ایک اطلاع کے مطابق پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات ملتوی ہوگئی ہے۔ اس بات کا مجھے اندیشہ تھا بلکہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اس کا ہلکا سا اشارا بھی دیا تھا اورکہا تھا کہ دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان ملاقات ''متوقع‘‘ ہے۔ بھارت کی جانب سے سیکرٹری خارجہ ملاقات کو ملتوی کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں مخلص نہیںہے بلکہ وہ پاکستان کے اندرونی حالات سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ ہمارے تمام سیاست دان اپنے اپنے انداز سے اس ملک کے حالات کو خراب کررہے ہیں؛ چنانچہ بھارت جو کبھی پاکستان کا دوست نہیں رہااور اس کے ایجنٹ کسی نہ کسی طرح پاکستان کے اندر دہشت گردی کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں، وہ یہ کیسے چاہے گا کہ پاکستان کے حالات بہتر ہوں اور پاکستان یکسوئی کے ساتھ تعمیرو ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ پاکستان کی ترقی کے حوالے سے یہ بات تو ہمارے سیاست دانوں کو سوچنی چاہیے جو جمہوریت کا راگ تو الاپتے ہیں لیکن جمہور کی نہ تو خدمت کرتے ہیں اور نہ ہی ان کو کسی قسم کا مالی یا معاشی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ پاکستانی سیاست دانوں کی سوچ میں جمہوریت کا مطلب ہر جائزوناجائز طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرنا مقصود ہوتا ہے، اور جب ان کو بعض ''ذرائع‘‘ سے اقتدار مل جاتا ہے تو وہ قوم و ملک کی بے لوث خدمت کرنے کے بجائے ملک کے وسائل کو اپنے ذاتی تصرف میں لاکر ملک کو مزید اقتصادی بد حالی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ اس وقت پاکستان میںیہی کچھ ہورہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارا ملک آہستہ آہستہ معاشی بد حالی کی طرف گامزن ہورہا ہے۔ پاکستان کی فوج اس صورت حال کا مشاہدہ کررہی ہے، لیکن وہ سیاست دانوں کی باہمی چپقلش سے پیدا ہونے والی صورت حال سے غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرے گی ؛ حالانکہ حکومت فوج کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ پاکستان کے سیاست دان ابھی تک ''بالغ‘‘ نہیں ہوئے ، جب یہ عناصر اقتدار سے دور ہوتے ہیں یعنی اقتدار پر قابض نہیں ہوتے توجمہوریت کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں اور جب دھن، دھمکی اور طاقت کے استعمال سے اقتدار مل جاتا ہے تو وہ اچھی طرز حکمرانی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے لوٹ کھسوٹ کے ذریعے اپنی دولت اور ثروت میںاضافہ کرنے لگتے ہیں۔ آج پاکستان اسی المیے کا شکار ہے۔ اگر اس ملک میں شفاف اور عوام دوست طرز حکمرانی کار اج ہوتا تو یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی جو اب نظر آرہی ہے اور جس نے ہر ذمہ دار اور باشعور شہری کو پریشان اور بے چینی میں مبتلا کررکھا ہے۔
جیسا کہ میں نے بالائی سطور میںلکھا ہے، بھارت پاکستان کے اندرونی حالات کا بڑی باریکی سے جائزہ لے رہا ہے اور اس کے ایجنٹ پاکستانی سیاست میں داخل ہوکر حالات کو خراب کرنے کے لئے کوشاں ہیں ، سیکرٹری خارجہ سطح کی ملاقات کو ملتوی کرنا بھی پاکستان کو یہ پیغام دینا ہے کہ بھارت ان حالات میں سیکرٹری خارجہ ملاقات کو بے معنی سمجھتا ہے جس کے فی الوقت کوئی نتائج نہیں نکل سکتے ۔ بظاہر بھارت کا یہ موقف درست معلوم ہوتا ہے۔ ان حالات کو پیدا کرنے کی ذمہ داری ہمارے سیاست دانواں پر بھی عائد ہوتی ہے جو اپنے اقتدار کی خاطر اس ملک کو دولخت کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ بھارت سے یہ امید رکھنا کہ وہ پاکستان کے موجودہ سیاسی ومعاشی حالات سے
چشم پوشی اختیار کرے گا، ایک بے جا بلکہ امید موہوم ہے۔ ماضی میں بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے ناگفتہ بہ حالات سے فائدہ اٹھا کر اس کو مزید کمزور کرنے کی کوشش کی ہے، نیز جب سے مودی سرکار اقتدار میں آئی ہے اس کا بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ پاکستان کے اندورنی حالات سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی تصادم کی راہ اپنائی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آئے دن پاکستان کے خلاف زہرفشانی کرتے رہتے ہیں اور ان دونوں ملکوں کے درمیان امن کے تمام امکانات کو معدوم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بہر حال، بھارت نے سیکرٹری خارجہ کی سطح پر ملاقات کو ملتوی کرکے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھا یا۔ اگر یہ ملاقات ہوجاتی تو یقینی طورپر دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کو مزید آگے کی طرف لے جایا جاسکتا تھا جس کی وجہ سے بہت حد تک کشیدگی بھی کم ہوسکتی تھی، لیکن اب کیونکہ سیکرٹری سطح کی ملاقات ملتوی ہوچکی ہے اس لئے پاک بھارت تعلقات میں بہت عرصے تک خوشگوار تعلقات پیدانہیں ہوسکیں گے جس سے ان عناصر کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے گاجو جنوبی ایشیا میںانتہا پسندی کو پھیلا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور امن
کے کاز کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی اپنے ایک بیان میں سیکرٹری خارجہ ملاقات کے التوا کی مذمت کی ہے اورکہا ہے کہ بھارت کے اس طریقہ کار سے پاکستان کی اس خطے میں امن کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے پاکستانی ہائی کمشنر کی مقبوضہ کشمیر کے حریت لیڈروں سے ملاقات پر سخت تنقید کی ہے اور اشارتاً کہا ہے کہ یہ بھارت کے اندورنی معاملات میں سراسر مداخلت کے مترادف ہے؛ حالانکہ پاکستان کے ہائی کمشنر جناب عبدالباسط نے حریت لیڈروں سے ملاقات کرکے بھارت کو یہ کھلا پیغام دیا ہے کہ پاکستان اس وقت بھی اور آئندہ بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی اخلاقی، سیاسی وسفارتی مدد کرتا رہے گا کیونکہ یہ خطہ پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل عرصے سے متنازع بنا ہوا ہے اور جب تک اس مسئلے کو باہمی مذاکرات کے ذریعہ حل نہیں کرلیا جاتا‘ پاکستان اور بھارت کے مابین خوشگوار تعلقات پیدا نہیں ہوسکتے۔ دراصل امن کی تمام چابیاں بھارت کے پاس ہیں۔ اگر وہ پاکستان کو ڈرانے اور دھمکانے کی پالیسیاں ترک کردیتا ہے اور خلوص دل سے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات استوا ر کرنا چاہتا ہے تو جنوبی ایشیا میں بہت سی تبدیلیاں آسکتی ہیں اور امن بھی قائم ہوسکتا ہے، بھارت کو ٹھنڈے دل سے اس پر بڑی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔