کراچی کے سیاسی وسماجی حالات لاء اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال کے باعث تشویشناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ایک طرف فرقہ واریت پر مبنی قتل و غارت گری کو کوئی روکنے والا یا تدارک کرنے والا نظر نہیں آرہا ہے تو دوسری طر ف سیاسی کارکنوں کا اغوا اور قتل روز مرہ کا معمول بنتا جارہا ہے۔سندھ کی صوبائی حکومت ان حالات کو سنبھالنے میں بری طرح ناکام نظر آرہی ہے‘ حالانکہ آئینِ پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومت کو بہت زیادہ اختیارات مل چکے ہیں ، لیکن ان اختیارات کے ہوتے ہوئے بھی حالات میں تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ ٹارگٹڈ آپریشن اب بھی جاری ہے اوروزیر اعظم پاکستان سمیت سندھ کی صوبائی حکومت بھی اسے جاری رکھنا چاہتی ہے؛ تاہم حال ہی میں ایم کیو ایم نے ٹارگٹڈ آپریشن کے خلاف کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہیں صوبائی حکومت کے علاوہ قانون نافذ کرنے والوں سے بھی شکایات ہیں کہ ایم کیو ایم اور ان کے کارکنوں کو بلا وجہ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایم کیوایم کے مرکزی رہنما فاروق ستار نے گزشتہ دنوں کراچی میں پریس کلب کے سامنے ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب تک متحدہ کے تین سو سیاسی کارکنوں کو قتل کیا جاچکا ہے جبکہ 45کارکن اغوا کر لیے گئے ہیں‘ جن کا تا حال کوئی پتہ نہیں،(پولیس کے ایک ذمہ دار افسر سے میں نے اس سلسلے میں پوچھا کہ حقیقت کیا ہے تو اس نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا)۔ فاروق ستار نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا ہے کہ سادہ لباس اور کالے شیشوں والی گاڑیوں میں کچھ لوگ آتے ہیںاورایم کیو ایم کے کارکنوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں‘ بعد میں ان کی لاشیں کراچی کے مختلف علاقوں سے ملتی ہیں۔ تقریر کے دوران انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں بھی اجازت دی جائے کہ وہ بھی ان نادیدہ قوتوں کے خلاف ایسا ہی ردعمل دکھائیں۔
اس سے قبل جمعرات کے روز ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی میں اس مسئلہ پر تحریک التوا پیش کرنے کی کوشش کی تاکہ ارکان اسمبلی کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کیا جاسکے لیکن اس تحریک التوا پہ بحث کی اجازت نہیں دی گئی جس پر سندھ اسمبلی میں خاصا ہنگامہ ہوا اور پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف زبردست نعرے بازی بھی کی گئی۔ بعد میں ان کے ایک رہنما جناب خواجہ اظہار الحسن نے سندھ اسمبلی کے باہرمیڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم ٹارگٹڈ آپریشن کے خلاف نہیں ہیں ، ہم نے اس کی حمایت کی ہے، لیکن ہمارا اعتراض یہ ہے کہ اس آپریشن کی آڑ میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کو اغوا کر کے بہیمانہ انداز میں ماورائے عدالت قتل کیا جارہا ہے جس کی روک تھام کرنے والا کوئی نہیں ہے۔سندھ حکومت کے سربراہ جناب قائم علی شاہ ہیں اور اس ٹارگٹڈ آپریشن
کے نگران بھی ہیں، لیکن وہ بھی ایم کیو ایم کے تحفظات کو دور کرتے نظر نہیں آرہے اور نہ ہی اس سنگین صورتحال کے ازالے کے سلسلے میں ایم کیو ایم کو اعتماد میں لینے کی کوشش کررہے ہیں۔
چنانچہ کراچی کی اس گمبھیر صورتحال کو سنبھالنے کے سلسلے میں اب وفاقی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، کیونکہ اگرحالات میں بہتری لانے کے سلسلے میں معنی خیز کوششیں نہیں کی گئیں اور ایم کیو ایم کی شکایات اور اعتراضات کو دور کرنے کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہیں کیا گیا تو اس شہر میں خدانخواستہ خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں جس کے اثرات پورے ملک پر پڑیں گے۔ جیسا کہ میں نے اوپر کہیں لکھا ہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت نااہل افراد پر مشتمل ہے جو اپنے بیانات سے کراچی کو مزید خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں حالانکہ ماضی قریب میں پی پی پی اور ایم کیو ایم ایک دوسرے کے حلیف رہے ہیں تو پھر یہ دوریاں کیوں؟ نیز ایم کیو ایم اس ٹارگٹڈ آپریشن کی مزاحمت نہیں کررہی بلکہ ان کا پر زور مطالبہ ہے کہ ان کے کارکنوں کا قتل عام روکا جائے اورانہیں اطمینان دلایا جائے کہ ٹارگٹڈ آپریشن بلا امتیاز کیا جا رہا ہے اور یہ صرف سماج دشمن عناصر کے خلاف ہو رہا ہے نہ کہ کسی مخصوص سیاسی پارٹی کے خلاف۔ وزیراعظم‘ جنہوں نے سندھ کی صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشاورت سے یہ آپریشن شروع کرایا ہے‘ وہی ایم کیو ایم کی شکایتوں اور اعتراضات کا ازالہ کرسکتے ہیں اور کراچی کی ماضی کی رونقوں کو بحال کرنے میں اپنا آئینی کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ یہ ان کی سیاسی و آئینی ذمہ داری بھی ہے۔
دوسری طرف کراچی میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اسکول اور کالجوں کے بچوں کو اغوا کرکے ان کے والدین سے تاوان کی صورت میں بھاری رقوم وصول کی جارہی ہیں۔شنید ہے کہ ان وارداتوں کے پیچھے پولیس کے اندر موجود کالی بھیڑ وں کے علاوہ سندھ کے با اثر افراد بھی ہیں۔ ایک اور المناک پہلو یہ بھی ہے کہ کراچی اور حیدرآباد میں بھی بھتہ خوری کی وارداتوں میں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے جس نے کراچی والوں کی (جس میں ہر قومیت کے لوگ شامل ہیں) زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں ابھی تک نہ تو مقامی سرمایہ دار سرمایہ لگارہا ہے اور نہ ہی بیرونی ممالک سے سرمایہ کراچی آرہا ہے۔کراچی اسٹاک ایکسچینج میں جو ابھار آرہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرونی ممالک سے کچھ سٹے باز شیئرز خرید رہے ہیں۔ شیئرز کی خریداری کا پاکستان کی معیشت سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔معیشت صنعت، زراعت، تجارت اور سروس انڈسٹری کی ترقی سے فروغ پاتی ہے لیکن بسااوقات اسٹاک ایکسچینج میں ایسی مندی بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ اربوں روپے کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں کو نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ چند افراد اس سے مستفید بھی ہوتے ہیں۔
کراچی کی صورتحال کو جنگی بنیادوں پر سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ اگر میاں صاحب خود اس میں دلچسپی لیں گے تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں، ورنہ صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم سندھ کی مقبول سیاسی جماعت ہے اور اسے عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ ان کے کارکنوں کو قتل کرنا اور انہیں لاپتہ کرنا جمہوری کلچر اور اخلاقی روایات کے منافی ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کریں اور ملک کے اس تجارتی مرکز کو بچانے میں اپنا مدبرانہ کردار ادا کریں۔ بقول فیض احمد فیضؔ ؎
گھر رہیے تو ویرانی دل کھانے کو آوے
راہ چلئے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے