کشمیر زندہ ہے‘ زندہ رہے گا

13جولائی 1931ء کو ڈوگر اراج کے سپاہیوں نے 21 کشمیریوں کو شہید کیا تھا‘ اس کھلی بر بریت اور ظلم کے خلاف ہر سال مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیرمیں 13جولائی کو ان شہدا کی یاد میں یوم شہدائے کشمیر منایا جاتا ہے، جس میں عوام کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے اور ان شہدا کی قربانیوں کو یاد کرکے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ اس دفعہ یوم شہدائے کشمیر کے موقع پر سرینگر کے علاوہ دیگر بڑے بڑے مقامات پر مکمل ہڑتال رہی اور ڈوگر ا راج کے دور میں مسلمانوں پر ظلم کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ ڈوگرا راج کے ظلم اور آج بھارتی حکومت کے کشمیریوں پر ظلم میں کوئی فرق نہیں۔ اس وقت بھی سات لاکھ کے قریب بھارتی فوجی وادی میں موجود ہیں اور ہرروز کسی نہ کسی بہانے ایک دو کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کردیتے ہیں، لیکن بھارتی ظلم و زیادتی کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ڈوگرا راج میں جمعہ اور عید کے موقع پر علماء کرام پر خطبہ دینے کی پابندی تھی‘ جسے کشمیری عوام نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا اور اسے اپنے دینی ، معاشرتی اور ثقافتی اقدار میں مداخلت کے مترادف قرار دیتے ہوئے سرینگر اور قرب وجوار میں زبردست مظاہرے کئے گئے۔ 13جولائی سے لے کر 26جولائی تک کشمیری عوام نے ڈوگراراج کے خلاف مسلم کش پالیسیوں کے خلاف جو تاریخی جدوجہد کی تھی، اس کی باز گشت آج بھی کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو جلا بخش رہی ہے۔ 13جولائی کو ڈوگراراج کے سپاہیوں نے نہتے کشمیریوں کو شہید کیا تھا۔ اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری‘ بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔ آج بھی سینکڑوں کشمیری بھارت کی مختلف جیلوں میں بنیادی انسانی حقوق مانگنے کی پاداش میں اذیت ناک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں‘ لیکن جدوجہد جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ تشدد اور ظلم‘ کشمیری عوام کی بے مثال جدوجہد کا راستہ نہیں روک سکے گا۔ اس حقیقت کا ادراک بھارت کے موجودہ وزیراعظم جناب نریندرمودی کو بھی ہو گیا ہے۔
وزیراعظم مودی گزشتہ دنوں سرینگر کے دورے پر گئے تو مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال رہی‘ جبکہ مودی کی سکیورٹی کے سلسلے میں ہزاروں سپاہیوں کو دہلی سے طلب کیا گیا تھا۔ مودی کشمیر کے دورے سے ثابت کرنا چاہتے تھے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ ہیں ،لیکن جب وہاں پہنچے تو وادی میںقبرستان کا سا سناٹا تھا۔ ان کے استقبال کے لئے فقط سرکاری افسران اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے علاوہ بی جے پی کے چند ساتھی موجود تھے، یوں مودی کو احساس ہوگیا ہوگا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ متنازع علاقہ ہے‘ جس پر بھارت اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں میں صاف تسلیم کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر متنازع علاقہ ہے‘ جس کا حل صرف اور صرف استصواب رائے ہے۔ جب تک کشمیری عوام کی رائے معلوم نہیں کی جائے گی‘ یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا اور نہ ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان کبھی پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں بعض افراد دونوں ملکوں کے درمیان تجارت‘ وفود کے تبادلوں اور عوام کی آمدورفت کی مدد سے اچھی ہمسائیگی پر مبنی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرکے بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کی تمام کوششیں نقش برآب ثابت ہوں گی۔ 
ماضی میں امریکہ نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے ثالثی کی خدمات پیش کی تھیں۔ یہ 60ء کی دہائی کا قصہ ہے۔ امریکہ اس کوشش میں کامیاب ہوتا نظر آرہا تھا کہ بھارت کو احساس ہوا کہ اگر وادی میں استصواب رائے ہوا تو کشمیر کے عوام بھارت کی بجائے پاکستان کے ساتھ ملنا چاہیں گے؛ چنانچہ نہرو نے 1961ء میںامریکہ کی کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ بہت جلد کشمیر میں رائے شماری کراکر اس مسئلہ کو حل کردیں گے۔ ہمیں کسی بیرونی ملک کی خدمات درکار نہیں۔ اس کے بعد امریکہ نے اپنی ثالثی کوششیں بند کردیں لیکن جب کبھی کنٹرول لائن پر کشیدگی ہوتی ہے تو امریکہ اس مسئلہ کو حل کرانے کے سلسلے میں اپنی خدمات کی پیشکش کردیتا ہے؛ ہر چند کہ مسئلہ کشمیر انسانی حقوق کے حوالے سے سنگین مسئلہ ہے جس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے علاوہ کشمیری عوام کی آرا سے وابستہ ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں 1948ء سے اس مسئلہ پر بات کررہے ہیں، لیکن اس کا حل ابھی تک نہیں نکل سکا۔ جبکہ نا قابل تردید حقیقت یہ ہے کہ جب تک کشمیری عوام کو پاک بھات کے درمیان مذاکرات میں شریک نہیں کیا جاتا‘ اس کا پائیدار حل ممکن نہیں ہے۔ پاکستان اس بات کا خواہش مند ہے کہ کشمیری قیادت کو بھی کشمیرکے مسئلہ کے حل کے لئے بات چیت میں شامل کیا جانا چاہئے کیونکہ وہ مسئلہ کشمیر کے اہم فریق کی حیثیت رکھتے ہیں؛تاہم 13جولائی 1931ء کو ڈوگراراج کے سپاہیوں نے جن 21کشمیریوں کو شہید کیا تھا، ان کی یاد مناتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارتی حکومت کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا ہے کہ یہ مسئلہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ طاقت اور تشدد کے ذریعہ اسے دبانے کی کوشش کی گئی تو نتائج پورے خطے کے لیے انتہائی سنگین ثابت ہوں گے۔ بھارت کے انتہا پسند وزیراعظم مودی نے اپنے کشمیر کے دورے کے دوران سری نگر میں موجود کانگریس اور بی جے پی کی لیڈر شپ کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرکے ہی دم لیں گے لیکن کس طرح؟ ان کی بات چیت سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ اس مسئلہ کو پاکستان پر ایک اور جنگ مسلط کرکے حل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھارتی وزیراعظم مودی کی خواہش توہوسکتی ہے لیکن حقائق کچھ اور ہیں۔ پاکستان1971ء میں سانس نہیں لے رہا یہ 2014ء ہے۔ پاکستان بھارت کی طرح ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت مودی کے پاکستان کے خلاف جنگجویانہ اور انتہا پسندانہ خیالات سے بخوبی واقف ہے۔ انہیں اس بات کا احساس وادراک ہے کہ مودی بھارت کے انتہا پسند طبقوں کو مطمئن کرنے کے لئے کشمیر میں جنگی اقدامات کرنے سے گریز نہیں کرے گا لیکن کس قیمت پر؟ مودی کو عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتنے کے بعد غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی مہم جوئی کرسکتا ہے‘ اس صورت میں بھارتی عوام اس کا ساتھ دیں گے لیکن اسے معلوم ہونا چاہئے کہ بھارت کے صرف 33فیصد عوام نے اُسے ووٹ دیئے ہیں باقی 67 فیصد اکثریت اس کے ساتھ نہیں۔ اس کے مقابلے میں کشمیریوں کا پیغام یہ ہے کہ کشمیرزندہ ہے اور زندہ رہے گا! 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں