جیسا کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ افغانستان میں 5 اپریل 2014ء کو عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ جس میں ایک اطلاع کے مطابق 11امیدوار بحیثیت صدر کے حصہ لے رہے ہیں یہ بڑے اہم انتخابات ہیں۔ اگر پُرامن طریقے سے منعقد ہوگئے تو پہلی مرتبہ افغانستان میں ایک جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آسکے گا۔ اس سے قبل یعنی 2009ء میں افغانستان میں جو عام انتخابات ہوئے تھے‘ اُن میں غیر معمولی دھاندلیاں کی گئی تھیں جس کی وجہ سے وہ انتخابات متنازعہ بن گئے تھے اور خود افغانستان کے صدر حامد کرزئی کی شخصیت بھی متنازعہ ہوگئی تھی۔ عالمی برادری کے جن ارکان نے 2009ء کے عام انتخابات میں مبصر کی حیثیت سے نگرانی کی تھی‘ انہوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا تھا کہ 2009ء میں افغانستان میں ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔ اُس وقت امریکہ نے ان انتخابات میں حامد کرزئی کی نہ صرف مدد کی تھی بلکہ امریکی سی آئی اے نے انہیں فتح سے ہمکنا ر کرنے کے سلسلے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس طرح حامد کرزئی گزشتہ 12 سال سے افغانستان میں صدارت کے منصب پر فائز ہیں۔ تاہم اب وہ افغانستان کے آئین کے مطابق تیسری بار انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے‘ لیکن ان کی کوشش اور خواہش ہے کہ ان کا اپنا کوئی امیدوار صدارتی انتخابات میں
جیت کر آئے تاکہ اُن کو آئینی تحفظ حاصل ہوسکے‘ کیونکہ کرزئی سمیت اُن کی ٹیم پر کرپشن کے انتہائی سنگین الزامات ہیں‘ نیز غیر جانبدار مبصروں نے یہ بھی کہا ہے کہ حامد کرزئی اور اُن کے وزراء نے امریکی امداد کا بیشتر حصہ اپنی جیبوں میں رکھا ہے‘ جبکہ افغان عوام کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں مناسب پیسہ نہیں خرچ کیا گیا۔ امریکہ نے اب تک افغانستان میں طالبان کے خلاف جاری جنگ میں ایک ٹریلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اتنی بڑی رقم سے افغانستان میں شہد اور دودھ کی نہریں بہہ سکتی تھیں لیکن 30 ملین کی آبادی کا یہ ملک غربت، ناداری اور افلاس کی منہ بولتی تصویر بنا ہوا ہے۔ دوسری طرف جس ''جمہوریت‘‘ کے فروغ کے لیے امریکہ نے 2001ء میں افغانستان پر شمالی اتحاد کی معاونت کے ذریعے قبضہ کیا تھا‘ وہاں اب نہ تو جمہوری اقدار ہیں اور نہ ہی افغانستان میں کسی قسم کی ترقی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ طالبان مضبوط قبائلی نظام کے تحت اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور تقریباً دو تہائی حصہ پر اُن کا قبضہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے دنیا کو یہ تاثر مل رہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے اور وہ 2014ء
کے آخر میں اپنی اور نیٹو کی فوج لے کر افغانستان سے نکل جائے گا‘ لیکن افغانستان سے متعلق سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ افغانستان سے کلی طور پر نہیں جائے گا بلکہ وہ تقریباً 10 سے 15 ہزار فوجی افغانستان میں رکھے گا اور کچھ فوجی اڈے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ افغان صدر جناب حامد کرزئی پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ فی الفور امریکہ کے ساتھ دو طرفہ (Bilateral) سکیورٹی کے معاہدہ پر دستخط کردیں‘ تاکہ امریکہ کی پوزیشن 2014ء کے بعد بھی مضبوط ہوسکے‘ لیکن حامد کرزئی نے امریکہ کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ 5 اپریل 2014ء کے عام انتخابات میں جو صدر بھی انتخاب جیت کر آئے گا وہی اس سکیورٹی کے معاہدہ پر دستخط کرے گا۔ اس طرح کرزئی اپنے آپ کو قوم پرست رہنما کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور طالبان کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ افغانستان میں جو جنگ جاری ہے وہ امریکہ کی مسلط کردہ ہے۔ اس طرح بارہ سال سے زائد حکومت کرنے اور وسائل کو اپنے اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے استعمال کرنے کے بعد کرزئی امریکہ کی مذمت کر رہے ہیں اور افغان عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے ملک کی تباہی و بربادی کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ پاکستان سے بھی ناراض ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی ایما پر انہوں نے پاکستان سے کبھی اچھے مراسم استوار کرنے کی بھی کوشش نہیں کی بلکہ آج کل کابل کے ہوٹلوں اور ریسٹ ہاؤسز میں طالبان کی جانب سے جو حملے ہو رہے ہیں اُس سے متعلق کرزئی کا یہ الزام ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان کرا رہا ہے‘ حالانکہ ان کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ ان کی حکومت اور افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کے خلاف جو مسلح جدوجہد ہو رہی ہے وہ افغان طالبان کر رہے ہیں اور جیسے جیسے عام انتخابات کے دن قریب آ رہے ہیں‘ ان کی مسلح جدوجہد اور سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔ کرزئی اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے افغانستان میں ہونے والے حملوں میں پاکستان کو ملوث کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور ایک بار پھر امریکہ سے ملتمس ہیں کہ وہ فاٹا میں فوجی کارروائی کرکے انتہا پسندوں کے مراکز کو ختم کر دے۔ لیکن اب امریکہ کرزئی کی عیاری اور مکاری کو سمجھ چکا ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا‘ بلکہ افغانستان میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان کی مدد اور تعاون کا خواستگار ہے۔ پاکستان نے کرزئی کے تمام الزامات کا صرف ایک ہی جواب دیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں حقیقی امن کا خواستگار ہے اور وہاں امن کے قیام کے سلسلے میں وہی کچھ کرے گا جو افغان عوام چاہیں گے۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار جناب صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی اپنے حالیہ دورہ کابل میں کیا ہے۔ لیکن حامد کرزئی پاکستان دشمنی میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ وہ پاکستان کی جانب سے ہر قسم کی وضاحت کو درخور اعتناء نہیں سمجھ رہے اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو خراب کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں لیکن ساری دنیا نے کرزئی کے پاکستان کے خلاف ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت تہہ دل سے افغانستان میں امن کی خواہاں ہے اور پُرامن انتخابات کے انعقاد کی بھی۔ یہ بات حامد کرزئی کو سمجھ میں آنی چاہیے کیونکہ اسی میں دونوں ملکوں کے عوام کی بھلائی مضمر ہے۔