3ہائیکورٹس سے3جج اسلام آباد ہائیکورٹ لانیکا فیصلہ:5ججوں کی مخالفت
لاہور (محمد اشفاق سے )اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین صوبوں کی ہائیکورٹس سے ایک ایک جج کو ٹرانسفر کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ،اس کا نوٹیفکیشن جلد جاری ہونے کا امکان ہے جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد10سے بڑھ کر 13ہوجائے گی۔
اسلام آبا دمیں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں تین صوبوں کی ہائیکورٹس سے ایک ایک جج اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کرنے کاحتمی فیصلہ ہوا،اجلاس میں اعلیٰ عدالتی شخصیات اور وزرا نے شرکت کی ۔ججز کی ٹرانسفر کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم سے مشاورت کا عمل کرلیا گیا جبکہ سندھ ہائیکورٹ اور بلوچستان ہائیکورٹ سے ایک ایک جج کو ٹرانسفر کرنے کیلئے خط و کتابت حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہے ۔لاہور ہائیکورٹ سے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کیا جائے گا جو بطور سینئر جج فرائض انجام دیں گے اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق کے سپریم کورٹ کا جج بننے کے بعد جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ مقرر کردیا جائے گا۔سندھ ہائیکورٹ اور بلوچستان ہائیکورٹ سے ججز نام بھی جلد فائنل ہوجائیں گے ۔صدر پاکستان آئین کے آرٹیکل 200کے تحت تین صوبائی ہائی کورٹس سے ایک ایک جج کے اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفرکا حکم جاری کریں گے جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کا امکان ہے ۔
اسلام آباد(رضوان قاضی)اسلام آبا د ہائیکورٹ کے 5ججز نے صوبائی ہائیکورٹس سے ایک ایک جج کی اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر اور ان میں سے ایک کو چیف جسٹس بنانے کی مخالفت کردی ،اس حوالے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس محسن اختر کیانی سمیت 5 ججز نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیی آفریدی کو خط لکھاہے جس کی کاپیاں اسلام آباد ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کوبھی بجھوائی گئی ہیں ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمد جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ دوسری ہائیکورٹ سے جج چیف جسٹس بنانے کیلئے نہ لایا جائے بلکہ ہائی کورٹ کے تین سینئر ججز میں سے ہی کسی کو چیف جسٹس بنایا جائے ۔ خط میں لکھا ہے کہ میڈیا میں دوسری ہائی کورٹس سے جج اسلام آباد ہائی کورٹ لانے کی خبریں رپورٹ ہوئی ہیں،بار ایسوسی اِیشنز کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ سے ایک جج کو ٹرانسفرکیا جانا ہے ،ٹرانسفر کئے گئے جج کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر زیرغور لایا جائے گا،سندھ ہائی کورٹ سے بھی ایک جج کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلے کی تجویز زیر غور ہونے کی اطلاعات ہیں،دوسری ہائیکورٹ سے جج لانے کیلئے اس کی وجوہات دینا اور بامعنی مشاورت ضروری ہے ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری ججز کی سنیارٹی کیسے تبدیل ہو سکتی ہے ؟، ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں ججز کے ٹرانسفر کے طریقہ کار کو بھی خط میں ڈسکس کیا گیا ہے جس کے مطابق ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں جج کے تبادلے کا عمل آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہوتا ہے ،مگر یہ صدر مملکت کی چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں متعلقہ ہائیکورٹ کے ججز سے مشاورت کے بعد ممکن ہے ۔خط میں کہاگیاکہ لاہور ہائیکورٹ سے جج اگر اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے تو وہ آئین کے مطابق چیف جسٹس نہیں بن سکتا،کیونکہ جج کا حلف اُس ہائیکورٹ کیلئے ہوتا ہے جس میں وہ کام شروع کریگا،ٹرانسفر ہونے والے جج کو آئین کے آرٹیکل 194 کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ میں کام شروع کرنے سے پہلے نیا حلف اٹھانا پڑے گا،اسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے ٹرانسفر ہونے والے جج کی سنیارٹی اُس نئے حلف کے مطابق طے کی جائے گی،سپریم کورٹ یہ طے کر چکی ہے کہ سنیارٹی کا تعین متعلقہ ہائیکورٹ میں حلف لینے کے دن سے کیا جائے گا،لاہور ہائیکورٹ سے جج لا کر اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا تو یہ آئین کے ساتھ فراڈ ہو گا کیونکہ آئین کے مطابق ہائیکورٹ کا چیف جسٹس اُسی ہائیکورٹ کے تین سینئر ججز میں سے تعینات کیا جائے گا،کسی اور ہائیکورٹ سے سنیارٹی میں نچلے درجے کے جج کو دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کر کے چیف جسٹس کیلئے زیرغور لانا آئین کے مقصد کو شکست دینے کے مترادف ہے ،آئینِ پاکستان میں فیڈرل جوڈیشل سروس کا کوئی تصور موجود نہیں اور تمام ہائیکورٹس آزاد اور خودمختار ہیں،ہائیکورٹ میں جو ججز تعینات کئے جاتے ہیں۔
وہ صرف اُس مخصوص صوبے کی ہائیکورٹ کیلئے حلف لیتے ہیں،2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پاکستان میں سیاسی جمہوری حکومتوں کے ادوار میں آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہائیکورٹ کے مستقل جج کی تعیناتی کی کوئی مثال نہیں ملتی، ججز خط میں یہ بھی کہاگیا کہ سپریم کورٹ یہ طے کر چکی ہے کہ سنیارٹی کا تعین متعلقہ ہائیکورٹ میں حلف لینے کے دن سے کیا جائے گا،لاہور ہائی کورٹ میں 60 ججز کی گنجائش ہے جبکہ صرف پینتیس ججز کام کر رہے ہیں،لاہور ہائیکورٹ میں 58.33 فیصد ججز موجودہ ہیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے ہی بارہ میں سے دس ججز کام کر رہے ہیں جس کا تناسب 83.33فیصد بنتا ہے ،یہ تاثر درست نہیں کہ جج کا تبادلہ کی وجہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد ہے ، حقیقت میں ججز کی زیادہ ضرورت اسلام آباد ہائیکورٹ کے بجائے لاہور ہائی کورٹ میں ہے ،جہاں زیر التوا کیسز کی کہیں زیادہ 2لاکھ تک ہیں ۔دوسری طرف پشاور ہائیکورٹ میں ایڈیشنل ججزکی تقرری جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج ہوگا ،اس سلسلے میں چیف جسٹس آف پاکستان یحیی آفریدی سے وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل نے ملاقات کی۔ذرائع کے مطابق وزیرقانون اور اٹارنی جنرل کی چیف جسٹس سے ملاقات ان کے چیمبرمیں ہوئی اور ملاقات میں پشاورہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور دیگرسپریم کورٹ ججز بھی موجود تھے ۔ ملاقات کے دوران جوڈیشل کمیشن کے کل کے اجلاس کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔دریں اثنایورپی یونین کے نمائندہ خصوصی انسانی حقوق اولاف اسکوگ نے چیف جسٹس پاکستان یحیی آفریدی سے ملاقات کی اورجوڈیشل بیک لاگ کیساتھ عدلیہ کی سالمیت اور آزادی پربات چیت کی۔