''دوقومی نظریہ‘‘کی بنیاد پر تحریک پاکستان اور حصول پاکستان کی پُرجوش عوامی تحریک قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں شروع کی گئی تھی اور جو 1940ء میں قرارداد لاہور کے بعد صرف سات برسوں کے دوران قیام پاکستان پر منتج ہوئی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے بہت پہلے سرسید احمد خان غیر منقسم ہندوستان میں دو قومی نظریہ پیش کر چکے تھے۔ انہوں نے یہ نظریہ اس لئے پیش کیا تھا کہ خود انہیں یعنی سرسید احمد خان کو ہندوئوں کی تنگ نظری ، تنگ دلی اور تنگ سوچ کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کا انہوںنے اپنی مضامین میں ذکر کیا ہے، اگر غیر منقسم ہندوستان میں ہندوئوں کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا ہوتا تو یقینا دوقومی نظریے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتاتھا۔ خودقائد اعظم نے تیرہ سال کانگریس کے رکن کی حیثیت سے ہندوستان کی دوبڑی قوموں یعنی ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی بہت زیادہ کوششیں کی تھیں۔ ان کی ان کوششوں کو اقلیتی فرقوں نے بہت سراہا تھا اور انہیں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا لقب بھی دیا تھا۔ کانگریس میں قائد اعظم کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا جاتا تھا، اس کا احوال بھارت اور پاکستان میں شائع ہونے والی بہت سی کتابوں کے مطالعے سے کیا جاسکتا ہے (خصوصیت کے ساتھ جسونت کی کتاب)؛ چنانچہ قائد اعظم نے بہ حالت مجبوری کانگریس کو خیر باد کہہ کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی، آئینی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اگر کانگریس اور دیگر ہندو تنظیموں کے نیتا مسلمانوں کے حقوق کے لیے ان کا ساتھ دیتے تو دوقومی نظریے کا تصور کبھی نہیںابھرتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ خاص طور سے 1937ء میں جب کانگریس کو انتخابات میںمسلم لیگ کے مقابلے میں کامیابی حاصل ہوئی تو کانگریس کا مسلم لیگ اور مسلمانوں سے رویہ انتہائی مخاصمانہ تھا، یہاں تک کہ آنجہانی نہرو نے مسلم لیگ کے دووزیر بھی کابینہ میںشامل کرنے کے مطالبے کو نہایت ہی حقارت سے مسترد کردیا تھا۔ آج بھی آزاد بھارت کے باسیوں اور ان کے رہنمائوں کے ذہنوں میں پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف کیا سوچ اور رویہ پایا جاتا ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت دہلی اور اس کے گردو نواح میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے ہیں‘ جن میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے علاوہ ان کی جائیدادوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ کئی روز سے جاری ہے‘ بلکہ نا قابل تردید حقیقت یہ ہے کہ جب سے انتہا پسند وزیر اعظم مودی بھارت کا وزیراعظم منتخب ہوا ہے، اس کی مسلمان دشمن اور پاکستان دشمن سوچ سے بھارتی سماج میں انتہا پسند سوچ کو غیر معمولی تقویت حاصل ہورہی ہے جو اس خطے میں قیامِ امن کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ مودی اور اس کی سوچ سے وابستہ انتہا پسند ہندو تنظیموں کا بس نہیں چل رہا کہ وہ پاکستان پر جنگ مسلط کرکے اس کو (خاکم بدہن) بھارت کا حصہ بنالیں۔
چنانچہ تحریک پاکستان کے حقائق کے علاوہ قائداعظم محمد علی جناح ، لیاقت علی خان، علامہ اقبال، اور دیگر اکابرین کے سیاسی و تمدنی افکار ‘ تمام تر سیاق وسباق اور حوالوں کے ساتھ تاریخ میں شامل کرنے کی بہت ضرورت ہے، کیونکہ اس وقت پاکستان میںایسے گروہ پیدا ہوچکے ہیں، جو نہ صرف تحریک پاکستان بلکہ قیام پاکستان کے بھی خلاف ہیں اور بھارت کی مالی مدد سے وہ دو قومی نظریے کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کے خلاف کام کررہے ہیں؛ تاہم‘ پاکستان میں ایسے افراد کی کمی نہیں‘ جنہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا بلکہ اس سے متعلق کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان کتابوں کی مدد سے پاکستان کی تحریک سے متعلق حقائق کو ایک جگہ جمع کرکے نئی کتابیں لکھنی چاہئیں تاکہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کو تحریک پاکستان کے اصل مقاصد سے آگاہ کیا جاسکے۔ پاکستان کی تخلیق سے متعلق ایسی کتابوں کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے تحریک پاکستان کے مقاصد اور قائد اعظم کے افکار کو پس پشت ڈال دیا ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان میں اس وقت سیاسی و معاشی افراتفری پائی جاتی ہے۔ اس افراتفری سے پاکستان دشمن طاقتیں بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں اور موجودہ نسل کے سامنے قیام پاکستان کے اغراض ومقاصد کو غلط انداز میں پیش کرکے انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؛ نیز یہ بتایا جارہا ہے کہ بھارت نے غیر معمولی معاشی ترقی کی ہے اور اپنے عوام کو معاشی فوائد پہنچائے ہیں۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے، لیکن اس وقت بھی بھارت کی نصف سے زائد آبادی خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، جبکہ وہاں کے سیاست دانوں اور بیوروکریسی میں کرپشن کا وہی حال ہے جو پاکستان کے حکمرانوں اور بیوروکریسی کا ہے۔ اس وقت بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو مختلف ذرائع سے سب سے زیادہ مہلک ہتھیار خرید رہا ہے، جس کی وجہ سے بھارتی سماج میں مزید محرومی کے آثار پیدا ہورہے ہیں۔ تحریک پاکستان سے متعلق نئی کتابوں کا احاطۂ تحریر میں آنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ بھارت میں آج کل تحریک پاکستان سے متعلق اور مسلمانوں کے خلاف جو کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں، ان میںمسلمانوں کو ''لٹیرااور ڈاکو‘‘ کے لقب سے یاد کیا جارہا ہے، اور بھارت کی موجودہ نسل کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مسلمانوں نے بھارت پر زبردستی قبضہ کرکے ایک ہزار سال حکومت کی تھی۔ بھارت میں اس قسم کی شائع ہونے والی کتابوں کی وجہ سے بھارت کے 25کروڑ مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ اس تکلیف دہ صورتحال کے بارے تفصیلات جاننے کے لیے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سچّر کی کتاب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ آزاد بھارت میںکتنا بھیانک سلوک کیا جارہا ہے‘ حتیٰ کہ ان کی حیثیت ہریجن سے بھی کم ہو گئی ہے۔
بھارت کے مورخ یہ بتانے سے گریز کررہے ہیںکہ مسلمانوں کے تمام سلاطین مذہبی رواداری کی منہ بولتی تصویر تھے۔ انہوںنے کبھی ہندوئوں کی مذہبی اقدارکو نہ چھیڑا۔ قطب الدین ایبک سے لے کر مغل بادشاہوں تک نے اپنے روزنامچوں میں ہندوئوں کے تہواروں اور مذہبی عقائد کا ذکر بڑے احترام کے ساتھ کیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تاکید کی تھی کہ وہ بھی ان کے مذہبی عقائد اور اقدارکا دل سے احترام کریں، تاکہ بھارتی سماج میں بھائی چارہ فروغ پاسکے۔ اکبر بادشاہ نے عملی طورپر ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان سماجی رواداری اور مفاہمت پیدا کرنے کے سلسلے میں جو اقدامات کیے‘ آج بھی آزاد بھارت میں ان کا ذکر شاندار الفاظ میں کیا جاتا ہے۔ بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ تحریک پاکستان سے متعلق کتابوں میں دو قومی نظریے کی اہمیت اُجاگر کی جائے اور اس خطے کی تاریخ کے تمام تر حوالوں کے ساتھ نئی نسل کو یہ بات ذہن نشین کرائی جائے کہ ہندوستان اور پاکستان دو آزاد ملک ہیں اور وہ اپنے جغرافیائی اور تہذیبی حدود میں رہتے ہوئے امن اور انسانیت کے فروغ کے لئے کام کرسکتے ہیں۔