پھر جمہوریت کا حسن کیا ہے؟

عمران خان کے 14اگست کو اسلام آباد میں جلسے اور مارچ کے اعلان سے حکومت بوکھلا گئی ہے۔ اس کا اضطراب اور بے چینی دیدنی ہے۔ اس کے وزرا کبھی چودہ دن تک یوم آزادی منانے کا اعلان کررہے ہیں اور کبھی 28دن تک ، حالانکہ کسی بھی ملک کا یوم آزادی ایک دن کا ہوتاہے‘ جس میں پوری قوم یہ عہد کرتی ہے کہ سب با ہم مل کر ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے تن من دھن سے کام کریں گے، لیکن یوں محسوس ہورہا ہے کہ یوم آزادی بھی سیاست کی نذر ہونے والا ہے۔ یہ صورتحال چنداں اچھی نہیں ہے۔ حکومت کو عمران خان کے مارچ کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اس قسم کی ''حرکتیں‘‘ جمہوریت کا حسن ہوتی ہیں۔ اگر یہ ہلچل نہ ہوتو جمہوریت کا مزہ ہی کیا۔ نیز ایسی ہی ہلچل سے حکومت کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے اور یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ آئندہ دنوں میں حکومت ملک اور عوام کے لئے کیا کرسکتی ہے؟ لیکن حکومت کی کمزور اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے صورتحال بگڑتی چلی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ علامہ طاہرالقادری کے پُرامن کارکنوں پر پنجاب پولیس کے ''حملے‘‘ سے کئی افراد شہید ہوئے۔ اس سانحہ کی وجہ سے ملک کے سیاسی اور سماجی حالات زیادہ خراب وخستہ ہوگئے ہیں، اس پولیس حملے کی وجہ سے خادم اعلیٰ شہباز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جارہا ہے، لیکن وہ اپنی سیٹ پر براجمان ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ انہوں نے اپنے ایک وزیر کو قربانی کا بکرا بنادیا ہے۔ اس واقعہ کے وفاقی حکومت پر بھی انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے اور انگلیاں اس جانب بھی اٹھ رہی ہیں۔ اس سلسلے میں عدالتی کمشن قائم ہوچکا ہے، لیکن اس کی افادیت اور آئینی حیثیت سے متاثرین مطمئن نہیں ہیں۔ اسی باعث انہوں نے اس کو مسترد کردیا ہے۔ اس طرح یہ مسئلہ اپنی جگہ جوں کا توں موجود ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے کارکن اس المناک واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے سوا کسی چیز سے مطمئن نہیں ہوسکتے؛ چنانچہ اس ضمن میں جتنی تاخیر کی جائے گی حالات اسی لحاظ سے خراب سے خراب تر ہوتے چلے جانے کا اندیشہ ہے۔ 
اس صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم میاں نواز شریف کو طویل عرصے کے لیے ملک سے باہر نہیں رہنا چاہئے تھا۔ وہ عمرے کے لیے سعودی عرب گئے ہیں، لیکن ان کے وہاں کئی روز قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ کسی طرح وہاں کے سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف راغب کیا جا سکے اور شاہی خاند ان سے اپنے مراسم مضبوط بنائے جائیں۔ سفارتی حلقوں کی یہ بات وزنی معلوم ہوتی ہے کہ سیاست اور تجارت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ سیاست اور تجارت دونوں فل ٹائم جاب ہیں‘ اس لیے میاں صاحب کو کسی ایک کو اپنا کر اپنی حیثیت کو مستحکم کرنا چاہیے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ صرف ایک سال کے اندر سیاسی افق پر سیاسی مسائل کا شکار نظر آتے ہیں۔ عمران خان ان کے لئے سوہان روح بن چکے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کو منانے کے لاکھ جتن کئے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے‘ نہ ہی ان کا دل جیت سکے۔ 
اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان 14اگست کو اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ اب وہ صرف چار حلقوں میںکی جانے والی دھاندلیوں کے سلسلے میں Recountingکرانے پر مصر نہیں بلکہ سارے حلقوں میں آڈٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہی مطالبہ میاں صاحب اور عمران خان کے درمیان تنائو کا باعث بنا ہوا ہے؛ تاہم یہ طے شدہ بات ہے کہ ان چار حلقوں میں صوبائی انتظامیہ ، الیکشن کمشن اور نگران حکومت کی جانب سے دھاندلی کرائی گئی تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اس سلسلے میں دوبارہ گنتی کرانے میںکیا مضائقہ تھا؟ بقول عمران خان وہ گزشتہ ایک سال سے اس دھاندلی کے خلاف تمام اہم اداروں کے پاس گئے ، لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ انہیں اس سلسلے میں مطمئن بھی نہیں کیا گیا؛ چنانچہ اب جمہوریت کے تحت ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ اس دھاندلی اور نا انصافی کے خلاف احتجاج کریں، جس کے لئے انہوں نے اسلام آباد میں 14اگست کا دن مقرر کیا ہے۔ اسی وجہ سے حکومت بوکھلا گئی ہے، اور اب اس نے آئین کے آرٹیکل 245کے تحت اسلام آباد کو فوج کے سپرد کردیا ہے۔ اس کاجواز وزارت داخلہ نے یہ پیش کیا ہے کہ ''حکومت اندرونی وبیرونی سکیورٹی کیلئے پاک فوج کو سول حکومت کی مدد کے لئے بلا سکتی ہے اور حکومت کے اس اقدام کو ملک کی کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیںکیا جاسکتا۔ اسلام آباد کی فوج کو سپردگی صرف تین ماہ کے لئے ہوگی جبکہ ضرورت پڑنے پر اس میں مزید توسیع کی جاسکتی ہے‘‘۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے کی وجہ اندرونی اور بیرونی خطرات ہیں؟ اگر یہ صحیح ہے تو بہت پہلے یہ قدم اٹھا لیا جاتا۔ یہ اس وقت ہی کیوں اٹھایا گیا ہے جبکہ عمران خان اور طاہرالقادری عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے اسلام آباد آرہے ہیں؟ باشعور افراد کا اس سلسلے میںمکمل اتفاق ہے کہ یہ قدم صرف اور صرف عمران خان کے جلسے کو روکنے کے سلسلے میں اٹھایا جارہا ہے اور مسلم لیگ (ن) اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے اسی فوج کا سہارا لے رہی ہے جس کو ابھی چند ماہ قبل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ 
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جناب خورشید شاہ نے اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے کے اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو حکومت اسلام آباد کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتی ہے، وہ پورا ملک کیا چلا سکتی ہے، اس لئے بہتر ہے کہ حکومت گھر بیٹھ جائے۔ خورشید شاہ کا یہ بیان غالباً اس حقیقت کی غمازی کر رہا ہے کہ میاں نواز شریف سیاسی لحاظ سے ایک ناکام وزیر اعظم ثابت ہورہے ہیں، ان میں حقائق کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیںہے، لیکن وہ برسراقتدار بھی رہنا چاہتے ہیں اور حکومت کو بچانے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ عمران خان کے لانگ مارچ اور طاہر القادری کے احتجاج سے سیاست اور معاشرت میںہلچل تو پیدا ہوسکتی ہے لیکن حکومت نہیں گرے گی اور نہ ہی عمران خان اور طاہرالقادری کی یہ سوچ ہے۔ عمران خان 11مئی 2013ء کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کا سدباب چاہتے ہیں اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ الیکشن کمشن میں ٹھوس اصلاحات لائی جائیں تاکہ آئندہ انتخابات میں ملک کے وسائل کو لوٹنے والے اور سامراج کی کاسہ لیسی کرنے والے دھاندلیوں کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں نہ آسکیں۔ یہی ایجنڈا جمہوریت کو مضبوط‘ عوام کو مطمئن اور پاکستان کو مستحکم کرنے کا باعث بنے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں