آج سے بھارت میں عام انتخابات شروع ہورہے ہیں جو 12مئی 2014ء تک جاری رہیں گے۔ ان انتخابات میں چھوٹی بڑی اور علاقائی جماعتوںکو ملا کرکل 200 سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں ، لیکن مرکزی سطح پر دو بڑی جماعتوں یعنی کانگریس اور بی جے پی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ 127سال پرانی سیاسی جماعت کانگریس نے 45 سالہ راہول گاندھی کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے کھڑا کیا ہے۔ راہول راجیواور سونیا گاندھی کے بیٹے ہیں ۔ بھارتی جنتا پارٹی( بی جے پی ) نے 63 سالہ نریندرا مودی کووزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے میدان میں اتارا ہے۔
ایک سروے کے مطابق بھارت کاسرمایہ دار طبقہ (بورژوا کلاس) مودی کی حمایت کر رہا ہے بلکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان سرمایہ داروں اور چھوٹی صنعتوں کے مالکوں کی جانب سے مودی کو انتخابات کی مد میں اب تک دس ارب روپے مل چکے ہیں ۔ اس سے قبل کسی بھی جماعت کے امیدواروں کو الیکشن کی مد میں اتنی کثیر رقم مہیا نہیں کی گئی تھی۔ پیشین گوئی کی جارہی ہے کہ مودی، کانگریس کے راہول کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن انہیں اکثریت حاصل نہ ہو سکے گی ۔ اگر واقعتاً وہ انتخابات جیت گئے تو انہیں لوک سبھا میں دوسری علاقائی جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دینی پڑے گی اوراس طرح وہ ایک مضبوط حکومت نہیں بنا سکیں گے ۔
جہاں تک کانگریس کے امیدوار راہول گاندھی کا تعلق ہے، وہ نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں اور یوتھ لیگ کے صدر بھی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے نوجوانوں کے لیے روزگار فراہم کرنے کے سلسلے میں جو اقدامات کیے ہیں ان کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ کانگریس کا گزشتہ دس سالہ ریکارڈ مجموعی طور پربھارت کی ترقی کے حوالے سے انتہائی شاندار رہا ہے لیکن گزشتہ تین برسوں کے دوران کانگریس کی کارکردگی کم ہوئی ہے بلکہ ان کے بعض وزراء پرکرپشن کے سنگین الزام عائد کیے گئے ہیں۔ ان الزامات کی وجہ سے عوام کے کچھ طبقوں میں کانگریس کی مقبولیت کاگراف کم ہواہے ؛ تاہم دیہی علاقوںکے علاوہ یوپی میںکانگریس کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی اکثریت عام انتخابات میں کانگریس کی حمایت کر رہی ہے کیونکہ کانگریس ایک سیکولرجماعت ہے اور بھارت کا سیکولر تشخص بھی اسی نے قائم کیا ہے۔
دوسری طرف نریندرا مودی ایک انتہا پسند ہندو ہے جس نے سات سال کی عمر میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیارکی تھی اوراب بھی وہ اس کی ہر طرح سے مدد کرتا رہتا ہے۔ اس کا والد گجرات کے نواح میں بس سٹاپ پر چائے کا کھوکھا چلاتا تھا۔ مودی دن بھر اپنے باپ کے ساتھ بس کے مسافروںکو آواز لگاکر چائے فروخت کیاکرتا تھا، لیکن اس تکلیف دہ بچپن کے دوران اس نے تعلیم سے رشتہ نہیں توڑا اورگجرات کے انتہا پسند چھوٹے دکانداروں کی مالی مدد سے ایم اے کر لیا اور اسی کے ساتھ بی جے پی میں شمولیت اختیارکر لی اورگجرات کے معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا۔ وہ پہلی بارگجرات میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے تعاون سے وزیر اعلیٰ بناتو اس کی پہلی تقریر مسلمانوں کے خلاف جذبات سے بھر پور تھی۔ 2002ء میںگودھراکے قریب ایک ریل گاڑی میںہندو یاتریوں کے قتل کے سلسلے میں جب مسلمانو ں پر الزام عائدکیاگیا تو مودی نے خفیہ طور پر مسلمانوں کے خلاف قتل عام کاحکم جاری کیا جس میں ڈھائی ہزارمسلمان مرد، عورتیں،بچے اور بوڑھے بڑے بے رحمی سے قتل کر دیے گئے، یہاں تک کہ مسلمان بزرگوں کی قبروںکو مسمارکرکے ان کی باقیات کو سڑکوں پر پھینک دیا گیا۔ بھارتی عوام کی اکثریت گجرات میں مسلمانوں کے قتل کا سارا الزام نریندرا مودی پر لگاتے ہیں اوراسے مسلمانوں کا قاتل قرار دیا جاتا ہے۔ اگر یہ شخص انتخابات میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے جس کے خاصے امکانات نظر آرہے ہیں تو بھارتی مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو بڑے مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ ایک بار پھر غیر محفوظ ہو جائیں گے جبکہ دوسری طرف بھار ت میں انتہا پسند ہندوئوںکی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔
اس ضمن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر مودی کو بھارت کے عام انتخاب میں کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کا پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کیا رویہ ہو سکتا ہے؟کیا وہ پاکستان کے ساتھ پھر جنگی جنون کو پھیلائے گاکیونکہ بنیادی طورپروہ ایک انتہا پسند ہندو ہے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اس نے حال ہی میں آسام میں ایک جلسہ عام میں خطاب کے دوران پاکستان کے خلاف جی بھر کے زہر اگلا اور مقبوضہ کشمیر کے متعلق یہ کہا کہ یہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، اس پر بات چیت کرنے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ اسی جلسہ عام میں اس نے چین کو بھی للکارا اورکہا کہ چین اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس خطے کو عدم استحکام سے دو چارکررہا ہے ؛ چنانچہ مودی کے ان خیالات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہوگیا تو پاکستان کے خلاف جارحانہ پالیسی اختیارکرتے ہوئے کشیدگی میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی موڑ پر جنگ کا محاذ کھول دے ۔ نریندرا مودی سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ یہی وہ شخص ہے جو1996ء میں اجودھیا میں بابری مسجدکو شہیدکرنے میں ایل کے ایڈوانی کے ساتھ پیش پیش تھا۔
اس کے باوجودکانگریس کو ان انتخابات کے حوالے سے کمزور نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اس کا منشور بھارت کے عوام میں غربت ختم کرنے سلسلے میں خاصی کشش رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت بھارت کی آبادی کا نصف خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ راہول گاندھی اپنی تقریروں میں غریبوںکی زبان میں بات کررہے ہیں اور ان کا دل جیتنے کی کوشش کررہے ہیں۔ راہول کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم میں ان کی والدہ سونیاگاندھی اور ان کی بہن پریانکا بھی بڑی سخت محنت اور لگن کے ساتھ انتخابی مہم چلارہی ہیں ۔ بھارت کا باشعورطبقہ مودی کی انتہا پسند سوچ کے خلاف ہے، اس کااستدلال یہ ہے کہ اگر نریندرا مودی الیکشن جیت جاتا ہے تو بھارت میں سیکولرازم پر زبردست چوٹ پڑے گی۔ اس پس منظر میں ان انتخابات میں سیکولر اور اعتدال پسند قوتوں کی نمائندگی کانگریس کر رہی ہے جبکہ نریندرا مودی انتہا پسند ہندوئوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس طرح وہ بھارت کو ایک ہندو ملک بنانے کی کوشش کریںگے۔ دراصل اس وقت بھارت میں ہونے والے عام انتخابات میں حقیقی مقابلہ سیکولر سوچ اور انتہا پسند وں کے درمیان ہے۔