خود مختار الیکشن کمیشن کے قیام کا مطالبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑتا جارہا ہے، کیونکہ جب تک آزاد ، خودمختار اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن وجود میں نہیں آتا‘ اشرافیہ بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کے ذریعہ انتخابات ''جیت‘‘ کر پارلیمنٹ میں موجود رہے گی۔ تحریک انصاف کے قائد جناب عمران خان ایسے ہی الیکشن کمیشن کے قیام کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں، بروز اتوار گیارہ مئی کو انہوں نے اسلام آباد میں ڈی چوک پر نوجوانوں سے خطاب کے دوران یہی کہا ہے کہ اس ملک میں اشرافیہ کی عام انتخابات میں دھاندلیوں کو روکنے کے لئے وہ سب متحد ہوکر آزاد الیکشن کمیشن کے قیام کے لئے حکومت پر دبائو ڈالیں تاکہ آئندہ عام انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلی نہ ہونے پائے اور حقیقی نمائندے پارلیمنٹ میں پہنچ کر ملک کی خدمت کر سکیں۔ عمران خان کے اس موقف کی پاکستانیوں کی اکثریت تائید وحمایت کررہی ہے اور اس لئے بھی کر رہی ہے کہ موجودہ سیاسی ومعاشی نظام (جسے بچانے کے لئے اشرافیہ سرتوڑ کوشش کررہی ہے) ہر لحاظ سے ناکام ہوگیا ہے، یہ سڑا ہوا نظام ہے جس کی کوکھ سے سوائے غلاظت کے اور کچھ نہیں نکل رہا۔ اس نظام کے ذریعہ اشرافیہ کے لوگ اپنی ناجائز دولت، ثروت، اور طاقت کے ذریعہ الیکشن میں دھاندلیاں کراکر اقتدار پر فائز ہوتے اور لوٹ مار کر کے اپنے وسائل میں بے پناہ اضافہ بھی کرتے ہیں؛ جبکہ دوسری طرف عوام ہیں‘ جنہیں یہ عام انتخابات کے بعد گھاس بھی نہیں ڈالتے۔ اس طرح خلق خدا محرومیوں اور مجبوریوں کے اندھیروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ یہ پاکستان کی سیاست کا موجودہ منظر نامہ ہے، جو کہ گزشتہ 65سالوں سے جاری وساری ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کمزور ہورہا ہے۔ عوام اس استحصالی فرسودہ نظام کے تحت غریب سے غریب تر ہورہے ہیں۔ دوسری طرف 4%اشرافیہ امیرسے امیر تر ہوکر ملکی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کررہی ہے، لیکن اب عمران خان اور طاہر القادری کی صورت میں موجودہ استحصالی نظام کے خلاف بیداری کی ایک نئی لہر اٹھ رہی ہے جو آئندہ چند مہینوں میں اور زیادہ طاقتور ثابت ہوگی کیونکہ عوام کو اب یہ احساس وادراک ہو چلا ہے کہ ان کی بد حالی ، غربت ،افلاس اور ناداری کی جڑیں موجودہ استحصالی نظام میں پیوستہ ہیں جسے بچانے کے لئے اشرافیہ کبھی ''جمہوریت‘‘ کے ختم ہونے سے ڈراتی ہے اور کبھی مارشل لا کے آجانے کا خوف دلاتی ہے؛ حالانکہ حقیقت میں یہ لوگ اپنے مفادات کو بچانے کے لئے نہ صرف عوام کو خوف زدہ کررہے ہیں‘ بلکہ ملک کے تمام تر مادی وسائل کو زیر استعمال بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کی دفعات 62-63-30-2Aکا‘ اگر خلوص نیت سے الیکشن لڑنے والوں پر اطلاق کیا جائے تو پاکستان حقیقی جمہوریت کی طرف گامزن ہوسکتا ہے اور اقتدار پر قابض اشرافیہ کی گرفت بھی ڈھیلی پڑ سکتی ہے؛ اسی لئے عمران خان، طاہر القادری اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق مدلل انداز میں‘ آزاد ، خودمختار اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے قیام کا مطالبہ کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر دیگر سیاسی جماعتیں بھی اسی طرح کا مطالبہ کررہی ہیں۔ لیکن دیگر جماعتیں‘ عمران خان اور طاہرالقادری کی طرح زور دے کر الیکشن کمیشن میں اصلاحات کا مطالبہ کرنے سے گریز کررہی ہیں۔انتخابی نظام میں اصلاحات کے حوالے سے بعض پارٹیوں کی جانب سے گرمجوشی کا مظاہرہ نہ ہونے کی صورت میں حکومت اس سے پورا پورا فائدہ اٹھارہی ہے۔ اس طرح بلاواسطہ سٹیٹس کو کو تقویت مل رہی ہے، لیکن حکومت کو جلدیا بہ دیر انتخابی نظام میں اصلاحات ضرور کرنا پڑیں گی۔ عوام ایسی جمہوریت سے نالاں اور ناراض نظر آتے ہیں جو ان کی معاشی وسماجی زندگی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لا سکی۔ نیز امن و امان کی خراب وخستہ صورتحال عوام کی معاشی سرگرمیوں کو شدید طورپر متاثر کررہی ہے۔ اگر پاکستان میں 2013ء کے بعد حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع ہوتا (جس کی عوام کو امید تھی) تو عوام اتنی بڑی تعداد میں عمران خان اور طاہرالقادری کے جلسوں میں شرکت نہ کرتے۔
آن لائن سروے کے مطابق‘ عمران خان 2013ء کے عام انتخابات جیت چکے تھے۔ پاکستان میں الیکشن کی مانیٹرنگ کرنے والے عالمی مبصروں نے بھی ان جائزوں کی تائید کی تھی۔ 2013ء کے عام انتخابات سے قبل امریکی سی آئی اے کے ایک سروے کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ مقبول اور مضبوط پارٹی تحریک انصاف تھی۔ جسے پاکستان کے تمام طبقوں کی حمایت حاصل تھی۔ تحریک انصاف کی حمایت کرنے والوں میں سب سے زیادہ نوجوان ،مرد، خواتین ، مزدور اور کسان شامل تھے 59%))؛جبکہ دوسرے نمبر پر میاں نواز شریف تھے جنہیں پنجاب کی بیوروکریسی اورصوبائی ا لیکشن کمیشن کی مبینہ حمایت حاصل تھی۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس بھی نواز شریف کو اقتدار میںلانے کے سلسلے میں الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہوئے تھے۔ انہوں نے کھل کر الیکشن کمیشن کے بعض احکامات میں مداخلت کی تھی‘ جبکہ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم اس سلسلے میں کچھ نہ کر سکے،اور خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے، ان حقائق کی رو سے عمران خان کا یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتا ہے، کہ ان کا عوامی منڈیٹ چرایا گیا ہے اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کو ہرایا گیا ہے۔ الیکشن میں دھاندلیاں اس لئے ممکن ہوسکیں کہ پاکستان کا موجودہ الیکشن کمیشن کمزور اور ناقص بنیادوں پر کھڑا ہے‘ جس میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے‘ اگر اصلاح نہ کی گئی تو سیاست اور معاشرت میں کوئی نمایا ں تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئے گی اور استحصالی طبقے دولت اور طاقت کے ذریعہ اسمبلیوں میں بیٹھے رہیں گے۔ عوام کے لئے کچھ کرنا تو درکنار، ان کے بارے میں وہ کچھ کرنے کا سوچتے بھی نہیں۔ یہی عناصر ملکی وسائل کو اپنے دوستوں اور اپنے رشتہ داروں کے تصرف میںلاتے ہیں اور عوام اپنی بے بسی پر رو دھو کر محرومی ومایوسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
عمران خان اور طاہرالقادری نے ایک بار پھر بڑے حوصلے کے ساتھ عوام کو آواز دی ہے۔ انہیں احساس دلایا ہے کہ اگر آئندہ انتخابات‘ آزاد الیکشن کمیشن کے تحت آئینی تقاضوں کے مطابق نہ ہوئے تو استحصالی قوتوں کا راج کبھی ختم نہیں ہوگا، اور یہ عناصر بڑی چالاکی اور عیاری سے عوام کو نام نہاد جمہوریت کے نعروں سے گمراہ کرکے ان سے چاول کی ایک پلیٹ اور چند سوروپوں میں ووٹ خرید کر ایوانوں میں بیٹھ کر ملک کے وسائل کو لوٹتے رہیں گے۔ دراصل پاکستان کے استحکام کے وسیع تر پس منظر میں اگراچھے اور ایماندار افراد آئین کی شق 62-63کی رو سے ایوانوں میں پہنچ جائیں‘ تب ہی تبدیلی ممکن ہوسکے گی۔ موجودہ صورتحال عوام اور باشعور طبقوں کو نا قابل قبول نہیں۔