یہ تو ہونا ہی تھا!

متحدہ قومی موومنٹ نے اتوار کی شب ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے ذریعہ عوام کو مطلع کیا کہ متحدہ پی پی پی کی صوبائی حکومت سے علیحدہ ہورہی ہے، اور شراکت ختم کررہی ہے، اور پیر کے روز شروع ہونے والے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھے گی۔ متحدہ کی اس ہنگامی پریس کانفرنس سے رابطہ کمیٹی کے رکن جناب خالد مقبول صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلاول زرداری جس طرح ایم کیو ایم کے قائد پر بے جا اور بلاوجہ تنقید کر رہے ہیں بلکہ دھمکی دے رہے ہیں، اس کے پیش نظر پی پی پی کے ساتھ چلنا مشکل ہوگیا ہے۔ خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ بلاول زرداری ذوالفقار علی بھٹو کے جانشین نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا پی پی پی کے چیئر مین کی حیثیت سے تقرر کسی بھی طرح جائز ہے۔ بھٹو کا وارث بھٹو ہی ہوسکتا ہے یعنی میر مرتضیٰ بھٹو کا بیٹا ذوالفقار جونیئر۔ انہوںنے بلاول زرداری کو مشورہ دیا کہ وہ پہلے ان عناصر کی زندگی اجیرن کردیں جنہوں نے ان کی والدہ محترمہ بے نظیر کو قتل کیا ہے، اور جن کے قاتلوں کا ابھی تک سراغ نہیںلگایا جاسکا۔ واضح رہے کہ بلاول زرداری نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ وہ الطاف حسین کا جینا حرام کردیں گے ، چنانچہ بلاول زرداری کی جانب سے اس قسم کے جملے ایم کیو ایم کے کارکنوں اور رہنمائوںکے لئے نا قابل برداشت ہوتے جارہے ہیں، خصوصیت کے ساتھ اس پس منظر میں کہ ایم کیو ایم سندھ اسمبلی میں ان کی حلیف جماعت تھی، اور اس کے کئی رہنما سندھ حکومت میں بہ حیثیت وزیر کام کررہے ہیں۔ بلاول زرداری کے نفرت انگیز جملوں کے علاوہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے سنیچر کے روز کراچی میں پی پی پی کے جلسہ عام سے قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے لفظ مہاجر، گالی لگتا ہے۔ ان کے اس جملے نے بھی ایم کیو ایم کے کارکنوں کے علاوہ ایک عام اردو بولنے والوںکے جذبات کو شدید مجروح کیا تھا، حالانکہ بعد میں خورشید شاہ نے معافی مانگ لی تھی اور ندامت کا اظہار بھی کیا تھا، لیکن Damage was done۔ مزید برآں بلاول زرداری کی جانب سے جس تسلسل کے ساتھ ایم کیو ایم کی تذلیل کی جارہی ہے‘ اس سے ایک ہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خود پی پی پی نہیں چاہتی کہ ایم کیو ایم کے ساتھ آئندہ کسی قسم کا سیاسی الحاق قائم رکھا جائے۔ آخر بلاول زرداری کی جانب سے ایم کیو ایم کے خلاف عداوت اور نفرت سے بھر پور جملوں کا استعمال کس سوچ اور ذہنیت کی غمازی کررہا ہے؟ اور ان کو کون اکسا رہا ہے؟ اس کے علاوہ ایک اور بڑا سبب جو پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان دوری کا باعث بنا ہے‘ وہ سندھ میں مزید صوبوں کے قیام کا مطالبہ ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین عرصۂ دراز سے سندھ میں مزید صوبوں (انتظامی یونٹس) کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس مطالبے کی سندھ کے عوام کی اکثریت حمایت کررہی ہے جس میں سندھی بھی شامل ہیں جنہیں وڈیروں اور جاگیرداروں نے استبداد اور ظلم وجبر کے ذریعہ معاشی وسماجی طورپرغلام بنا رکھا ہے۔ دوسری طرف پی پی پی (جو وڈیروں کی نمائندگی کرتی ہے) سندھ میں مزید صوبوں کے قیام کی مخالفت کررہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ سندھ میں ایک یا دو نئے صوبے‘ ''مہاجر صوبہ‘‘ بنانے کی طرف پیش رفت ہوگی، حالانکہ ایم کیو ایم کی سوچ اس کے بر عکس ہے اور ان کا یہ مطالبہ ہے کہ انتظامی بنیادوں پر سندھ میں مزید صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے لسانی بنیادوں پر نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ ڈاکٹر قادری بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں آٹھ نئے صوبوں کے قیام کے اشارہ دیا ہے جس میں سرائیکی صوبہ بھی شامل ہے بلکہ ان کے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ سارے پاکستان میں بیس کے قریب صوبے بننے چاہئیں۔ بھارت میں بھی تقسیم ہند کے بعد اب تک 36صوبے بن چکے ہیں جبکہ آزادی سے قبل وہاں صرف آٹھ صوبے تھے۔ دراصل بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اور اس کے ساتھ عوام کی معاشی وسماجی ضروریات کی طلب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، مزیدصوبوں کاقیام وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ صوبہ سندھ سمیت پاکستان میں مزید صوبوں کے قیام کا مطالبہ آج سے چالیس سال قبل مرزا جواد بیگ نے پیش کیا تھا جبکہ اس وقت آبادی کا دبائو اتنا زیادہ نہیں تھا۔ اس وقت بھٹو مرحوم پاکستان کے وزیراعظم تھے اور پاکستان اپنوں اور اغیار کی ریشہ دواینوں کے سبب ٹوٹ چکا تھا۔ بھٹو صاحب کو بیگ صاحب کی یہ تجویز انتہائی ناگوار گزری۔ انہوں نے بیگ صاحب کو ایک عدالت کے ذریعہ چودہ سال کی سزا سنوائی جو بعد میں عمر قید میں بدل دی گئی، لیکن اتنی سخت سزا ملنے کے باوجود مرزا جواد بیگ اپنے مطالبے پر قائم رہے۔ بعد میں انہوں نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی‘ جہاں خاصی بحث کے بعد انہیں با عزت طورپر بری کردیا گیا۔ دراصل سندھ میں پی پی پی کی حکومت کسی بھی صورت میں عوام کو ان کا معاشی‘ سماجی و تعلیمی حق نہیںدینا چاہتی۔ وہ وڈیروں کے ذریعہ اندرون سندھ سے ووٹ حاصل کرتی ہے، اور انہی کے مسائل حل کرنے میں اپنی مدت پوری کرلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی سندھ کے عوام میں بلوچستان سے بھی زیادہ تکلیف دہ حد تک غربت وافلاس پائی جاتی ہے۔ پی پی پی گزشتہ چالیس سال سے وقتافوقتاً اقتدار میں براجمان رہی ہے لیکن اس نے کبھی بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اور کرانے کا سوچاتک نہیں۔ اس طرح جمہوریت کی کھلی نفی کرتے ہوئے اقتدار کو نچلی سطح تک منتقل نہیں کیا بلکہ انگریزوں کے قائم کردہ کمشنری نظام کے ذریعہ سندھ اور دیگر صوبوں کے معاملات چلانے کی کوشش کی‘ جس کی وجہ سے ہر سطح پر عوامی حلقوں میں سماجی ومعاشرتی بے چینی پائی جاتی۔ اسی وجہ سے صوبہ سند ھ سنگین جرائم کا مرکز بن چکا ہے اور گورننس نام کی بھی کوئی چیز وہاں موجود نہیں۔ اس پس منظر میں اگر ایم کیو ایم سندھ میں ایک یا دو نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ کررہی ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ کیوں پی پی پی اس مطالبے سے خوف زدہ ہو جاتی ہے؟ اور کیوں وہ عوام کو ان کا آئینی حق دینے سے گریزاں ہے؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ اگر سندھ میں مزید صوبے بن گئے تو پی پی پی کی سندھ کے عوام پر چودھراہٹ ختم ہوجائے گی، اور سندھ کے غریب عوام کو ان کا معاشی وسماجی حقوق میسر آ سکیں گے، موجودہ نظام کے تحت انہیں سوائے غربت اور محرومیوں کے اور کچھ نہیں ملے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں