27اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط اور ظلم و جبر کے خلاف یوم سیا ہ منایا گیا۔ اس دن مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال تھی جبکہ یورپ اور امریکہ میں آباد کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد نے جلسے اور جلوس منعقد کئے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔ لندن میں کشمیریوں کے حق میں ملین مارچ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں وہاں مقیم کشمیریوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مقررین نے عہد کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میںآزادی کی تحریک کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق نہیں مل جاتا۔ بھارت کشمیریوں کے حق کو تسلیم نہیںکرتا اور وہ مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ فوج اور پولیس کے ذریعے کشمیری عوام کی آزادی کی تحریک کو دبانے کی کوشش کررہا ہے۔ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے سلسلے میں پاکستان نے کئی مرتبہ کوششیں کیں اورجنگ کا راستہ بھی اختیار کرنا پڑا ، لیکن یہ مسئلہ ہنوز اپنی جگہ موجود ہے‘ جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے ان دو بڑے ملکوں کے درمیان پائیدار امن قائم نہیں ہوسکا ہے اور بعض اوقات روایتی کے ساتھ ایٹمی جنگ کا بھی خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ اگر کشمیر کے مسئلہ کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ خطہ ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ اگر ایسا ہواتو دونوں ملک تباہ ہوجائیں گے اور ایٹمی جنگ کے اثرات مدتوں تک اس خطے میں زندہ رہنے والوں کے لیے بے پناہ مسائل کا سبب بنتے رہیں گے‘ جیسا کہ جاپان کے عوام ابھی تک تکلیف دہ صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ میں نے گزشتہ کالموں میں لکھا تھا کہ نریندرمودی اس مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے نہیں بلکہ طاقت کے ذریعہ حل کرنا چاہتا ہے اور اس کے اس جنگی جنون پر مبنی خیالات سے بھارت اور پاکستان کا باشعور طبقہ اچھی طرح واقف ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اور شملہ معاہدے کے تحت مسئلہ کشمیربھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ ایشو ہے‘ جو مذاکرات کے ذریعہ حل ہونا چاہئے، جبکہ اس تنازع کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں نہ تو بہتری آئی ہے اورنہ ہی پائیدار امن کے امکانات پیدا ہوسکے ہیں۔ نریندرمودی کی انتہا پسند ی اور جنگی جنون نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے مزید دور کردیا ہے۔ ماحول میں غیر معمولی تلخی پیدا ہونے کے سبب جنگی صورتحال پیدا ہورہی ہے۔ اس پس منظر میں نریندرمودی نے تیسری بار مقبوضہ کشمیر اور سیاچن کا دورہ کیا اور وہاں موجود فوجی کمانڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے اس دورے سے یقینا بھارتی فوج میں موجود انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے عناصر کو تقویت مل رہی ہے جو پاکستان سے جنگ لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ انہیں اس بات کا ادراک نہیں کہ یہ جنگ کتنی ہولناک اور خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
نریندرمودی کی کشمیر پالیسی سے متعلق پیدا کردہ صورتحال کا دوسرا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ بھارت کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت میں اپنا حصہ ڈال کر نہ صرف زیادہ منافع کمانا چاہتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں نریندرمودی کی گجرات سے متعلق معاشی پالیسیوں کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا جارہا تھا حالانکہ بھارت میں دیگر دو تین ریاستوں نے گجرات سے کہیں زیادہ معاشی ترقی کی‘ جن میں بہاربھی شامل ہے لیکن گذشتہ سال بھارت کے عام انتخابات میںانتہا پسند ہندئوں اور منافع خور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ سے نریندرمودی کو جتوایا گیا‘ اگرچہ انہیں پورے بھارت سے 37فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے‘ نہ ہی بھارت کی اکثریت نے ان کی انتہا پسندانہ پالیسوں کی حمایت کی ہے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ امریکہ نے 2005ء میں نریندر مودی کو امریکہ کا ویزا دینے سے انکار کردیا تھا اور گجرات میں 2002ء میں مسلمانوں کے قتل عام کا ذمہ دار گردانتے ہوئے دہشت گرد قرار دیا تھا‘ لیکن اب امریکہ سمیت
تمام مغربی ممالک ان کو معاشی ترقی کی علامت بنا کر ان کے ساتھ سیاسی ومعاشی تعلقات قائم کرنے میں سرگرمی دکھا رہے ہیں۔ مغربی ممالک کی جانب سے نریندرمودی کی حمایت نے پاکستان کے خلاف جنون پر مبنی خیالات اور جذبے کو بہت زیادہ ابھاراہے جبکہ بھارت کی تمام انتہا پسند تنظیمیں انہیں پاکستان کے خلاف جنگ کرنے پر اکسا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی بار بار مقبوضہ کشمیر اور سیاچن کا دورہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کی حکومت‘ خصوصیت کے ساتھ عسکری قیادت نریندرمودی کی اس سوچ سے بخوبی واقف ہے‘ نریندر مودی کی باڈی لینگوئج سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ وہ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف کس حد تک جانے کو تیار ہیں۔ پاکستان کو اس موقع پر اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کردینی چاہئیں۔ خصوصیت کے ساتھ مغربی ممالک کے علاوہ چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے تمام ممالک کو نریندرمودی کے جنگی جنون کو بے نقاب کرنا چاہئے کیونکہ روایتی جنگ یا پھر ایٹمی جنگ‘ دونوں کی صورت میں ان ممالک پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر ہویا پھر بھارت کے ساتھ دوستانہ مراسم کو بحال کرنے کا معاملہ پاکستان ہر صورت میںجنگ سے پرہیز کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل پرمذاکرات کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ اس کا اظہار ہر فورم پر
پاکستان کے نمائندوں کی جانب سے کیا جارہا ہے ، لیکن بھارت کا وزیراعظم جنگی جنون میںمبتلا ہوکر بات چیت کے سارے راستے بند کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اگر مغربی ممالک ملالہ کے ذریعہ بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کو نوبیل انعام کی پُروقار تقریب کے موقع پر بلاسکتے ہیںتو وہ کیوں جنوبی ایشیا میں جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات کو ٹالنے میں اپنا موثر کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ کیا وہ اپنی ہتھیار ساز فیکٹریوں کو پاک بھارت جنگ کے ذریعہ زیادہ فعال بنا کر عوام کے خون سے منافع کمانے کا ارادہ رکھتے ہیں جیسا کہ انہوںنے مشرق وسطیٰ میں کیا اور اب بھی کررہے ہیں؟ اس لئے مغربی ممالک کو بھارت کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور بھارت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے اس خطے میں امن کے کاز کو تقویت پہنچانے کی کوششوں کو بروئے کار لانا چاہئے تاکہ اس انتہائی حساس خطے میں مذاکرات کے ذریعہ امن کی راہ ہموار ہوسکے۔ نریندرمودی جنگ کے ذریعے اگر کشمیر کو ہڑپ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اس طرح پورے بھارت میں افراتفری پھیل جائے گی‘ جہاں نہ کوئی حکومت ہوگی اور نہ ہی کوئی حکومت کرنے والا۔ اس لئے نریندرمودی کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور جنگی جنون کے راستے کو ترک کرکے امن کے راستے پر گامزن ہونے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ جنگ کی جگہ پاک بھارت تعلقات میں امن کے امکانات پیدا ہوسکیں۔ اسی طرز عمل میں دونوں ملکوں میں عافیت کا راز مضمر ہے۔