خوشحالی کا خاکہ ہے ، پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جو جدت اور ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ حکومت پاکستان اپنے فلیگ شپ یوتھ پروگرام کے ذریعے ، معیاری تعلیم ، روزگار اور پیداواری مواقع فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہے ۔ 2013ء سے اب تک اس پروگرام کے ذریعے لائق اور قابل طالب علموں میں 6 لاکھ سے زائد لیپ ٹاپ اور ہزاروں سکالرشپ دیئے گئے ہیں۔
لاکھوں نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت، ڈیٹا اینالیٹکس اور سائبر سکیورٹی کے حوالے سے فنی تربیت فراہم کی گئی ہے ، پاکستان دنیا کی سب سے بڑی فری لانسرز کمیونٹیز میں سے ایک ہے ، ہم آئی ٹی کے شعبے میں تربیت پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں تاکہ بڑے پیمانے پر اپنے نوجوانوں کو جدید صلاحیتوں سے آراستہ کر سکیں، ڈیجیٹل دنیا کے ساتھ مزید بہتر طرح سے جڑ سکیں اور ملازمتوں کے مزید مواقع فراہم کئے جا سکیں، وزیراعظم نے کہا کہ حکومت پاکستان نے یوتھ بزنس اینڈ ایگریکلچر لون سکیم کے ذریعے اربوں روپوں کے قرضے دیئے ہیں جس کا مقصد نوجوانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے ہمارے سٹارٹ اپس پاکستان اور نیشنل انوویشن ایوارڈز جیسے اقدامات کا مقصد ایک امید افزا سٹارٹ اپ ماحول کو فروغ دینا اور انکیوبیشن کے مواقع فراہم کرنا ہے ۔ ترقی اور خوشحالی کے لئے کنیکٹوٹی ناگزیر ہے ڈی -8 کے رکن ممالک کے مابین ٹرانسپورٹ کنیکٹوٹی کو بڑھانے اور ترقی دینے اور اس حوالے سے امکانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ باہم تجارتی راہداریاں اور قابل اعتماد سپلائی چینز وجود میں آ سکیں،اس سلسلہ میں پاک ایران ترکی کوریڈور ایک بہترین منصوبہ ہے ، وزیراعظم نے کہا کہ انہیں یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ پاکستان کی کابینہ نے تنازعات نمٹانے کے میکنزم کے حوالے سے ڈی -8 کے رکن ممالک کے ساتھ پروٹوکول اور ترجیحی تجارتی معاہدے کی منظوری دے دی ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ جو مواقع ہم آج فراہم کریں گے اس پر آئندہ نسلوں کے مقدر کا انحصار ہے ۔آئیے ہم ان نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے مناسب مواقع فراہم کریں تاکہ ہمارا مستقبل ایک بااختیار نسل کے ہاتھوں میں ہو۔