10جولائی 2014ء کو وزیراعظم محمد نواز شریف کراچی آئے تھے جہاں انہوں نے کراچی کے لیے بعض ترقیاتی پروجیکٹس کا اعلان کیا اور شمالی وزیرستان کے حوالے سے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ایک ایک دہشت گرد ختم نہیں کردیا جاتا۔ کراچی سے متعلق ترقیاتی اسکیموں کا اعلان اپنی جگہ بر وقت اور درست ہے لیکن ان اسکیموں کا فائدہ تبھی عوام کو پہنچ سکتا ہے جب اس شہر میں امن قائم ہوگا۔ گزشتہ دس سال سے کراچی تیزی کے ساتھ زوال اور تباہی کی طرف گامزن ہے اور اب تو صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ کسی پارک میں تفریح کی غرض سے بیٹھنا بھی دوبھر ہوچلا ہے۔ چور اچکوں، ڈاکوئوں، بھتہ خوروں نے شہر میں مستقل بسیرا ڈال لیا ہے اور بڑی دیدہ دلیری سے راہ گیروں (جن میں خواتین بھی شامل ہیں) کو لُوٹنے میں ذرا برابر خوف یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ ان سماج دشمن عناصر کی یہ دیدہ دلیری اس حقیقت کی غماز ہے کہ شہر میں قانون کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ صوبائی حکومت کے سربراہ سید قائم علی شاہ ہر لحاظ سے ایک ناکام وزیراعلیٰ ثابت ہورہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کی اس کمزور صورتحال سے بیوروکریسی پورا فائدہ اٹھارہی ہے۔ خاص طور پر پولیس کی بیوروکریسی‘ جس کی آپس کی چپقلش اور لڑائیاں قانون کے نفاذ کو بری طرح متاثر کررہی ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو ان کی پارٹی کے ارکان یہ صورتحال بتانے کے لئے اس لئے تیار نہیں ہیں کہ مبادا وہ ناراض نہ ہوجائیں لیکن گورنر ہائوس میں موجود کراچی کے صنعت کاروں اور تاجروں نے ان سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ انہیں کراچی سے متعلق ترقیاتی اسکیموں میں دلچسپی نہیں ہے(جس پر عمل درآمد ہوتے ہوئے بھی کئی سال لگ جائیں گے) بلکہ وہ کراچی میں سماج دشمن عناصر یعنی ڈاکو، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوروں سے فوری نجات چاہتے ہیں۔ ان تاجر حضرات نے وزیراعظم سے درخواست کی کہ وہ کراچی کو کچھ ماہ کے لئے فوج کے حوالے کردیں تاکہ حالات میںسدھار پیدا ہوسکے۔ انہوں نے وزیراعظم کو یہ بھی بتایا کہ پولیس اور رینجرز کراچی میں امن قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں، اس لئے کراچی سے متعلق اصلاحِ احوال کے لئے فوج کی طلبی ناگزیر ہوچکی ہے۔ تاجروں کی جانب سے اس خطاب میں وزیراعظم صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن انہوں نے صوبائی حکومت ، چیف سیکرٹری اور رینجرز کو متنبہ کیا ہے، کہ وہ اس سلسلے میں سنجیدگی سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور تاجر سمیت کراچی کے عوام کی جان ومال ، عزت و آبرو کی حفاظت کے سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑیں۔ وزیراعظم صاحب کراچی سے متعلق ترقیاتی اسکیموں کا اعلان کرتے وقت شاید یہ محسوس کررہے ہوں گے کہ کراچی کے عوام خوش ہوجائیں گے ، لیکن معاملہ اس کے برعکس ثابت ہوا۔ اب انہیں بھی یہ احساس ہوچلا ہے کہ سندھ کی حکومت (جسے اٹھارویں ترمیم کے بعد بے پناہ اختیارات مل چکے ہیں) نااہل افراد پر مشتمل ہے جنہیں اس شہر کے سماج دشمن عناصر کے ہاتھوں تباہی کا کوئی احساس وادراک نہیں اور ان کی یہ بے حسی قابل مذمت ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم صاحب کراچی کے حالات کو سنوارنے اور سدھارنے کے سلسلے میں ایک سال کے دوران کئی بار کراچی آچکے ہیں اور ہمیشہ اس امید کے ساتھ آتے ہیں کہ شاید کراچی میں امن وامان کے سلسلے میں انہیں کوئی اچھی خبر سننے کو ملے ، لیکن ہر بار وہ مایوس ہوکر واپس اسلام آباد چلے جاتے ہیں اور کراچی سماج دشمن عناصر کے ہاتھوں زخمی ہوتارہتا ہے۔ وزیراعظم کی موجودگی میں وزیراعلیٰ ، چیف سیکرٹری، پولیس اور رینجرز کے افسران سر سر کہہ کر یہ یقین دلانے کی کوشش کر تے ہیں کہ آئندہ کراچی کے حالات پر جلد قابو پالیں گے اور کراچی سے جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کردیا جائے گا، لیکن ایسا ہوتا نہیںہے۔ کراچی اور اندرون سندھ لااینڈ آرڈر کو بہتر بنانے کے سلسلے میں تمام تر ذمہ داریاں صوبائی حکومت اور اس کے سربراہ یعنی سید قائم علی شاہ پر عائد ہوتی ہیں جبکہ سندھ کے وزرا اور ان کے مشیروں کو کراچی کے حالات میں اصلاح لانے کے سلسلے میں کوئی دلچسپی نہیںہے۔ یہ وزرا حکومتی مراعات سے زبردست فائدے اٹھارہے ہیں لیکن ذمہ داریاں پوری کرنے سے عاجز نظر آتے ہیں۔ چونکہ حمام میں سب ننگے ہیں، اس لئے ان کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ جب سابق صدر جناب آصف علی زرداری ان کی پشت پر ہوں، تو کسی کی کیا مجال کہ ان کی کارکردگی سے متعلق کوئی باز پرس کر سکے ؟ یا پھر انہیں ہدایت کرسکے کہ عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں، چنانچہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ سندھ کی حکومت کی انتہائی ناقص کارکردگی کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ میرے مطابق اس کا واحد علاج یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کے تحت سندھ میں گورنرراج نافذ کردیا جائے، یہ اس لئے ضروری ہے کہ کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہر اور اس کے باسی ہر لحاظ سے غیر محفوظ ہوگئے ہیں تو کیا ان حالات میں وفاق کو آئین کی روشنی میں اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہئے؟ آئینی راستہ یہی ہے کہ سندھ کے دگرگوں حالات کے پیش نظر کچھ عرصے کے لئے گورنر راج نافذ کرنا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ دوسرا راستہ وہ ہے جس کی نشاندہی وزیراعظم صاحب سے کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں نے کی ہے یعنی شہر کو فوج کے حوالے کردیا جائے تاکہ بلا امتیاز سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کرکے شہر کے معاشی و معاشرتی حسن کا وقار بحال کیا جاسکے۔ ان دونوں تجاویز کے سلسلے میں جلد فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا کیونکہ پانی سر سے بہت اونچا ہوگیا ہے، سندھ کی حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ کراچی میں سدھارلانے کے سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھائے گی، لاحاصل اور بے ثمر توقع ہے۔ کراچی میں اب ایک اور سنگین مسئلے نے سر اٹھارکھا ہے اور وہ ہے فرقہ واریت کا عفریت جو ہر کسی کو شکار کررہاہے‘فرقہ واریت کو پھیلانے میں مقامی انتہا پسند تنظیموں کے علاوہ غیر ملکی عناصر کا بھی ہاتھ ہے۔ اب تک فرقہ واریت کو روکنے کے سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ مزید برآں ایم کیو ایم کے کارکنوں کو بھی قتل کیا جارہا ہے، یہی وجہ تھی کہ ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین نے سندھ کے کورکمانڈر سے لندن سے بات چیت کرتے ہوئے انھیںکراچی کے تشویش ناک حالات سے آگاہ کرتے ہوئے ٹارگٹڈ آپریشن سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور انہیں بتایا کہ یہ آپریشن یکطرفہ طورپر ان کی سیاسی پارٹی کے خلاف کیا جارہا ہے۔ کورکمانڈر نے الطاف حسین کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھائیں گے اور جلد ہی ایم کیو ایم کے نمائندوں کو ٹارگٹڈ آپریشن کی مانیٹرنگ کمیٹی میں شامل بھی کیاجائے گا۔ کورکمانڈر کی جانب سے یہ ایک اہم قدم ہے، اس کی وجہ سے ایم کیو ایم کی شکایتیں دور ہوں گی تو دوسری طرف کراچی میں صحیح معنوں میں سماج دشمن عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ممکن ہوسکے گی۔ بہر حال ہر صورت میں ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔