ہمارے سیاست دان اکثر معمولی معمولی معاملات اور مسائل پر ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے گڈ گورننس کا تصور ختم ہوجاتا ہے۔ ملک میں افراتفری پھیلنے لگتی ہے تو عوام فوج کی طرف دیکھتے ہیں، کیونکہ پاکستان کی سیاست میں ''استحکام عامل‘‘ فوج کا رہا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں معاشی ترقی کا بہترین دور فوجی حکومتوں سے وابستہ رہا ہے۔ آج کل ایک بار پھر پاکستان کے سیاست دانوں کے درمیان انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے ایشو پر کشیدگی پیدا ہوگئی ہے، جو پاکستان کی معاشی اور معاشرتی ترقی کو شدید متاثر کر رہی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر خود حکومت نے آئین کی شق 245کے تحت فوج کو اسلام آباد کی حفاظت کے لئے طلب کرلیا۔ کیونکہ حکومت کو خدشہ تھا کہ تحریک انصاف کے قائد جناب عمران خان اور عوامی تحریک کے کارکن اور جناب طاہرالقادری کے کارکن دارالحکومت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، اس طرح خود حکومت وقت نے فوج کو دارالحکومت کا نظم ونسق سنبھالنے کی دعوت دی‘ جسے فوج نے آئینی ذمہ داری نبھاتے ہوئے قبول کرلیالیکن بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی ہے، وزیرداخلہ چودھری نثار نے وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ وہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ معاملہ کو حل کرنے کے سلسلے میں فوج کے سربراہ جناب راحیل شریف کی خدمات حاصل کریں۔ میاں نواز شریف نے چودھری نثار کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف سے درخواست کی کہ وہ حکومت تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مابین مصالحت کا کوئی راستہ نکالیں؛ چنانچہ حکومت کی استدعا پر جنرل راحیل شریف نے ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان سے ملاقات کی اور ان کا نقطہ نظر سمجھنے کی کوشش کی۔ قوم پُر امید تھی کہ حکومت اور طاہرالقادری اور عمران خان کے درمیان جنرل راحیل شریف کی مصالحتی کوششوں سے کوئی حل نکل آئے گا، لیکن دوسرے دن میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ میں یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ انہوں نے جنرل راحیل شریف سے دھرنا دینے والوں کے ساتھ مصالحت کرانے کی کوئی استدعا نہیں کی۔ حالانکہ آئی ایس پی آر نے اپنی پریس ریلیز میں بڑی وضاحت سے یہ کہا تھا کہ حکومت نے آرمی چیف سے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے درمیان سہولت کاری کی درخواست کی تھی، اس طرح جھوٹ کا پول کھل گیا جس کی وجہ سے معاملات میں الجھائو پیدا ہوگیا۔ تاہم فوج کی جانب سے یہ عندیہ دیا جارہا ہے کہ وہ سیاست دانوں کے مابین جاری اس رسہ کشی میں فریقین نہیں بنیں گے، بلکہ بننا بھی نہیں چاہئے، کیونکہ فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کررہی ہے، جس قسم کا آپریشن سوات میں کیا گیا تھا ، فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بے پناہ جانی قربانیاں دی ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں اگر فوج دہشت گردوں کو چیلنج نہ کرتی تو صورتحال بہت زیادہ خراب ہوسکتی تھی۔ ان قربانیوں کے باوجود کچھ مفاد پرست سیاست دان فوج کو بد نام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دبے لفظوں کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹرطاہرالقادری اور عمران خان کے پس پشت فوج اورعدلیہ کھڑی ہے؛ حالانکہ فوج کے ترجمان اور عدلیہ دونوں نے اپنے اخباری بیانات میں ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ موجودہ صورتحال سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما جناب قمرزمان کائرہ نے بھی اپنے ایک بیان میں اُن عناصر کی مذمت کی ہے جو موجودہ صورتحال کے پیچھے فوج کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے
جاوید ہاشمی کے بیان کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ انہیں جاوید ہاشمی کے فوج کے متعلق بیان پر افسوس ہوا ہے۔ جاوید ہاشمی خود بھی فوجی اقتدار کی پیداوار ہیں اور انہیں ہر سیاسی تحریک کے پیچھے فوج کا ہاتھ نظر آتا ہے، یہ ایک ایسے شخص کی مثال ہے جو احساس جرم میں مبتلا ہے؛ حالانکہ جاوید ہاشمی کو اچھی طرح ادراک ہے کہ فوج موجودہ صورتحال میں نہ تو اقتدار میں آنے کا سوچ سکتی ہے اور نہ ہی فوج کی موجودہ قیادت کو اقتدار میںآنے کا کوئی شوق ہے۔ وہ پاکستان کو بچانے کے لئے شمالی وزیرستان سے لے کر بلوچستان تک ملک دشمن عناصر کو چیلنج کر رہی ہے۔ سیاست دان جب اپنے معاملات مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو وہ فوج کی طرف دیکھتے ہیں اور اشارے کنائے سے ان کی مدد کے طلب گار بھی ہوتے ہیں اور پھر اپنی کوتاہیوں کا الزام بھی فوج پر عائد کرتے ہیں یہ منافقت صرف پاکستانی سیاست میں دیکھنے میں آتی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ایک اچھا قدم اٹھایا، لیکن اس مشترکہ اجلاس میں جیسا کہ میں نے بالائی سطورمیں لکھا ہے کہ زیادہ تر تقریریں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف ہورہی ہیں اور فوج پر بھی جملے کسے جا رہے ہیں، حالانکہ اس موقع پر موجودہ کشیدہ صورتحال کو ختم کرنے اور اصلاح احوال کے سلسلے میں ٹھوس تجاویز پیش کی جانی چاہئے تھیں لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے بیشتر سیاست دانوں میں جس میں اعتراز احسن سرفہرست ہیں، انہوںنے یہ تسلیم کیا ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے میں دھاندلیاں ہوئی ہیں ، یہاں تک کے پی پی پی کے ووٹ بینک کو بھی چرایا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم مجبوراً حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں، حکومت نہیں جائے گی، حالانکہ اعتراز احسن کو چاہئے تھا کہ وہ مبینہ دھاندلیوں کے سلسلے میں ایک ایسا کمیشن تشکیل دینے کی تجویز پیش کرتے جو ایمانداری سے انتخابی دھاندلیوں سے متعلق چھان بین کرکے جلد از جلد اپنی رپوٹ پیش کرے تاکہ حقائق آجانے کی صورت میں آئندہ کے لائحہ عمل پرکام شروع کیاجائے، یعنی اگر وسیع پیمانے پر دھاندلیاں نہیں ہوئی ہیں تو حکومت کو کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے اور اگر دھاندلیاں ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے تو موجودہ حکومت کو مستعفی ہوکر وسط مدتی انتخابات کے انعقاد کی طرف جانا چاہئے۔ اسی طریقے پر عمل کرکے ہی موجودہ صورتحال میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ لیکن افسوس کہ اپنی کوتاہیوں اور حماقتوں کا بدلہ قومی ادارے کی کردار کشی سے لیا جارہاہے جو اپنی جگہ ایک افسوسناک بات ہے اور جس کا تمام تر فائدہ وطن دشمن عناصر کو مل رہا ہے، کیا یہی حب الوطنی ہے؟