ایک زمانہ تھا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ڈپلومیسی کا آغاز ہوا تھا، اس کا سہرا مرحوم ضیاالحق کے سر جاتا ہے، جنہوں نے دونوں ملکوں کو قریب لانے اور جنگ کے بادلوں کو جنوبی ایشیا کے افق سے ہٹانے کے لئے کرکٹ کے مقبول کھیل کا سہارا لیاتھا۔ مرحوم ضیاالحق بڑی حد تک اس کرکٹ ڈپلومیسی کی وجہ سے کامیاب رہے تھے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت کسی قسم کا فوجی تصادم نہیں ہوا تھا، لیکن دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف دھمکیوں کا سلسلہ یونہی جاری رہا اور کشمیرکا مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود رہا۔ جب سے نریندرمودی بھارت کے وزیراعظم بنے ہیں، ان کے دل میں پاکستان کے لئے نرم گوشہ پیداکرنے کے لئے میاں نواز شریف نے وکھری ٹائپ کی ڈپلومیسی کا آغاز کیا ہے، یعنی ساڑھی ڈپلومیسی کا ۔یہ تو قارئین اچھی طرح جانتے ہیں کہ ساڑھی بھارتی خواتین کا مقبول ترین لباس ہے۔ اس لباس میں عورتیں زیادہ پُر کشش اور خوبصورت لگتی ہیں۔ کسی زمانے میں پاکستان میںبھی عورتیں ساڑھی پہناکرتی تھیں، لیکن جیسے جیسے پاکستان میں قدامت پرستی کا رجحان تشدد کی صورت میں نمایاں ہونے لگا تو پاکستانی خواتین نے آہستہ آہستہ اس''بے حجاب‘‘ لباس کو ترک کرکے جمپر اور شلوار کو اپنا لیا۔ جس میں عورت سراپا پیکر تقدس نظر آتی ہے ۔بہر حال بات ہورہی تھی ساڑھی اور شال ڈپلومیسی کی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے نریندرمودی کی والدہ کے لئے خوبصورت سفید ساڑھی کا تحفہ ارسال کیا، جسے مودی صاحب نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیا۔معلوم ہوا ہے کہ ابھی تک یہ ساڑھی گجرات نہیں بھیجی جا سکی۔
مودی صاحب اس ساڑھی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے ہیں اور میاں صاحب کے ذوق سلیم کی تعریف میں رطب اللسان بھی ہیں،لگتا ہے میاں صاحب چُوک گئے، اُنہیں اس سفید ساڑھی کے ساتھ ایک اور خوبصورت راجستھانی ساڑھی نریندرمودی کی دھرم پتنی کے لئے بھیجنی چاہیے تھی،جن سے آج کل مودی کے تعلقات ٹھیک ہوگئے ہیں، لیکن ابھی تک اُنہوں نے اپنی دھرم پتنی کو دہلی میں وزیراعظم ہائوس نہیں بلا یا ۔ سنا ہے کہ ابھی دونوں کا ایک دوسرے سے دل صاف نہیں ہوا؛ بلکہ رنجش کی چنگاریاں ہنوزسلگ رہی ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے (جیسا کہ مودی کے دوست بتاتے ہیں) کہ ان کی بیوی کا رویہ مودی صاحب کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ وہ شادی کے ابتدائی دنوں میں جبکہ جوبن پر تھی بہار، انہیں چائے بیچنے والا بچہ کہہ کر پکارتی تھیں۔ مودی صاحب کو یہ طعنہ انتہائی ناگوار گزرتا تھا ، چنانچہ طعنہ زنی بعد میں شمشیر زنی میں تبدیل ہوگئی ۔ دونوں علیحدہ ہوگئے، لیکن طلاق نہیں دی۔ ان کے دوست بتاتے ہیں کہ جب کبھی سیاست کی پُرخاروادی میں اُن پر غیر معمولی دبائو بڑھتا تھا اور دوست دشمن بن جاتے، تو وہ چوری چھپے پتنی کے پاس جاکر غم غلط کرتے تھے۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ جاری رہا ؛تاہم ایک دن ایک صحافی نے انہیں غیر سرکاری انداز یعنی (بغیر پروٹوکول کے)اپنی دھرم پتنی کے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تو وہ خاصے گھبرائے اور اس صحافی سے کہا کہ وہ اس خبر کو
نہ جاری کرے۔ اسے اس کے صلے میں اچھا خاصہ معاوضہ دیا جائے گا، اس وقت تو وہ صحافی تیار ہوگیا، لیکن دوسرے دن بھارت کے سارے اخبارات میں مودی کی دھرم پتنی کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ مودی صاحب نے دل میں مذکورہ صحافی کو برا بھلا کہا اور دوسرے دن ہی ملاقاتوں کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ غیر شادی شدہ ہیں۔ تردید کے بعد ان کی دھرم پتنی نے عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا اور مودی صاحب کو فون پر کہا کہ تمہاری وزارت اعلیٰ ایک طرف، لیکن میں اپنا حق ضرور تسلیم کرا کر رہوں گی۔ اس ٹیلی فون نے کچھ عرصہ کے لئے ان کی گجراتی وزارت اعلیٰ کو ڈگمگا دیا۔ انہوں نے نجومیوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے انہیں جنترمنتر پڑھنے کے بعد رائے دی کہ وہ اپنے رشتہ ازدواج کا احترام کرتے ہوئے اخبارات میں بیان دیں کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ گھریلو ناچاقی کی بنا پر پتنی سے دوری ہو گئی تھی، لیکن اب یہ دوری مصالحت میں بدل گئی ہے۔ اس بیان کے بعد ان کی دھرم پتنی نے مودی صاحب کی فراخ دلی کا شکریہ ادا کیا اور انہیں پریمی انداز میں یقین دلایا کہ وہ ان کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گی، اور انہیں کامیاب کرا کر بھارت کا وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہیں۔
اس پس منظر میں میاں صاحب کو مودی صاحب کی دھرم پتنی کے لئے فوراً ہی رنگ برنگی راجستھانی ساڑھی کا انتظام کرنا چاہیے اور عین ممکن ہے کہ ساڑھی ڈپلومیسی کے ذریعہ دو روٹھے ہوئے دل یکجا ہو کر پریم کے گیت گانے لگیں اور مودی کے دل میں پاکستان کے لئے پریم کا نگر آباد ہو جائے۔ اس طرح مودی صاحب کو بھی نواز شریف کی اہلیہ کے لئے ایک تحفہ بھیجنا چاہیے۔ مسز کلثوم نے نوازشریف میں ادبی و سیاسی ذوق پیدا کیا ہے؛ ورنہ انہیں پھجّے کے پایوں کے علاوہ کسی اور طرف رغبت نہیں تھی ۔مودی صاحب، مسز کلثوم نواز کو بھارت کی بنی ہوئی جیولری کا سیٹ بھیجیں۔ بھارت کی جیولری دنیا بھر میں مشہور ہے۔ جب مسز کلثوم نواز اسے پہنیں گی تو سونے کی چمک سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی اٹوٹ ہو سکتی ہے۔ ویسے یہ مودی صاحب پر منحصر ہے کہ وہ وزیراعظم پاکستان کی اہلیہ کے لئے کس طرح کا تحفہ بھیجیں گے؟ہم صرف مشورہ دے سکتے ہیں۔
مودی صاحب بھی تحائف دینے میں کسی سے کم نہیں۔ انہوں نے فوراً میاں صاحب کی والدہ محترمہ کے لئے ایک عدد شال تحفتاً بھیج دی؛ حالانکہ مودی صاحب کو اس گرم موسم میں شال کے بجائے کوئی ہلکی شلوار قمیض کا تحفہ بھیجنا چاہیے تھا، جو گرمی کی حدت کو کم کر سکتا؛ تاہم اب میاں صاحب کی والدہ صاحبہ شال اوڑھنے کے لئے سردیوں کے موسم کا انتظار کریں گی، بہرحال تحفہ تحفہ ہوتا ہے، تحفہ دلوں میں دوستی اور محبت پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ضیاالحق مرحوم کرکٹ ڈپلومیسی کے ساتھ ساتھ آموں کی ڈپلومیسی کو بھی استعمال میں لاتے رہے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے مسز اندرا گاندھی کو پاکستان کے بہترین آموں کا تحفہ بھیجا تو جواباً مسز گاندھی نے بھی بھارت کے آموں کا تحفہ بھیج دیا۔ اس وقت ان دونوں ملکوں میں آموں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ کوئل کی کوک نے محبتوں کی پرانی یادوں کو تازہ کر رکھا ہے۔ کوئل کی کوک میں ایسا درد جیسے کہ کسی محبوبہ کی جدائی کے گیتوں میں ہوتا ہے۔ اس لئے میاں صاحب کو آم ڈپلومیسی کو دوبارہ زندہ کرتے ہوئے مودی صاحب کو پاکستان کے بہترین آموں کا تحفہ بھی بھیجنا چاہیے۔ آم پھلوں کا بادشاہ ہے۔ اس بادشاہ کی خصوصیت ایک ہی ہوتی ہے یعنی مٹھاس پیدا کر کے تلخیوں کو دور کرنا! جب تلخیاں مٹ جاتی ہیں تو محبتوں کی بہار رنگ جماتی ہے۔ آج کل دونوں ملکوں میں آموں کی بہار کا موسم کوئل کی کوک کے ساتھ محبتوں کے نغمے الاپ رہا ہے۔ زندگی محبتوں کے ساتھ امن کی آغوش میں فطرت کا سب سے حسین ترین تحفہ ہے۔ اس تحفہ کو زوال نہیں آنا چاہیے اور تحفوں کا تبادلہ جاری رہنا چاہیے۔ بقول احمد فرا ز ؎
ہر نیا عشق نیا ذائقہ رکھتا ہے فراز
آج کل پھر تری غزلوں کی ادا اور لگی