بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی

گزشتہ دنوں میں نے اپنے کالموں میں نریندرمودی کے وزیراعظم بن جانے کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بھارت میں ان کی ذات اور سوچ کے حوالے سے انتہاپسندی کو فروغ حاصل ہوگا۔ میرے یہ خدشات صحیح ثابت ہورہے ہیں ۔ چند دن قبل دہلی میں مہاراشٹر میں لوک سبھا کے گیارہ ارکان نے (جن کا تعلق شیوسینا سے تھا) زبردستی ایک مسلمان ارشد کا روزہ تڑوا دیا۔ ارشد دہلی میں مہاراشٹر حکومت کے ایک بنگلے میں ارکان لوک سبھا کے کھانے پینے کے انتظامات پر مامور تھا۔ شیوسینا کے ارکان نے میڈیا کی موجودگی میں ارشدکے منہ میں زبردستی روٹی کا نوالہ ٹھونسا اور اسے چبانے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔ اس وقت میڈیا کے بعض رپورٹر جوکھانے کی دعوت پر مدعو تھے، یہ منظر دیکھا اور بعض نے موبائل فون پر اس کی ویڈیو بھی بنالی۔ شیوسینا لوک سبھا میں بی جے پی کی اتحادی جماعت ہے اوراس کا فلسفہ نہ صرف انتہا پسندی پر مبنی ہے بلکہ ان دونوں جماعتوں میں مسلمانوں کے خلاف سخت عداوت اور نفرت پائی جاتی ہے جس کا مظاہرہ وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔ قارئین کی یاد دہانی کے لئے یہ لکھنا ضروری ہے کہ نریندرمودی بچپن میں شیوسینا کے بڑے سرگرم کارکن تھے ۔ یہ جماعت بی جے پی کے ساتھ مل کر بھارت کو سیکولر کے بجائے ہندو ملک بنانے پرتلی ہوئی ہے۔ اسی کے کارکنوں نے دیگر انتہا پسند ہندو تنظیموں کے ساتھ مل کر 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اور اس میں نریندرمودی برابر کے شریک تھے کیونکہ اس وقت وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ ہر چند کہ بھارت کی عدالت نے نریندرمودی کو گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات سے بری کردیا لیکن بھارت کے سیکولر دانشور اور میڈیا عدالت کے اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ اب جبکہ نریندرمودی بھارت کے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں، ان کی مسلم دشمنی اور انتہا پسندی پر مبنی سوچ اور خیالات آہستہ آہستہ بھارت کے سماج میں پھیلتے جارہے ہیں۔ شیوسینا کے ارکان پارلیمنٹ نے ارشد کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کا ردعمل پورے بھارت میں محسوس کیا جارہا ہے ،یہاں تک کہ بھارت کے دانشور مختلف اخبارات میں یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت بھارت کے سیکولر فلسفے کی نفی کرتے ہوئے، اسے ہندوئوں کا ایک انتہا پسند ملک بنانے پر تلی ہوئی ہے جس کی ہر فورم پر مزاحمت کی جائے گی،اس لیے کہ بھارت کا سماج صرف سیکولر سوچ سے جڑا ہوا ہے۔دوسری صورت میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کا جینا دوبھر ہوجائے گا۔ ارشد کاروزہ زبردستی ساقط کرانے کے علاوہ بی جے پی کے بعض سرگرم کارکنوں نے مودی سرکار سے کہا ہے کہ فجر کی اذان بند کرائی جائے کیونکہ اس سے ان کی نیند متاثر ہوتی ہے۔ یہ ایک مضحکہ خیز سوچ ہے، آزادی سے پہلے یا بعد میں کسی نے فجر یا دوسری نمازوں کے لیے دی جانے والی اذان پر اعتراض نہیں کیا تھا، لیکن بی جے پی کی عام انتخابات میں کامیابی کے بعد انتہا پسند ہندوئوں نے اپنی گھٹیا سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنا شروع کردیا ہے۔صرف یہی نہیں، بی جے پی اور اس سے وابستہ انتہا پسند تنظیموں کے لب و لہجے میں بھی اں جارحیت نمایاں ہے؛چنانچہ آئندہ دنوں میں بھارت کے کسی بھی علاقے میں ہندومسلم فسادات کے امکانات کو مسترد نہیںکیا جاسکتا۔
ایک اور واقعہ جس نے بھارت کے سیکولر اور غیر جانبدار افراد کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اس کا تعلق پونا میں آئی ٹی کے ایک ماہر زاہد خان کو بے بنیاد الزام لگا کر دن دیہاڑے قتل کرنے کا ہے۔ اس قتل میں بی جے پی کی مقامی تنظیم کے انتہا پسندکارکن شامل تھے۔ اس پر کانگریس سمیت بھارت کی دوسری چھوٹی بڑی جماعتیں سخت دل گرفتہ ہیں اور اس کی سخت الفاظ میں مذمت کررہے ہیں، لیکن لوک سبھا اور راجیاسبھا میں ان کی پوزیشن بہت کمزور ہے اس لئے ان کے احتجاج کا کوئی خاص اثر نہیں ہورہا ہے۔ بیشتر بھارتی میڈیا بھی بھارت میں بڑھتے ہوئے انتہا پسندی کے رجحان پر برہم ہے جس کا اظہاراخباری کالموں اوراداریوں میں ہوتا رہتا ہے۔ بھارتی ٹی وی پر اکثر مبصرین مودی سرکارکی ''ہندوتا ‘‘ پالیسی کی مذمت کرتے ہیں اور انہیں یا د دلایا جاتا ہے کہ بھارت کے استحکام اور ترقی صرف سیکولر ازم ہی سے وابستہ ہے، بھارت کو ہندو ملک بنانے کی کوششوں سے ملک میں انار کی پھیل جائے گی جو بعد میں اس کے ٹوٹنے پر بھی منتج ہوسکتی ہے۔
مودی سرکار اور اس سے وابستہ شیوسینا جیسی تنظیمیں پاکستان کے خلاف جنگ کرنے کا عندیہ بھی دیتی رہتی ہیں ۔ حال ہی میں مودی سرکار نے ممبئی واقعات کے حوالے سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی عدالتوں کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے پر سست روی کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ سرعت کے ساتھ اس مقدمے پراپنا فیصلہ صادرکریں۔ بھارت کی وزارت خارجہ نے پاکستانی سفارت کارکو اپنے دفتر بلا کر اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے، پاکستان میں بھارتی سفیر نے بھی حکومت پاکستان سے اسی قسم کا مطالبہ کیا ہے۔ مودی سرکار کا یہ طریقہ کار دونوں ملکوں کے مابین قیام امن کے حوالے سے نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ نریندر مودی اپنی اور اپنے حواریوں کی انتہا پسند سوچ میں پھنس کر کہیں پاکستان کے خلاف اعلان جنگ نہ کردیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے فائرنگ کے واقعات دونوں ملکوںکے درمیان کشیدگی پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے مبصرین کو بھی لائن آف کنٹرول سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے؛ تاہم فی الحال اس مطالبے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ایک مستند اطلاع کے مطابق بھارت کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف مسٹر سنگھ (جو اب مرکزی وزیر ہیں) مودی کو پاکستان کے خلاف بھڑکا تے رہتے ہیں۔ پاکستان اور مسلمانوں کے بارے میں مودی اورسابق جرنیل کی سوچ میں مکمل یکسانیت پائی جاتی ہے، دونوں پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے ہیں اور اکثر اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت مودی سرکار کی سوچ سے زیادہ واقف نہیں ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت بھارت کے ساتھ تجارت تجارت کا نعرہ بلند کرتی رہتی ہے ؛ حالانکہ صرف تجارت کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم نہیں ہوسکتا، اس لئے مودی سرکار سے پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں کے حوالے سے خیر کی امید رکھنا قبرستان میں اذان دینے کے مترادف ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں