جناب جاوید ہاشمی صاحب کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ ''باغی‘‘ ہیں بلکہ وہ خود اپنے آپ کو باغی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، بعد میں تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں نے انہیں ''انقلابی‘‘ کہہ کر پکارنا شروع کردیا، اس طرح وہ بیک وقت باغی اور انقلابی بن گئے تھے، لیکن میرے مطابق وہ نہ تو باغی ہیں اور نہ ہی انقلابی بلکہ وہ بنیادی طورپر موقع پرست واقع ہوئے ہیں، جہاں وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی ذات کی تشہیر ہوگی وہ اس میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ سابق فوجی صدر جناب ضیاالحق کے ساتھ ان کی رفاقت کی ایک بڑی وجہ بھی موقع پرستی تھی، حالانکہ یہ دوسری بات ہے کہ انہوں نے ضیاالحق مرحوم کے ساتھ وابستگی پر عوام سے معافی مانگی تھی ، اس کے بعد وہ میاں نواز شریف کے ساتھ شامل ہوگئے اور ان کی مدح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے تھے۔پھر انہوں نے مسلم لیگ کو خیر باد کہہ دیا اور تحریک انصاف کے قائد جناب عمران خان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ مسلم لیگ کو چھوڑنے سے پہلے میاں نواز شریف اور ان کی بیگم کلثوم نواز شریف نے ان کی بہت زیادہ منت سماجت کی تھی کہ وہ مسلم لیگ کو خیر باد نہ کہیں ، لیکن انہوں نے میاں صاحب کے ساتھ تمام تر تعلقات کے باوجود مسلم لیگ چھوڑ دی اوراب انہوں نے تحریک انصاف سے بھی علیحدگی اختیار کرلی ہے،خصوصیت کے ساتھ اس وقت جبکہ انتخابی اصلاحات اور جعلی جمہوریت کے خلاف تحریک اپنے عروج پر ہے۔ جاوید ہاشمی نے عمران خان کے ساتھ تاریخی بے وفائی کا مظاہرہ کیا ہے، جسے قوم نہ تو معاف کرے گی اور نہ ہی بھولے گی ۔ ملتان میں میرے بعض دوستوں نے ٹیلی فون پر بتایا ہے کہ جاوید ہاشمی تحریک انصاف کے اندر اصل میں میاں نواز شریف کے نمائندے تھے، انہوں نے چند ماہ قبل تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے یہ بیان دیا تھا کہ میرے اصل قائد میاں نواز شریف ہیں چنانچہ وہ واپس اپنے قائد کے پاس چلے گئے ہیں،لیکن اب انہیں عوام کی جانب سے کتنی تنقید اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گاانہیں اس کا اندازہ نہیں ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی کچھ دنوں تک وہ میاں نواز شریف کی 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف دھواں دھار تقریریں کر رہے تھے اور عمران خا ن اور طاہر القادری صاحب کے تمام مطالبات کی پُر زور حمایت بھی کررہے تھے، اب وہ کس منہ سے موجودہ حکومت کا وفاع کرسکیں گے؟ نیز انہوں نے جس ایشو پر تحریک انصاف پر تنقید کی ہے وہ حقیقت میں نان ایشو تھا، جس پر پارٹی کے اندر بحث کی جاسکتی تھی۔ دنیا بھر میں سیاسی پارٹیوں کے ممبران اور عہدیداران کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں، لیکن ان اختلافات کو بحث و مباحث کے بعد ختم کرکے ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا جاتا ہے، میں نے یہ منظر چین کی ایک ضلعی کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں دیکھا تھا، جہاں کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری پر کسی مسئلہ پر سخت تنقید کی جارہی تھی وہ بڑے صبر وتحمل کے ساتھ اپنے اوپر کی جانے والی تنقید کو سن رہے تھے، بعد میں انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے اس تنقید کا جواب دیا اور اپنے ساتھیوں کو قائل کرکے اپنا ہمنوابنا لیا پھر تمام فیصلے متفقہ طور پر کئے گئے، جاوید ہاشمی صاحب بھی یہ جمہوری طریقہ اختیار کرسکتے تھے تاہم انہوںنے ایک ایسے موقع پر تحریک انصاف کے ساتھ بے وفائی کی ہے جس پر باشعور پاکستانیوں کو حیرت بھی ہے اور افسوس بھی۔معلوم ہوتا ہے کہ جاوید ہاشمی شاید پہلے ہی سے تحریک انصاف کو چھوڑنے کا ذہن بنا چکے تھے، اس لئے انہوں نے پارٹی میں رہ کر اپنے موقف پر پارٹی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ایک اور طریقہ جو جاوید ہاشمی صاحب اپنا سکتے تھے ، وہ یہ تھا کہ وہ حکومت کے خلاف چلنے والی موجودہ تحریک کے دوران تحریک انصاف سے تمام تر اختلافات کے باوجود خاموش رہتے، لیکن انہوں نے یہ مہذب و اخلاقی طریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ ایک انتہائی معمولی ایشو پر عمران خان سے اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کے سلسلے میں عوامی تحریک کی مخالفت شروع کردی۔شنیدہے کہ انہوں نے بے وفائی کا یہ تاریخی فیصلہ کرنے سے قبل میاں نواز شریف سے مشورہ کیا تھا، اور بعد میں یہ قدم اٹھایا ہے جس کی وجہ سے ان کی سیاسی ساکھ صفر ہوکر رہ گئی ہے۔ شاید ان کے ذہن میںیہ بات بیٹھ گئی تھی کہ تحریک انصاف سے ان کی علیحدگی کے بعد تحریک ختم ہوجائے گی ، لیکن ان کی یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی، تحریک جاری ہے اور یہ یقینا منطقی انجام تک پہنچے گی کیونکہ عوام انصاف اور تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔
مزید براں جاوید ہاشمی اپنی تقریروں میں مسلسل یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ عمران خان کے ساتھ 2013ء کے الیکشن میں ناانصافی ہوئی ہے، اور ان کا ووٹ بینک چرایا گیا ہے، اور تمام اطلاعات وشواہد کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے نہ صرف تاریخی انتخابی دھاندلی کی ہے بلکہ ان انتخابات کو دھن ، دھونس اور دھمکی کے ذریعہ خریدا گیا ہے۔ جن افراد نے مبینہ طور پر مسلم لیگ کو کامیاب کرانے میں دھاندلیوں کا ارتکاب کیا ہے، ان میں سابق نگران وزیراعلیٰ ،سابق چیف جسٹس افتخار چودھری، جسٹس (ر)رمدے اور جسٹس (ر)ریاض کیانی شامل ہیں۔ ہر چند کہ یہ افراد عام انتخابات میں دھاندلیوں میں مرتکب ہونے سے انکار کررہے ہیں ، لیکن عمران خان اور طاہرالقادری کا یہی اصرارہے کہ یہ لوگ دھاندلیاں کرانے اور انتخابات میں اثر انداز ہونے والوں میں شامل تھے، چنانچہ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جاوید ہاشمی عوام کی اس تاریخی تحریک کے خلاف ایک ایسی حکومت کے ساتھ وابستہ ہوجائیں گے جس کی عوام میں کریڈیبلٹی تقریباً ختم ہوچکی ہے ۔دوسری طرف وزیراعلیٰ پنچاب سے پاکستانیوں کی اکثر یت کا مطالبہ ہے کہ وہ استعفیٰ دیں اور ماڈل ٹائون کے14شہیدوں کے خون کا حساب دیں۔
جاوید ہاشمی صاحب ہماری تو دعا ہے کہ آپ جہاں رہیں صحت وسلامتی کے ساتھ رہیں لیکن آپ سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ نے اس تاریخی موڑ پر بے وفائی کی ہے ۔ بقول ایک شاعر ؎
ہے گرمیٔ گفتار بھی، لہجہ بھی ہے پرُ شور
واعظ کا سخن دل میں اتر کیوں نہیں جاتا