وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے گذشتہ ہفتے چین کا ساٹھ گھنٹے کا دورہ کیا۔ انہوں نے چینی صدر اور سربراہ حکومت سے ملاقاتیں کیں‘ جن میں باہمی اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے سلسلے میں تفصیلی بات چیت ہوئی۔ یہ طے پایا کہ چین آئندہ برسوں میں پاکستان میں 45 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ زیادہ تر سرمایہ کاری توانائی کے شعبے میں ہو گی۔ کچھ رقم انفراسٹرکچر کی از سر نو تعمیر پر خرچ کی جا سکے گی۔ واضح رہے کہ 45 بلین ڈالر کی یہ رقم قرض کی صورت میں نہیں مل رہی بلکہ یہ ایک طرح کی غیرملکی سرمایہ کاری ہے۔ یہ رقم چین خود اپنی نگرانی میں پاکستانی حکومت اور نجی شعبے کے ذمہ داروں کے مشوروں سے خرچ کرے گا۔ یہ رقم کب آئے گی اور پاکستان کے کن شعبوں اور علاقوں میں خرچ کی جائے گی، اس کا ابھی تک پوری طرح اور واضح طور پر تعین نہیں ہو سکا ہے، اس لئے میرے خیال میں پاکستان کی بھوکی اور ننگی قوم کو بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کی بیشتر حکومتوں نے اقتصادی ترقی کے حصول کے لئے غیر ملکی امداد پر انحصار کیا‘ اس کے باوجود مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے۔ ہمارے حکمرانوں نے محنت کر کے ملک میں موجود وافر قدرتی وسائل استعمال میں لانے کی زحمت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ بیش قدر اور وافر قدرتی وسائل کے مالک ہونے کے باوجود ہم ایک بھکاری قوم بن چکے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھیک کی صورت میں حاصل ہونے والی رقم کا بیشتر حصہ کرپٹ اور عیار سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ حکمرانوںکی ان خودغرضیوں اور نااہلیوں کی وجہ سے پاکستان میں غربت کا گراف مسلسل اونچا ہوتا جا رہا ہے۔ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور آبادی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر پاکستانی اقتصادیات کی یہی صورتحال رہی تو آئندہ برسوں میں غربت میں بھیانک انداز میں اضافہ ہو گا، جو پاکستانی معاشرے میں مزید سماجی افراتفری کا باعث بنے گا‘ اس لئے میرے خیال میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے چینی حکام کے ساتھ چند ایم او یوز پر دستخط کئے ہیں تو اس پر بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں‘ نہ ہی اسے حکومت کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔
بعض ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ چین نے 45 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کو ایسٹ ترکستان موومنٹ سے مشرو ط کر دیا ہے۔ حالیہ برسوں میں ترکستان موومنٹ نے چین کے مغربی حصوں‘ جس میں کاشغر بھی شامل ہے‘ میں بے حد مسائل پیدا کیے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق اس تحریک کے جنگجوئوں نے گذشتہ تین ماہ کے اندر دو سو چینیوں کو قتل کیا۔ سرکاری اور نجی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ پتہ چلا ہے کہ چینی صدر نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اس دہشت گرد تنظیم کے بارے میں بھی بڑی تفصیل سے آگاہ کیا۔ چینی قیادت کو شبہ ہے کہ ترکستان تحریک کے دہشت گردوں کو فاٹا کے بعض علاقوں سے نہ صرف مدد مل رہی ہے بلکہ وہاں انہیں تربیت بھی دی جاتی ہے۔ ایک مستند اطلاع کے مطابق چینی صدر نے میاں صاحب سے زور دے کر کہا ہے کہ وہ اس دہشت گرد تنظیم کی مذموم کارروائیاں روکنے کے سلسلے میں ان کے ملک کی مدد کریں اور ایسے تمام علاقوں سے انہیں بے دخل کر دیں جہاں سے یہ عناصر چین کے مغربی حصوں میں حملے کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے چینی صدر کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس سلسلے میں چین کے ساتھ تعاون کریں گے۔ انہوں نے چینی صدر کو آپریشن ضرب عضب کے بارے میں بھی تفصیل کے ساتھ بتایا کہ کس طرح افواج پاکستان شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہیں اور ان کا صفایا کر رہی ہیں۔ انہوں نے پورے یقین سے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی آئندہ بھی جاری رہے گی۔ وزیر اعظم نے بالکل ٹھیک کہا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ فی زمانہ پاکستان خود دہشت گردی کا
شکار ہے۔ بھارت اور افغانستان دونوں باہم مل کر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں‘ امن و امان تباہ کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ گذشتہ دس پندرہ سالوں سے جاری ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کی معیشت شدید متاثر ہوئی اور ملک بھی عدم استحکام سے دوچار ہو رہا ہے۔ اس ساری خراب صورتحال کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاست دانوں کے پاس ملک کو معاشی و سماجی طور پر مضبوط بنانے کے ضمن میں کوئی ویژن نہیں ہے۔ آج بھی حکومت ماضی کی حکومتوں کی طرح قرض لے کر مملکت کا کاروبار چلا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ نسل حتیٰ کہ آنے والی نسلیں بھی بے پناہ قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہیں۔ یہ قرضے ہمیں سود کے ساتھ واپس کرنے ہوں گے۔ کیا سیاست دانوں کے ذہنوں میں ایسا کوئی تصور یا پروگرام ہے کہ یہ قرضے کس طرح واپس کئے جائیں گے؟ اور کیا وہ پاکستان کی معیشت‘ جس پر کرپٹ عناصر کا قبضہ ہے‘ کو قرضوں کی لعنت سے نجات دلا سکیں گے؟ یہ بہت اہم سوال ہے‘ جس کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے۔
انہی وجوہ کی بنا پر میرا خیال ہے کہ ہمیں بیرونی سرمایہ کاری سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ چینی صدر اور ان کی حکومت کے بعض ارکان نے کئی بار پاکستان کی سیاسی قیادت کو یہ مشورہ دیا کہ وہ خود اپنی اصلاح کرتے ہوئے ملک کے معاشی و سماجی حالات سدھارنے کیلئے کمربستہ کیوں نہیں ہوتے؟ انہوںنے یہ بھی باور کرایا کہ کرپشن اور ترقی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔ دراصل چین کے ساتھ تمام تر دوستی اور خوشگوار باہمی تعلقات کے باوجود چینی قیادت کے پاکستان میں گورننس کے حوالے سے بعض تحفظات ہیں‘ جس میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کی مجموعی ترقی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ چین یقینا پاکستان کا ایک قابل اعتماد دوست ہے، لیکن اس دوستی کو Taken for granted نہیں لینا چاہئے۔ سیاسی و فوجی قیادت اور بیوروکریسی کو مل کر پاکستان کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ کی حکمت عملی تشکیل دینی چاہئے اور پھر اس پر تمام تر ملی جذبوں کے ساتھ عمل بھی کرنا چاہئے۔ بصورت دیگر ہم اپنی معیشت کو چلانے کے لئے غیروں سے بھیک مانگتے رہیں گے۔ اس صورت میں غربت میں بھی مزید اضافہ ہو گا اور سماجی جرائم بڑھنے کے ساتھ معاشرے میں غیرمعمولی افراتفری شروع ہو سکتی ہے، جو سیاسی ماحول کو مزید تلخ اور خراب کر سکتی ہے۔ چین کی طرف سے پاکستان میں آئندہ برسوں میں 45 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ضرور آنی چاہئے لیکن ہمیں اپنے داخلی معاملات ٹھیک کرنے پر خود بھی توجہ دینی چاہیے ورنہ بھیک مانگ کر گزارا کرنا ہمارا مقدر بن جائے گا جیسا کہ اس وقت ہو رہا ہے اور بعد میں ہمارے لیے یہ قرض اتارنا مشکل ہو جائے گا۔