رات کے گیارہ بج رہے تھے ، اتوار کی شب آہستہ آہستہ ختم ہورہی تھی‘ میں نے چند ساعت قبل سی ویو سے فیملی کے ساتھ گھر واپس آکر ابھی ٹی وی کھولا ہی تھا کہ یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ دہشت گردوں نے کراچی ائیرپورٹ پر حملہ کردیا ہے‘ ٹی وی کے رپورٹرز فوراً ہی ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے اور وہاں سے لائیو کوریج شروع کردی۔ ابتدا میں خبریں نا مکمل تھیں لیکن یہ بتایا جارہا تھا کہ دہشت گرد ائیر پورٹ کے اندر اصفہانی ہینگرز کے قریب پہنچ کر زبردست فائرنگ کرتے ہوئے جناح ٹرمینل کی طرف بڑھنا چاہ رہے ہیں۔ لیکن اے ایس ایف کے جوانوں نے بڑی بہادری اور غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں آگے کی طرف بڑھنے سے روک دیا‘ جہاں کئی مسافر جہازپرواز کے لئے تیار کھڑے تھے۔ ان دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ اور بم دھماکے کرکے اے ایس ایف کے تقریباً دس جوانوں کو شہید کردیا ۔ اس ہی اثنا میں فوج کے کمانڈوز بھی وہاں پہنچ گئے جنہوں نے اے ایس ایف کے جوانوں کے ساتھ مل کر ان دہشت گردوں کو چیلنج کیا۔ فوج کے کمانڈوز نے انہیںہر طرف سے گھیرے میں لے کر وہیں نیست ونابود کردیا۔ دوتین دہشت گردوں نے خود کو بموں سے اڑا لیا، جبکہ باقیوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر جہنم واصل کردیا گیا۔ ان دہشت گردوں کی کل تعداددس کے قریب تھی جو بہت زیادہ تر بیت یافتہ معلوم ہوتے تھے۔ ان کے پاس سے جو ہتھیار ملے ان پر ہندوستان کا نام کندہ تھا‘ اس کے علاوہ ان دہشت گردوں کے پاس خون جمانے کے سلسلے میں جو انجکشن ملے ہیں وہ بھی بھارتی ساخت کے تھے جنہیں بھارتی فوجی اکثر استعمال کرتے ہیں۔ اگر اے ایس ایف ،فوج کے کمانڈوز، رینجرز اور پولیس ان دہشت گردوں کو نہ روکتی تو وہ یقینا جناح ٹرمینل تک پہنچ کر مسافر طیاروں کو غیر معمولی نقصان پہنچا سکتے تھے اور ممکن تھا کہ کسی مسافر طیارے کو اغوا بھی کرلیتے۔ دہشت گردوں سے مقابلے میںکل 27افراد شہید ہوئے جن میں زیادہ تر تعداد اے ایس ایف ، رینجرز اور ملازمین کی ہے‘ ان میں 7افراد کولڈ اسٹوریج میں دم گھٹنے سے مرگئے۔
تاہم اب اس بات کی تحقیقات ہورہی ہیں کہ کس طرح کچھ دہشت گرد پرانے ایئر پورٹ سے داخل ہوئے جبکہ دیگر پہلوان گوٹھ کی طرف سے حفاظتی جالیاں کاٹ کر اندر آئے؟ اصل حقائق رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد ہی معلوم ہو سکیں گے۔ دہشت گردوں کا حملہ اتنا اچانک اور شدید تھا کہ کسی کو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے، لیکن کچھ ہی دیر کے بعد اے ایس ایف کے جوانوں نے پوزیشن سنبھال کر ان دہشت گردوں کو چیلنج کرنا شروع کیا اور اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے ان دہشت گردوں کے ناپاک عزائم خاک میں ملادئیے۔ اگر اے ایس ایف کے ساتھ فوج کے کمانڈوز فوری مدد کے لئے نہ آتے تو دہشت گرد مزید تباہی پھیلاتے ہوئے جناح ٹرمینل پر پہنچ کر مسافر بردار طیاروں کو تباہ کرنے میں ذرا برابر بھی دیر نہ لگاتے۔ کراچی ایئر پورٹ پر دہشت گردوں کے اس اچانک حملے کے سلسلے میں میڈیا کے بعض ارکان اسے انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دے رہے تھے حالانکہ حقیقت ایسی نہیں ہے۔ پاکستان کے حساس خفیہ اداروں نے کچھ عرصہ قبل سندھ حکومت کو اس متوقع حملے سے متعلق تحریری طورپر آگاہ کردیا تھا۔ سندھ حکومت نے اس سلسلے میں کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اسے چاہئے تھا کہ وہ سندھ کی وزارت داخلہ کے توسط سے کراچی ایئر پورٹ کی حفاظت کے لئے فوری طورپرمزید اقدامات کرتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ ویسے بھی سندھ کی حکومت ذمہ د ار دکھائی نہیں دیتی۔ اس کا وزیراعلیٰ وزارت اعلیٰ کے منصب پرسابق صدر آصف علی زرداری کی مہربانی سے فائز ہے۔ صوبہ سندھ کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ یہاں حکومت کی کوئی رٹ نظر نہیں آتی نہ ہی کوئی ترقیاتی کام ہورہے ہیں۔ کراچی شہر دہشت گردوں، بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں میں یر غمال بن چکا ہے۔ راستے غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔ جبکہ نچلی سطح پر پولیس سماج دشمن عناصر کے ساتھ مل چکی ہے اور لوٹ کھسوٹ کی وارداتوں میںملوث پائی جاتی ہے۔ اگر سندھ کی حکومت حساس اداروں کی اطلاع کی روشنی میں فعال ہوجاتی تو بہ آسانی کراچی ایئر پورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کو روکا جا سکتا تھا اور اطلاع کی روشنی میں ان کو گرفتار بھی کیا جاسکتا تھا، لیکن چونکہ حساس اداروں کی طرف سے دہشت گردوں کے حملے کی پیشگی وارننگ کو نظر انداز کیا گیا بلکہ اس پر توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا‘ جس میں 27 قیمتی جانیںرزق خاک ہوئیں، اِس افسوسناک واقعہ نے کراچی کے عوام کو خوف زدہ اور غیر محفوظ بنا دیا ہے تو دوسری طرف عوام کا یہ سوال اپنی جگہ بجا ہے کہ ایسی جمہوری حکومتوں کا کیا فائدہ جو جمہور کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو جائیں۔ دوسری طرف وزرا اور بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران جن میں پولیس کے افسران بھی شامل ہیں‘ اپنی جانوں کی حفاظت کے لئے موبائل پولیس کے قافلوں کی حفاظت میں آتے جاتے ہیں جبکہ عوام ہر روز دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل بھی ہورہے ہیں اور ان کو لوٹابھی جارہا ہے‘ کراچی کا تہذیبی، معاشی اور ثقافتی حُسن ماند پڑتا جارہا ہے‘ کیا کوئی اس کا نوٹس لے گا؟