2014ء: پاکستانی قوم اپنی آزادی ،سلامتی اور بقاء کا 68واں سال منارہی ہے، ہر چند کہ اس سال یوم آزادی کے موقع پر سیاسی ہلچل کچھ زیادہ ہی مچ گئی ہے۔ کشیدگی کے ساتھ باہمی عداوتیں بھی بڑھ گئی ہیں‘ جو پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کے لیے خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہ اچھی علامت نہیں، پاکستان کے آئین کی دفعہ 19کے تحت سیاسی جماعتوں اور شہریوں کو احتجاج کرنے ، جلسہ کرنے اور تحریروتقریر کی مکمل آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ تمام مہذب دنیا کا بھی یہی چلن ہے۔ اسی طریقہ کاراور روّیہ کی وجہ سے ہی وہ قومیں ترقی کررہی ہیں۔ ہم مخالفین کو برداشت کرنے یا سننے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے جمہوری اقدار تباہ ہورہی ہیں‘ گڈگورننس نہ ہونے کے باعث عوام کی مشکلات ومصائب میں اضافہ ہورہا ہے؛ چنانچہ اس تکلیف دہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر یوم آزادی کے اس مبارک موقع پر قوم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو شدت سے یادکررہی ہے۔ ان کے خیالات ، افکار اور بیانات کی روشنی میں پاکستان کو تلاش کررہی ہے۔ وہ پاکستان جس کے حصول کے لئے برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے تن، من، دھن کی قربانیاں یہ سوچ کردی تھیں کہ اس مملکت خداداد میںوہ اپنی مذہبی اقدار، روایات ، بھائی چارہ اور اخوت کے زریں اصولوں پر عمل پیرا ہوکرجدید دنیا کا ایک عظیم اسلامی ملک تعمیر کریں گے۔ قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان کا عظیم معرکہ سرکرنے کے بعد انہوں نے قوم کو بارہا یاد دلایا تھا: مملکت پاکستان میں ہر فرد کو اس کے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے ، عبادت کرنے کا پورا حق حاصل ہوگا۔ ریاست کا کسی فرد کے عقیدے یا روایات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ بالفاظ دیگر قائداعظمؒ روشن خیال اعتدال پر مبنی پاکستانی معاشرے اور اس سے ابھرنے والی ایک دوسرے کو برداشت کرنے والی سیاست کے داعی تھے۔ انہوں نے اپنی پوری سیاسی اور وکالت کی زندگی ان ہی اصولوں پر گزاری تھی؛ یہی وجہ تھی کہ وہ ہر مکتب فکر میں بے حد مقبول تھے، قیام پاکستان کی تحریک سے قبل وہ تیرہ سال تک انڈین نیشنل کانگریس کے اہم ترین رکن رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے ہندومسلم اتحاد کے لئے بڑی جانفشانی سے کوششیں کیں‘ تاکہ ہندوستان میں موجود یہ دو بڑی مذہبی، سیاسی، تہذیبی اکایاں باہم مل جل کر زندگی بسر کر سکیں۔ ان کی کوششوں کے سلسلے میں بھارت کی تمام اقلیتوں نے انہیں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے سفیر کا لقب دیا تھا، لیکن جب ان کی تیرہ برسوں کی ہندومسلم اتحاد کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوسکیں تو وہ کانگریس سے علیحدہ ہوگئے۔ انہوں نے مسلم لیگ کے احیا کی کوشش کرتے ہوئے اسے غیر منقسم ہندوستان کی ملک گیر جماعت بنانے کا عزم کرلیا، قائد اعظمؒ کانگریس کے علاوہ دیگر ہندوتنظیموںسے متعلق اکثر کہا کرتے تھے کہ '' یہ لوگ تنگ دل، تنگ نظر اور مذہبی عصبیت کا شکار ہیں بلکہ یہ مسلمانوں سے ہندوستان میں اُن کے ایک ہزار سالہ اقتدار کا بدلہ لیناچاہتے ہیں،‘‘ کانگریس کا مسلمانوں کے خلاف عصبیت اور تنگ نظری کا مظاہرہ 1937ء کے انتخابات میں ہوا جس میں مسلم لیگ ہار گئی تھی، لیکن کئی اہم نشستو ں میں مسلم لیگ کے نامزد امیدوار جیت بھی گئے۔ اسی بنیاد پر قائد اعظم نے کانگریس کی قیادت سے کہا تھا کہ وہ بھارت کی تمام اقلیتوں کے احساسات وجذبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دوتین وزارتیں مسلمانوں کو بھی دے دیں، لیکن کانگریس کی قیادت کے تمام ذمہ داروں نے جن میں گاندھی، نہرو، اور پٹیل پیش پیش تھے، اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا تھا، دراصل 1937ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کی شکست اور انڈین کانگریس کے رہنمائوں کا مسلمانوں کے خلاف کھلی عداوت و عصبیت کے مظاہرے نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو مجبور کردیا کہ وہ ہندوستان میں مسلم لیگ کو عوامی جماعت بنانے کیلے بھر پور مہم چلائیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ کانگریس کے مسلمانوں کے خلاف اصل عزائم کیا ہیں۔ ہندستان سے انگریزوں کے چلے جانے کے بعد کانگریس کے علاوہ دیگر مسلمان دشمن انتہا پسند تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف کتنے گھنائونے عزائم رکھتی ہیں ، چنانچہ صرف تین سال کے عرصے میں انہوںنے برصغیر کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔ 23مارچ 1940ء کو لاہور میں پاکستان کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک قرار داد منظور کی جسے قرارداد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل مسلمانوں کے عظیم مفکر اور شاعر مرحوم علامہ اقبال پہلے ہی مسلمانوں کو آگاہ کر چکے تھے کہ برصغیر ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ملک صرف اور صرف محمد علی جناح کی قیادت میں ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد صرف 7سال میں قائداعظم کی ولولہ انگیز
قیادت میں اور مسلمانوں کی بے مثال جدوجہد کے ذریعے پاکستان کا قیام عمل میں آگیا، تاہم ان سات سالوں کے دوران قائد اعظم کی راہ میں کانگریس اور کانگرسی علماء (جمعیت علمائے ہند) کی جانب سے غیر معمولی مزاحمتیں پیش کی گئی اور قائد اعظم پر قاتلانہ حملہ بھی کرایا گیا‘ تاکہ انہیں سیاسی منظر نامے سے ہٹادیا جائے، لیکن وہ اس سازش میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے، پھر ان سات برسوں کے دوران غیر منقسم ہندوستان کے مختلف حصوں میں انتہاپسندہندوتنظیموںنے مسلمانوں پر قاتلانہ حملے کئے اور بڑی تعداد میں انہیں شہید کردیا۔ یہ سلسلہ 1947ء تک جاری رہا، صرف بہار میں ڈائریکٹ ایکشن ڈے کے دوران پچاس ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا،اس لئے موجودہ نسل اور آئندہ آنے والی نسلوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان کے قیام کے لئے غیرمنقسم ہندوستان میں تیس لاکھ مسلمانوں نے اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں پیش کی تھیں، پاکستان کے قیام کے بعد لاکھوں مسلمان نئے ملک یعنی پاکستان کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ یہ جدید دنیا کی سب سے بڑی ہجرت تھی جبکہ یہاں کے مقامی لوگوں نے بڑی فراخدلی سے ان کا خیر مقدم کیا جس سے مدینہ منورہ میں سرکار دو عالم کے عہد میں مہاجر انصار اتحادوبھائی چارگی (مواخاۃ) کی یاد تازہ ہوگئی تھی۔ قیام پاکستان کے ابتدائی بیس سالوں کے دوران مختلف حکومتوں نے قومی مسائل حل کرنے اور ملک کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی دوران پاکستان تمام تر مادی مشکلات کے باوجود معاشی وسماجی طورپر اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا تھا۔ کانگریس
کے اس پروپیگنڈے کو زائل کردیا تھا کہ پاکستان صرف چند ماہ میں Collapseہوکر بھارت کے ساتھ دوبارہ مل جائے گا۔ الحمدللہ! پاکستان قائم ہے اور تاقیامت قائم رہے گا؛ چنانچہ سیاست دان جو وقفے وقفے سے اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں انہیں قائد اعظم کے افکار کی روشنی میں پاکستان کی بے لوث خدمت کرنے کا ازسرنو عزم کرنا چاہئے اور عوام دوست پالیسیوں اور گڈگورننس کی حکمت عملی اختیار کرکے ان کی تکلیفوں کو دور کرنا چاہئے اور ان عوامل پر غور کرنا چاہئے جس کی وجہ سے پاکستان میں ترقی کی رفتار رک چکی ہے اور بے لگام کرپشن نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ قائداعظم نے اپریل 1948ء میں کوئٹہ میونسپلٹی کی جانب سے اپنے اعزاز میں دی گئی ایک تقریب کے موقعہ پر بڑی وضاحت سے کہا تھا کہ ''صوبائی ولسانی عصبیتیں اس مملکت خداداد کے لئے زہر قاتل ثابت ہوں گی، اس لئے ہمیں اس سوچ سے اجتناب برتنا چاہئے اور پاکستان کی بلاامتیاز رنگ، نسل، زبان، مذہب خدمت کرنی چاہئے، ایک اور موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا ''ہم نے بڑی اور بے مثال قربانیوں کے بعد یہ ملک حاصل کیا ہے، اس کی حفاظت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، اگر ہم نے اتحاد، عمل پیہم اور تنظیم کو اپنی زندگی کا شعارر بنا لیا تو یاد رکھئے کہ کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا؛ اس لئے یوم آزادی کے اس عظیم تاریخی موقع پر ہمیںقائد اعظم کے افکار کی روشنی میں پاکستان کو تلاش کرکے اس کی تعمیر نو کرنی چاہئے؛ اگر ہم نے قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں اپنی سوچوں میں مثبت تبدیلیاں لانے کی کوشش نہیں کی اور عوام کے معاشی وسماجی حالات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں جدوجہد نہیں کی تو پھر ہمیں ترقی معکوس کی جانب سے کون روک سکے گا؟ یہی یوم آزادی اور قائداعظمؒ کا پیغام ہے۔