دو جنگیں…لیکن؟

وزیراعظم جناب میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں دو جنگیں لڑ رہے ہیں، پہلی جنگ دہشت گردوں کے خلاف ہے جنہوں نے پاکستان میں تباہی پھیلائی ہوئی تھی اور ملک کی معیشت کو تباہ کرنے میں ان کا ہاتھ تھا، اب طالبان کے خلاف پاکستان کی فوج سیاسی قیادت کی ایما پر کارروائی کررہی ہے، اور اللہ کی ذات پر بھروسہ بلکہ یقین کامل ہے کہ دہشت گرد‘ جنہوں نے ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کر رکھی ہے، واصل جہنم ہوں گے۔ یہاں یہ بات گوش گزار کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے طالبان کو امن مذاکرات کے ذریعے پورا موقع دیا کہ وہ ہتھیار پھینک کر سیاست کے مرکزی دھارے میں آجائیں اور پُرامن شہریوں کے طرح زندگی بسر کریں، حکومت ان کی مدد کرے گی لیکن چونکہ یہ عناصر پاکستان کے خلاف بیرونی ایجنڈے پر کام کررہے تھے، اس لئے انہوں نے امن مذاکرات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ جو سیاسی پارٹیاں‘ خصوصیت کے ساتھ جماعت اسلامی‘ ان کی حمایت کررہی تھیں، ان کو بھی اس ضمن میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، چنانچہ اب ان کے خلاف بادل نخواستہ فوج کو میدان میں اترنا پڑا۔ ان کے خفیہ ٹھکانوں کو پاکستان کی فضائیہ کی مدد اور مہارت سے تباہ کیا جارہا ہے، یہ وہ جنگ ہے جس کا اظہار میاں نوازشریف نے تاجکستان میں کیا۔ دوسری جنگ معیشت کی بحالی ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے زبوں حالی کا شکار ہے اور جس کو ہنگامی بنیادوں پر ٹھیک کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ جب تک معیشت بحال نہیں ہوگی، پاکستان کے سیاسی و معاشرتی حالات بھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔
جدید دنیا کی تمام تر ترقی اور خوشحالی کا راز معیشت کی تیز رفتار ترقی میں مضمر ہے، جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہورہا۔ گزشتہ چھ سالوں میں بے لگام کرپشن کی وجہ سے نہ صرف ملکی معیشت تباہی و بربادی کا شکار ہوئی بلکہ اقتدار پر قابض اشرافیہ نے کرپشن کے ذریعے معاشرے کی تمام اخلاقی اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ آج کا پاکستان ہر لحاظ سے ایک غیر محفوظ ملک بن چکا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری اشرافیہ‘ جس میں بیوروکریسی بھی شامل ہیں‘ پر عائد ہوتی ہے، چنانچہ وزیراعظم پاکستان دو محاذوں پر جنگ لڑ رہے ہیں، جس کا اختصارکے ساتھ تبصرہ بالائی سطور میںکیا جاچکا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو محاذوں پر لڑی جانے والی جنگ کو کس طرح فتح سے ہمکنار کیا جاسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس اہم مگر مشکل کام میں سیاست دانوں اور عوام کے درمیان اتحاد و یک جہتی کا پیدا ہونا لازمی ہے، کیونکہ جہاں ملک کی باگ ڈور سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے، وہیں عوام کی معاشی و معاشرتی بہبود کی ذمہ داری بھی سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے، لیکن سانحہ لاہور کی صورت میں جو بھیانک اور تکلیف دہ مناظر عوام نے دیکھے‘ اس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ وزیراعظم صاحب معاشی محاذ پرجنگ جیت جائیں گے اور پاکستان کو ترقی کی طرف گامزن کر سکیں گے، ایک لا حاصل خواب بلکہ سراب کی جانب سفر ہے۔ پروفیسر طاہرالقادری کے کارکنوں اور ان سے عقیدت رکھنے والوں کو جس طرح پنجاب کی پولیس نے مبینہ طور پر رانا ثنا اللہ کی ہدایت پر بربریت سے قتل کیا، اس کا کسی مہذب معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات بھی اب عیاں ہوگئی ہے کہ عوام میں خوف وہراس پیدا کرکے حکومت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کو یہ جمہوریت کا نام دے رہے ہیں۔ گلوبٹ نامی گرامی غنڈہ تھا، اس کے حکمرانوں سے ذاتی مراسم تھے۔ اس کو ''شیرِ لاہور‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ اس نے پنجاب حکومت کی ہدایت پر جو کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں‘ انہوں نے نہ صرف خادم اعلیٰ کی پنجاب کے لئے کی جانے والی خدمات پر پانی پھیر دیا ہے، بلکہ وفاقی حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ملک کے تمام سیاسی پارٹیوں نے سانحہ لاہور کی شدید مذمت کی اور مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مستعفی ہو جائیں۔ پروفیسر طاہرالقادری نے سانحہ لاہور کے سلسلے میں قائم کیے گئے ایک جج پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن کو مسترد کر دیا اور مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل کمیشن قائم کیا جائے جووفاقی حکومت کو سچ اور حقائق پر مبنی رپورٹ پیش کرکے سانحہ لاہور کے ذمہ داروں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کرے، تاکہ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں اور ان کے ہمدردوں کی تشفی ہوسکے، اگر ایسا نہ ہوا تو سیاسی فضا مجروح اور مضمحل رہے گی اور عوام کا جمہوریت پر اعتماد اوربھروسہ ختم ہو جائے گا۔ جمہوریت میں اگر مخالفین کے لئے برداشت اور احترام کا جذبہ موجود نہیں تو وہ جمہوریت نہیں بلکہ شخص آمریت ہے‘ جس کا مظاہرہ لاہور میں پنچاب پولیس نے مبینہ طور پر سیاسی قیادت کی ہدایت پر کیا تھا۔ مزیدبرآں 23جون کو پروفیسر طاہر القادری پاکستان آرہے ہیں، ان کے پاکستان میں آنے کے بعد ملک کا سیاسی ٹمپریچر مزید بڑھے گا، جو حکومت اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے درمیان مزید تلخی کا باعث بن سکتا ہے اور جس کی وجہ سے وزیراعظم صاحب کا دو محاذوں پر جنگ لڑنے کا عزم ٹوٹ جائے گااور حکومت کرنا مشکل ہوجائے گی۔ اس کی تمام تر ذمہ داری ان افراد پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے جان بوجھ کر لاہور میں پولیس کے ذریعہ بھیانک تشدد کا مظاہرہ کیا اور جمہوریت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔بقول علامہ اقبال کے ؎ 
پیران کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں
نے جدت گفتار ہے، نے جدت کردار

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں