ناراض بلوچوں کے ساتھ بات چیت اور گوادر پورٹ

پاکستان کے سیاسی پس منظر کے حوالے سے یہ خبر بڑی خوش آئند ہے کہ ناراض بلوچوں کے ساتھ بلوچستان میں قیام امن اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے سلسلے میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اس بات کا انکشاف لیفٹننٹ جنرل نصیر خان جنجوعہ نے کیا ہے۔ اس سے قبل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بھی اسی قسم کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اس طرح یہ امید کی جا رہی ہے کہ ان مذاکرات کے ذریعے بلوچستان میں امن کے حوالے سے بڑی معنوی تبدیلی آسکتی ہے‘ کیونکہ گزشتہ چھ سات سال سے بلوچستان کے بعض علاقوں میں دہشت گردی اور قتل و غارت گری کے سنگین واقعات رونما ہو رہے ہیں جنہوں نے بلوچستان میں مجموعی ترقی کے امکانات کو خاصی ٹھیس پہنچائی ہے‘ خصوصیت کے ساتھ بلوچ بیلٹ میں۔ اس وقت بلوچستان میں دو قسم کے عناصر پائے جاتے ہیں؛ ایک وہ جو پاکستان سے باہر بیٹھ کر غیر ملکی طاقتوں کی ہدایت، ایما اور اشارے پر بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں جس میں انہیں فی الوقت کسی بھی قسم کی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے‘ انہی عناصر نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بلوچستان کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے‘ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ ایف سی اور فوج کے قافلوں پر حملہ کرکے جانی نقصان پہنچانا بھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہے‘ معصوم لوگوں کو قتل کرکے ان کی نعشوں کو سڑکوں پر پھینک دینا بھی ان عناصر کی حکمت عملی کا خاص طریقہ کار ہے تاکہ پاکستان کے حساس اداروں کو بدنام کیا جاسکے۔ اسی قسم کی حکمت عملی سابق مشرقی پاکستان میں بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی نے بھی اپنائی تھی۔ دوسرا وہ طبقہ ہے 
جو بلوچستان میں جنگجوئوں کاحامی نہیں‘ نہ ہی یہ لوگ علیحدگی کے فلسفہ سے اتفاق کرتے ہیں بلکہ وہ پاکستان میں رہتے ہوئے حکومت پاکستان سے اپنے لیے سیاسی اور معاشی مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جس نے 2013ء کے عام انتخابات میں حصہ لے کر وفاق کو مضبوط کیا اور یہ واضح پیغام بھی دیا ہے کہ اگر بلوچستان کے عوام کے معاشی اور سماجی مسائل حل کر دیئے جائیں تو اس حکمت عملی سے جنگجوئوں کی مکمل طور پر کمر ٹوٹ جائے گی۔ ان کی یہ سوچ بالکل صحیح ہے۔ تاہم حکومت اول الذکر طبقہ سے بات چیت کرنا چاہتی ہے‘ بالکل اُسی طرح جس طرح وفاقی حکومت تحریک طالبان کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔ 
اگر ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوجائیں تو بلوچستان میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے اور اُن بیرونی طاقتوں کو منہ کی کھانی پڑے گی جو چند گمراہ گروپوں کو روپے پیسے اور اسلحہ دے کر نام نہاد علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ ہر چند کہ اپنی نوعیت کی یہ پہلی تحریک نہیں ہے‘ اس سے قبل پانچ مرتبہ اسی قسم کی نام نہادعلیحدگی کی تحریکیں چلیں جو کامیاب نہ ہوئیں۔ بعد میں ان تحریکوں کے علم برداروں نے صوبائی اور وفاقی حکومت میں شمولیت بھی اختیار کی تھی اور معاشی فوائد بھی اٹھائے تھے۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ بلوچستان کی آبادی کی اکثریت علیحدگی کا تصور نہیں رکھتی ہے۔ ان کی ناراضگی وفاق اور صوبائی حکومتوں سے 
وسائل کے حوالے سے رہی ہے۔ بہرحال ڈائیلاگ کے ذریعے دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی بات جنوبی کمانڈ کے جنرل جنجوعہ کہہ رہے ہیں اور انہیں امید ہے کہ شورش پسند پاکستان دشمن اور عوام دشمن سرگرمیوں کو خیرباد کہہ کے مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہو کر اپنے حقوق کے حصول کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی ترقی کے لیے کام کریں گے‘ جیسا کہ اُن کے ہم وطنوں نے 2013ء کے عام انتخابات میں حصہ لے کر کیا ہے۔اس ضمن میں جنرل صاحب نے گوادر پورٹ کا بھی حوالہ دیا ہے جس کو 2013ء میں چین کی ایک معروف کمپنی کے سپرد کیا گیا ہے جو اس کا نظم و نسق بڑی خوبی سے چلا رہی ہے اور جہاں اس وقت پڑھے لکھے بلوچوں اور پختونوں کو باقاعدہ سائنٹفک بنیادوں پر پورٹ چلانے کے سلسلے میں ضروری تربیت دی جا رہی ہے لیکن جنگجوئوں کے ایجنٹ ان تربیت حاصل کرنے والوں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں تاکہ وہ تربیت حاصل نہ کرسکیں اور گوادر پورٹ فعال نہ ہوسکے؛ تاہم تربیت حاصل کرنے والے ان کی دھمکیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے اور گوادر پورٹ کو فعال بنانے کے سلسلے میں جدید تربیت حاصل کرنے کا عزم کر چکے ہیں تاکہ چینیوں کے ساتھ مل کر گوادر پورٹ کو عالمی سطح پر تجارت کے لیے فعال اور متحرک بنایا جاسکے۔ خود چینی چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے ہنرمند افراد آئندہ اس پورٹ کو چلانے کے لیے وہ تمام ضروری تربیت حاصل کریں جو دنیا بھر میں پورٹ کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ 
گوادر پورٹ کی ترقی روکنے کے لیے بلوچستان سالوشن فرنٹ بھی بے حد سرگرم ہے۔ بلوچستان لبریشن آرمی بھی تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہے اور صوبائی اور وفاق کی املاک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگجوئوں کے گروپوں نے گزشتہ پانچ سال کے دوران کوئٹہ، گوادر، تربت، خضدار، خاران کے علاقوں میں 2000 سے زائد پنجابیوں اور اردو بولنے والوں کو قتل کیا تاکہ وہ خوفزدہ ہو کر اس صوبہ کو چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں۔ ہزارہ کمیونٹی کے سینکڑوں بے گناہ افراد کو قتل کرنے میں بھی انہی وطن دشمن عناصر کا ہاتھ رہا ہے۔ ایف سی کی جانب سے ان تخریبی عناصر کے خلاف جوابی کارروائی ہو رہی ہے جس میں یہ لوگ مارے جا رہے ہیں۔ 
ان تمام تخریبی کارروائیوں کے باوجود بلوچستان اور گوادر پورٹ آہستہ آہستہ ترقی کی جانب رواں دواں ہیں اور پیشین گوئی کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند سالوں میں یہ پورٹ اس خطہ میں تجارت کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ واضح رہے کہ گوادر پورٹ چین نے اپنے وسائل سے BOT کی بنیاد پر تعمیر کی ہے۔ اس پورٹ کی پوری طرح فعالیت کے بعد سینکڑوں بلوچوں اور پختونوں کو یہاں ملازمیتں مل سکیں گی‘ جس سے ان کی زندگیوں پر انتہائی مثبت اور خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور وہ ترقی کی نئی سوچ کے ساتھ پاکستان اور خود اپنی معاشی ترقی اور تعمیر میں اہم کردار ادا کر سکیں گے۔ گوادر پورٹ کے قریب ایران 4 بلین ڈالر کی کثیر رقم کے ساتھ ایک بڑی آئل ریفائنری بھی تعمیر کر رہا ہے جس میں ملازمتوں کے بے پناہ مواقع میسر آئیں گے؛ چنانچہ بلوچستان کی ترقی اور صوبے میں قیام امن کے حوالے سے ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ افواج پاکستان اس سلسلے میں سیاسی حکومت کے مشورے سے اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اب تک اس صوبہ میں ترقی کے جو آثار نمودار ہوئے ہیں‘ ان میں سیاسی قیادت اور فوج کا اہم کردار رہا ہے اور اس کو ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ تاہم جنگجوئوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے تخریبی کارروائی کرکے نہ تو بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کر سکتے ہیں اور نہ بلوچستان کے عوام کی اکثریت ہی اس سوچ کی حامل ہے۔ بلوچستان کے عوام پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں‘ خصوصیت کے ساتھ بلوچستان کی سیاسی اور سماجی شخصیات اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اُن کی ترقی اور آئندہ نسلوں کی خوش حالی کا سارا دارومدار پاکستان کے ساتھ وابستگی پر ہے۔ جنگجوئوں کی جانب سے سنہری خواب دکھانے والی ساری باتیں مکمل طور پر بے بنیاد اور سراب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں