نریندر مودی اور جنوبی ایشیا کا امن

گزشتہ برسوں میں، میرے علاوہ ''دنیا‘‘ اخبار میں کئی لکھنے والوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر بی جے پی کا مرکزی رہنما اور آئندہ بھارت کی وزارت عظمیٰ کا امیدوار نریندر مودی عام انتخابات میں کامیاب ہو کر یہ عہدہ سنبھال لیتا ہے تو وہ بہانے سے پاکستان کے خلاف جنگ کے سلسلے میں عملی قدم اٹھا سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے انتخابی جلسوں میں مسلسل پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان جو تھوڑے بہت اچھے تعلقات پائے جاتے ہیں، ایک حکمت عملی کے تحت انہیں خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی تقریروں کی وجہ سے جنوبی ایشیا کی سیاسی فضا میں تنائو پیدا ہو گیا ہے۔ اسی قسم کے خدشات کا اظہار وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر نریندر مودی بھارت کا وزیر اعظم بن گیا تو جنوبی ایشیا عدم استحکام سے دوچار ہو جائے گا‘ بھارت کے متوقع وزیر اعظم کا پاکستان پر حملے سے متعلق بیان غیر ذمہ دارانہ ہے۔ وزیر داخلہ کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت بھارتی انتخابات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے بلکہ نریندر مودی کے انتخابی جلسوں میں کی جانے والی تقریروں کا بھی تجزیہ کیا جا رہا ہے کیونکہ جو الفاظ نریندر مودی کی زبان سے نکل رہے ہیں، وہ محض الفاظ نہیں بلکہ ایک گہری سوچ اور سازشی ذہنیت کے مظہر ہیں۔ بھارت کا وزیر اعظم بننے سے پہلے وہ بھارت کے انتہا پسند ہندوئوں کو ذہنی طور پر تیار کر رہے ہیں کہ وہ اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران پاکستان کے خلاف جنگ کے سلسلے میں کوئی قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے عوام اور بھارت کے سیکولر سوچ رکھنے والے لوگ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ نریندر مودی جب سات سال کا تھا تو اس کے والدین نے اس کو آر ایس ایس کا رکن بنا دیا تھا۔ وہ اس کچی عمر میں ہی مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندانہ سوچ کا مالک بن گیا تھا۔ اس کا باپ گجرات کے شہر احمد آباد میں بس اسٹاپ کے قریب چائے کا ٹھیلا چلاتا تھا جبکہ مودی آواز لگا کر بس کے مسافروں کے لیے چائے بیچا کرتا تھا۔ اس کا بچپن انتہائی ناخوشگوار گزرا، لیکن چونکہ ذہین تھا‘ اس لیے آر ایس ایس نے اس کی تعلیم کا بندوبست کر رکھا تھا۔ انتہا پسندانہ سوچ احترام آدمیت اور انسانیت کی قاتل ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے 2002ء میں گجرات میں مسلم کش فسادات کی بہ حیثیت وزیر اعلیٰ سرپرستی کی تھی۔ گجرات پولیس کے اہل کاروں کو باقاعدہ ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ مسلمانوں کے محلوں پر آر ایس ایس کے کارکنوں کو حملے کرنے سے نہ روکا جائے؛ چنانچہ ان مسلم کش فسادات میں ڈھائی تین ہزار مسلمان عورتوں، مردوں، بوڑھوں اور بچوں کو بڑی بے دردی اور بے رحمی سے ذبح کر دیا گیا تھا۔ گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے علاوہ نریندر مودی نے ایل کے ایڈوانی کے ساتھ مل کر انتہا پسند جنونیوںکو لے کر اجودھیا میں بابری مسجد کو شہید کرنے کے لئے منظم حملہ کیا تھا جبکہ بھارت کی سپریم کورٹ کے مطابق اس وقت تک یہ فیصلہ نہیں کیا گیا تھا کہ بابری مسجد رام کی پیدائش کی جگہ تعمیر کی گئی تھی، (اب تک یہ فیصلہ نہیں ہوا ہے) بابری مسجد کی شہادت کے دوران تقریباً ڈھائی ہزار مسلمانوں کو بڑی بربریت کے ساتھ قتل کیا گیا اور ان کی املاک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ نرنیدر مودی کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، اس کے دل میں بھارتی مسلمانوں کے علاوہ پاکستان کے لیے بھی کوئی نرم گوشہ نہیں‘ بلکہ اگر وہ بھارت کا وزیر اعظم بن گیا تو ایک نہ ایک دن وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سیاسی حالات بگاڑ کر جنگی جنون پیدا کرکے پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ مزید برآں مقبوضہ کشمیر سے متعلق اس کے خیالات بھی انتہا پسندی پر مبنی ہیں۔ اس نے اپنے انتہا پسند کارکنوں کے ساتھ ایک انتخابی جلسے میں یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کا Special Status ختم کر دے گا، نیز وہ وادی کشمیر میں مزید بھارتی فوج بھیج کر جاری آزادی کی تحریک کو بزور طاقت و تشدد ختم کر دے گا۔ اس کے جواب میں مقبوضہ کشمیر کی نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کانگریس پارٹی کی جانب سے نکالی گئی ریلی میں خطاب کے دوران کہا ہے کہ اگر نریندر مودی بھارت کا وزیر اعظم بن گیا‘ تو مقبوضہ کشمیر بھارت سے علیحدہ ہو جائے گا۔ فاروق عبداللہ کی تقریر سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وادیِ کشمیر میں نریندر مودی کے خلاف کتنا غم و غصہ پایا جاتا ہے اور وہ کسی بھی صورت میں اس انتہا پسند ہندو کو بھارت کا وزیر اعظم بنتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ 
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے نریندر مودی سے متعلق جو بیان دیا‘ وہ نہ صرف حقیقت پر مبنی ہے بلکہ پاکستان کے عوام‘ بالخصوص دانشوروں اور اہل قلم کی بھی یہی سوچ ہے کہ بی جے پی کا نامزد وزیر اعظم اگر انتخاب جیت گیا تو جنوبی ایشیا میں امن کے حوالے سے کتنی تبدیلی آ سکتی ہے۔ نریندر مودی کے انتہا پسند بیانات اور خیالات نے نہ صرف پاکستانیوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے بلکہ خود بھارت کے سیکولر خیالات کے حامل افراد بھی متفکر ہیں۔ ان بھارتیوں کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ اگر مودی ان انتہا پسند خیالات کے ساتھ بھارت کا وزیر اعظم بن گیا تو بھارت کے سیکولر ازم کا کیا بنے گا؟ نیز بھارت کی اقلیتوں کا کیا ہو گا؟ خصوصیت کے ساتھ بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی معاشی تہذیبی و مذہبی تحفظ کی کون ذمہ داری لے گا؟ پاکستان کی موجودہ حکومت بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان کے کسی سیاست دان نے بھارت کے خلاف گفتگو نہیں کی بلکہ میاں نواز شریف نے اپنی تقریروں میں اس بات کا کھلا اشارہ دیا تھا کہ وہ بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس خطے میں امن کے قیام کی صورت میں غربت، افلاس اور بے روزگاری کے خاتمے پر سنجیدگی سے توجہ دی جا سکے۔ یہی خواب جنوبی ایشیا کے مفلوک الحال عوام بھی دیکھ رہے ہیں، جن کے مصائب میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں