روسی فیڈریشن کے صدر جناب ولادی میر پیوٹن نے کریمیاکو روسی فیڈریشن میں ریفرنڈم کے ذریعے شامل کرکے روسی عوام کے دل جیت لئے ہیں۔مغربی ممالک کو یہ امید نہیں تھی کہ پیوٹن کریمیا کو اتنی جلدی ہڑپ کرجائیں گے ؛ تاہم ایسا ہوا اور مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اس صورتحال پر حیرت زدہ رہ گیا اور اس کی مزاحمت نہیں کرسکا۔ نیٹو کو بھی یہ امید نہیں تھی کہ روسی صدر مغربی ممالک اور امریکہ کی مشترکہ طاقت کے سامنے اپنے پرانے مگر تاریخی زمینی حصے کو اتنی جلدی اپنے ملک میں شامل کرلیںگے۔ اب یورپی یونین اور امریکہ اپنی خفت مٹانے کے لیے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کررہے ہیں جس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔ دوسری طرف روسی صدر نے اپنے اس اقدام سے مغربی ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ روس اس وقت اتنا کمزور نہیں ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت نہ کرسکے یا پھر اپنے پرانے تاریخی جغرافیائی حصوں کو دوبارہ اپنے ساتھ نہ ملا سکے ۔ تاہم کریمیا کے سلسلے میں اس نے جو قدم اٹھایا ‘وہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا جوا تھا اور یہ ممکن تھا کہ کریمیا کی سرحدوں پر روسی فوج پہنچے سے پہلے نیٹو کی فوجیں پہنچ جاتیں تو صورتحال بہت خراب اور خطرناک ثابت ہو سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ روس نے اپنی بہترین فوجی اور سیاسی حکمت عملی سے اپنے پرانے جغرافیائی
حصے کریمیاکو ایک پرامن ریفرنڈم کے ذریعے روسی فیڈریشن میں شامل کرلیا ہے۔ دوسری طرف یورپی یونین اور امریکہ نے اس ریفرنڈم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ریفرنڈم روس کی توپوں اور ٹینکوں کے سائے میں ہوئے تھے؛ تاہم اب عالمی سطح پر یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ ایک بار پھر روس اور مغربی ممالک کے درمیان سرد جنگ کا آغا ز ہوچکا ہے جو آئندہ ان دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان تیسری عالمی جنگ کا سبب بھی بن سکتا ہے جو دنیا کو غیر معمولی تباہی سے دوچار کرسکتا ہے ۔
مغربی ممالک کی کریمیا کے سلسلے میں پسپائی سے پیوٹن کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ اس نے یوکرائن کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں اپنے حمایتیوں کی مدد سے یوکرائن کی مرکزی حکومت کے خلاف مظاہرے کروانے شروع کردیئے ہیں۔ ان احتجاجیوں نے یوکرائن کے مشرقی حصے کی بعض سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرلیا ہے جسے خالی کرانے کے سلسلے میں یوکرائن کی مرکزی حکومت نے انہیں کچھ دن کی مہلت دی ہے کہ وہ اپنا قبضہ ختم کردیںورنہ ان کے خلاف طاقت استعمال
کی جائے گی۔ یوکرائن کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں روسی خاصی بڑی تعداد میں رہتے ہیں لیکن انہیں اکثریت حاصل نہیں ہے، یہی روسی دوبارہ روس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن ان علاقوں کی اکثریت یوکرائن کے ساتھ رہنا چاہتی ہے؛ تاہم روسی صدر نے ان (مشرقی اور جنوبی)علاقوں میں ریفرنڈم کا مطالبہ کردیا ہے جسے یوکرائن کی مرکزی حکومت نے مسترد کردیا ہے۔ یورپی یونین بھی اس ریفرنڈم کے حق میں نہیں ہے، کیونکہ ان علاقوں میں وہ صورتحال نہیں ہے جو کریمیامیں تھی جہاں کی اسی فیصد آبادی روسی فیڈریشن کے ساتھ مل کر رہنا چاہتی تھی۔ واضح رہے کہ کریمیا کو 1954ء ، میں اس وقت کے وزیر اعظم آنجہانی خروشیف نے اپنے ایک حکم سے یوکرائن میں شامل کردیا تھا۔ تب سے کریمیا یوکرائن کا اٹوٹ انگ بنا ہوا تھا لیکن گزشتہ دنوں وہ دوبارہ ایک ریفرنڈم کے ذریعے روسی فیڈریشن کا حصہ بن گیا ہے؛ تاہم اگر یوکرائن کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں روس کی پیدا کی ہوئی احتجاجی تحریک زورپکڑتی ہے تو یورپی یونین اور امریکہ نیٹو کے ذریعے اپنی نئی حکمت تشکیل دیں گے۔ اس دفعہ وہ بڑی خاموشی سے یوکرائن کے مزید حصے بخرے ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکیں گے۔ دراصل اس وقت روسی صدر پیوٹن بھی وہی کھیل کھیل رہے ہیںجو چند ماہ قبل مغربی ممالک نے یوکرائن کے سابق صدر وکٹرکے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے کرا کر کھیلا تھا اور اسے یوکرائن سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وکٹر پر کرپشن کے بے پناہ الزامات تھے۔ اس وقت وہ روس میں پناہ گزیں ہیں جہاں سے بیٹھ کر وہ یوکرائن کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں احتجاجی تحریک میں ابھار پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چنانچہ یوکرائن کے حوالے سے روس اور مغربی ممالک کے درمیان جہاں سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے، وہیں اس بات کا خطرہ بھی محسوس کیا جارہا ہے (جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے) کہ کہیں تیسری عالمی جنگ شروع نہ ہوجائے کیونکہ صدر پیوٹن آہستہ آہستہ ان تمام علاقوں کو واپس روسی فیڈریشن میں لانے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں جوماضی میںسوویت یونین کا حصہ رہے تھے۔ یوکرائن بھی 1917ء کے بالشویک انقلاب سے قبل روس کا حصہ تھا، لیکن آنجہانی لینن نے اس کو ایک علیحدہ ملک کی حیثیت دے دی تھی۔
یوکرائن کے عوام اس وقت موجودہ حالت کے پیش نظر گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ ایک طرف ان کے ملک کے حصے بخرے ہوتے نظر آرہے ہیں تو دوسری طرف پیوٹن کے جارحانہ عزائم سے یہ معلوم ہورہا ہے کہ وہ یوکرائن کے مشرقی او ر مغربی حصوں کو روس فیڈریشن میں شامل کرنے کے سلسلے میں ایک اور جوا کھیلنے جارہے ہیں اور اس طرح وہ ایک بار پھر مغربی ممالک کی طاقت کو براہ راست چیلنج کررہے ہیں؛ تاہم میرا خیال ہے کہ اس دفعہ روسی صدر کی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہو سکے گی کیونکہ بعض اطلاعات سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ یورپ اور امریکہ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ یوکرائن کے مزید حصے بخرے برداشت نہیں کریں گے اور اگر صدر پیوٹن نے اپنی موجودہ جارحانہ پالیسیاں جاری رکھیں تو روس اور مغربی ممالک کے درمیان جنگ کے آثار واضح ہو جائیں گے۔
اس وقت عالمی امن کی تمام چابیاں روسی صدر پیوٹن کے پاس ہیں۔