اس ہفتہ مجھے اسلام آباد میں پاپولیشن کونسل کے تحت ہونے والی میڈیا ورک شاپ میں شرکت کرنے کا موقع ملا ۔ اس سے قبل پاپو لیشن کونسل کے ارکان سے کراچی میں ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں جن کے ذریعہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ پاکستان کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان میں آبادی کی شرح 3.2سالانہ سے کم ہو کر 2.3ہوگئی ہے جبکہ بعض این جی اوزکا خیال ہے کہ آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے ۔اس وقت پاکستان کی مجموعی آبادی 200ملین کے قریب ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ بہر حال پاکستان میں مجموعی آبادی سے متعلق خاصا تضاد پایا جاتا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں 1998ء کے بعد سے کسی بھی قسم کی مردم شماری نہیں ہوئی جس کی وجہ سے مجموعی آبادی کے بارے میں حتمی طورپر کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔خصوصیت کے ساتھ دیہات میں فی خاندان آٹھ بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ والدین کے پاس ان بچوں کو تعلیم ، صحت، اورصاف پانی مہیا کرنے کے سلسلے میں کوئی بندوبست نہیں ہوتا ۔ حکومت پاکستان صحت اور تعلیم کی مد میں 2فیصد سے زائدخرچ نہیں کرتی ، یہی وجہ ہے کہ دیہات میں سکول اور شفا خانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ خصوصیت کے ساتھ دیہات میں خواتین کی صحت کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے کوئی معقول بندوبست نہیں کیا گیا۔ قارئین کو یہ پڑھ کر بڑی حیرت ہوگی کہ پاکستان میں ہر سال 14ہزار خواتین زچگی کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ اس طرح کے سروے کے مطابق ہر روز 39عورتیں بچہ پیدا کرنے کے دوران مالک حقیقی کے پاس چلی جاتی ہیں ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی صحت کے شعبے میں کارکردگی انتہائی ناقص ہے ۔ زچگی کے دوران ان عورتوں کو ضروری طبی سہولتیں نہیں ملتیں، دوسری طرف خاندانی منصوبہ بندی کے سلسلے میں حکومت کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اسلامی ملکوں میں وہ واحدملک ہے جہاں زچگی کے دوران سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ دیگر اسلامی ملکوں مثلاً انڈونیشیا، ایران، بنگلہ دیش ، ترکی وغیرہ میںیہ شرح بہت کم ہے نیز ان اسلامی ملکوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے ضمن میں انتہائی قابل عمل اقدامات اٹھائے ہیں، جس سے وہاں بڑھتی ہوئی آبادی کو روکا گیا ہے بلکہ صحت کے شعبہ کو زیادہ بہتر اور فعال بنا کر زچہ اور بچہ کی صحت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔اس طرح شرح اموات کو بہت کم کردیا گیا ہے۔ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کو اختیار کرنے اور آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو کو کم کرنے کے سلسلے میں بڑی نیم دلی سے کام لیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آبادی بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔اس کے برعکس معاشی ترقی کی رفتارانتہائی سست ہے جس کی وجہ سے عوام میں معاشی محرومیوںمیں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔اس وقت پاکستان کی مجموعی اقتصادی شرح نمو3.2فیصد سے زیادہ نہیں ہے جوکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی بنیادی ضروریات کوپوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ، مزید برآں اس کمزور اقتصادی ترقی کے باوجود پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے سیاست دان کرپشن کرکے اربوں روپے اپنی جیبوں میں بھر لیتے ہیں جس میں ان کی معاونت کرنے میں بیورو کریسی پیش پیش ہوتی ہے۔اس طرح عوام کے ایک بڑے طبقے کو معاشی تحفظ حاصل نہیں ہے ۔جیسا کہ میں نے پہلے لکھا ہے کہ شہروں سے زیادہ دیہات میں آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے،حالانکہ پاپو لیشن کونسل جیسا ادارہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی سے متعلق بہت موثر کام کررہا ہے، جس کی حکومت پاکستان کے علاوہ عالمی سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ پاپولیشن کونسل کے علاوہ حکومت پاکستان اب خاندانی منصوبہ بندی کے ادارے کو فعال بنانے کی کوشش کررہی ہے اور آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو سے متعلق عوام کو معلومات فراہم کررہی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ لیڈی ہیلتھ ورکرز دیہات میں جاکر عورتوں کو کم بچہ پیدا کرنے کی ترغیب دے رہی ہیں جس کا بہت اچھا نتیجہ نکل رہا ہے جبکہ مرد حضرات کو بھی
سمجھایا جاتا ہے کہ کس طرح ایک چھوٹا خاندان یعنی کم بچے گھریلو خوشی اور سکون کا باعث بنتے ہیں۔ مرد اور عورت دونوں کو سمجھایاجاتا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں اور اصولوں کو اختیار کرنے سے گھریلو اخراجات بھی کم ہوئے ہیں، پاکستان میں اب اکثر علمائے کرام عورت اور مرد دونوں کو کم بچے پیدا کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔ ایران، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ترکی نے علمائے کرام کی خدمات حاصل کرکے خاندانی منصوبہ بندی کو موثر طورپر اختیار کرکے اپنی آبادی کو کم کیا ہے جس سے ان ملکوں میں معاشی خوشحالی جابجا نظر آتی ہے اور عمروں میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔پاکستان میں اس وقت ایک محتاط سروے کے مطابق 9کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے انتہائی محرومی، بیچارگی اور مایوسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ تقریباً ڈھائی کروڑ بچے پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہات میں مارے مارے پھررہے ہیںجن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ والدین بھی غربت اور افلاس کی وجہ سے ان کی دیکھ بحال کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مناسب طبی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔دنیا بھر میں بچوں کی اموات کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے ۔یہ صورتحال انتہائی شرمناک ہونے کے ساتھ تشویشناک بھی ہے جس کا تدارک کرنے میں ماضی اور موجودہ
حکومت دونوں بری طرح ناکام نظر آتی ہیں۔ دراصل موجودہ حکومت سمیت بیشتر حکومتوں نے آبادی کی منصوبہ بندی اورمعاشی ترقی کے مابین تناسب اور اعتدال پیدا کرنے کی کوشش نہیںکی۔ لیاقت علی خان کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے 1950-51ء کے درمیان خاندانی منصوبہ بندی اور خواتین کو معاشی طورپر با اختیار بنانے کے سلسلے میں ''اپوا‘‘کا ادارہ قائم کیا تھا، جس کی وجہ سے خواتین کو بے پناہ فوائد حاصل ہوتے تھے۔ بہت عرصے بعد 1965ء میں فیلڈمارشل ایوب خان کی حکومت نے خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا تھا جس سے آبادی کی منصوبہ بندی کرنے سے متعلق خیالات کی معاشرے میں غیر معمولی تشہیر کی گئی تھی۔ اس ضمن میںاب اقتصادی ماہرین نے بھی آبادی کے بڑھتے ہوئے نقصانات سے عوام کو آگاہ کرنا شروع کردیا ہے۔ پاپو لیشن کونسل کی جانب سے میڈیا سے متعلق یہ ورکشاپ بہت معلوماتی ثابت ہو ئی ہے ۔آئندہ بھی میڈیا کے لئے ایسے سیمینار ہوتے رہنے چاہئیں تاکہ پاکستان میں آبادی کے پھیلائو سے متعلق عوام میں جانکاری پیدا کی جاسکے، پہلی مرتبہ میڈیا کے نمائندوں کو اس بات کا ادراک ہوا ہے کہ کس طرح پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے وسائل کے منفی اثرات سے سماج میں سنگین جرائم پیدا ہورہے ہیں اور یہ بھی احساس ہوا ہے کہ اگر بڑھتی ہوئی آبادی کو روکا نہیں گیا تو معاشرے میں کبھی بھی معاشی وسیاسی استحکام پیدا نہیں ہوسکے گا بلکہ معاشرے کے مختلف طبقوں کے درمیان معاشی وسائل کے حصول کیلئے خانہ جنگی کے آثار بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔