حکومت کیا چاہتی ہے؟

عمران خان نے 30نومبرکو اسلام آباد میں تاریخی احتجاج کا اعلان کیا ہے جس میںوہ اپنے آئندہ کا لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ بقول اُن کے یہ احتجاج پر امن اور جمہوری روایات کے عین مطابق ہوگا۔ لیکن حکومت عمرا ن خان کی ان یقین دہانیوں پر اعتماد نہیں کررہی ہے؛ بلکہ اطلاعات کے مطابق وہ غیر سیاسی‘ غیر جمہوری اور غیر آئینی ہتھکنڈوں پر اُتر آنے کا عندیہ دے رہی ہے۔ پنجاب پولیس کے علاوہ اسلام آباد پولیس کو بھی استعمال کیے جانے سے متعلق احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔ جن راستوں سے قافلے اسلام آباد داخل ہو سکتے ہیں‘ سب سے پہلے انہیں سیل کرنے اور شرکاء کو ڈرا دھمکا کر واپس بھیجنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو وزیر داخلہ چودھری نثار، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف عملی جامہ پہنانے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں۔ مجھ سمیت اچھی سوچ رکھنے والے محسوس کررہے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں جان بوجھ کر ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہیں جس کے آثار بھی نظر آرہے ہیں۔ دراصل اب اس بات کا ادراک اور احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ ن نے‘ نگران وزیراعلیٰ کی قیادت میں پولیس اورپنجاب انتظامیہ سے مل کر 2013ء کے عام انتخابات میں زبردست دھاندلی کرائی‘ جس سے انہیں اقتدار ملا۔ اسی باعث مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف چار حلقوں میں بھی ووٹوں کی دوبارہ گنتی نہیں کرانا چاہتے‘ انہیں ڈر ہے کہ اگر انہوں نے اس کی اجازت دے دی اور دھاندلیوں کے ثبوت مل گئے تو سارے کے سارے انتخابات متنازع بن سکتے ہیں ، اور حکومت بھی تحلیل ہوسکتی ہے۔ اس لئے وہ بضد ہیں اور ان کی حمایت وہ تمام ارکان اسمبلی کررہے ہیںجو کسی نہ کسی طرح دھاندلیوں اور کرپشن میں ملوث رہے ہیں؛ چنانچہ میاں صاحب بذات خود اور ان کے نادان دوست 30نومبر کے جلسے رکوانے اور اس کی اہمیت و افادیت کو غیر موثر بنانے کے سلسلے میں پولیس اور اپنے کرائے کے غنڈوں کے ذریعہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے جلسہ گاہ تک پہنچنے کی راہ میں زبردست رکاوٹ کھڑی کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو پھر حالات بہت بگڑ سکتے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کے لئے حکومت کرنا بھی بہت مشکل ہوجائے گا، ویسے بھی وفاقی حکومت کی ملک میں کوئی رٹ نہیں ہے۔ کسی بھی صوبے میں قانون اور سکیورٹی کی صورتحال مناسب نہیں ہے، کراچی مسلسل جل رہا ہے، اور معاشی سرگرمیاں بھتہ خوروں ، ڈاکوئوں اور ٹارگٹ کلرز کی مذموم غیر سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ سندھ کی حکومت جیسا کہ میں نے اپنے کئی کالموں میں بڑی دردمندی سے لکھا تھا کہ دیہی سندھ کے سیاست دان وڈیرانہ سوچ کے ذریعہ لوٹ مار میں ملوث ہیں۔ وہ سٹیٹس کو کے حامی ہیں۔ انہیں موجودہ حالات کو سدھارنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ پولیس اور رینجرز کے ذریعہ ''قانون کی بالادستی‘‘ کو یقینی بنایا جارہا ہے جو کوششوں کے ساتھ ساتھ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کررہے ہیں ،لیکن اس کے باوجود قانون کی شکست و ریخت جاری ہے۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ان ناقابل تردید معروضی حالات میں عمران خان نے جو آواز بلند کی ہے اس نے پاکستان کے ہر فرد ،ہر گھر اور ہر نوجوان کو متاثر کیا ہے، ان کے جلسوں میں عوام کی شرکت اس بات کی غمازی کررہی ہے، کہ عوام اور خاص طور پر نوجوان باری باری اقتدار میں آنے والے سیاست دانوں سے عاجز آ چکے ہیں اور ہر سطح پر 
تبدیلی کے آرزو مند ہیں۔ جنہیں روکنے کے لئے حکومت غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقوں پر اتر آئی ہے، لیکن شاید حکومت یہ بھول گئی ہے کہ انتخابات میںکی جانے والی دھاندلیوں کے نتیجہ میں بھٹو پر کیا گزری تھی؟ کس طرح ملک میں حزب اختلاف کے احتجاج کے سبب ہنگامے پھوٹ پڑے تھے جن میں اربوں روپے کا قومی نقصان ہوا تھا۔ بھٹو صاحب کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ملک کو بچانے اور لااینڈ آرڈر کی تشویشناک حد تک بگڑتی ہوئی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مرحوم جنرل ضیاء الحق کو اقتدار سنبھالنا پڑا؛ جبکہ اسی اقتدار کی کشمکش میں ہم نے مشرقی پاکستان کھودیاتھا۔ اب ایک بار پھر ملک میں ایسی صورتحال پیدا ہورہی ہے جو نہ صرف افسوسناک ہونے کے ساتھ ساتھ تشویشناک بھی ہے۔ جمہوریت کا مطلب صرف ایک خاندان کی حکومت کرنے کا نام نہیں ہے، اور نہ ہی جمہوریت میں اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم اور اس کا بھائی تجارت کرسکتا ہے۔ لیکن ایسا ہورہا ہے، عوام اور خواص دونوں دیکھ رہے ہیں یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے، لیکن اقتدار پر قابض عناصر کو پروا نہیں۔ وہ اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے مخالفین کو ہر طرح سے زچ کرنے کی کوشش کریں گے۔ جیسا کہ 
انہوںنے 30نومبر کے روز عمران خان کے جمہوری اور آئینی احتجاج کو روکنے کے سلسلے میں پولیس اور پولیس کے بعض کرپٹ افسران کے اشتراک سے ایسی حکمت عملی تشکیل دی ہے، جس پر اگر عمل کیا گیا تو ملک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے،اس لئے وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ عمران خان کے جلسے کو روکنے اور اسے ناکام بنانے کے سلسلے میں سازشی ہتھکنڈے استعمال کرنے سے گریز کرے‘ ورنہ انہیں پاکستان کے عوام کی جانب سے حقیقی جمہوریت کی احیاء کے لئے نہ رکنے والے پرجوش احتجاج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسی صورتحال میں حکومت بے دست وپا ہوسکتی ہے اور ملک میں ہر قسم کی اقتصادی سرگرمیاں بھی رُک سکتی ہیںاگر ایسے حالات پیدا ہو گئے تو سپریم کورٹ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکمرانوں کے خلاف قائم مقدمات کا جلد فیصلہ کرنا چاہئے۔ دوسری طرف ان فیصلوں کی روشنی میں ملک کو ایسے عناصر سے نجات دلانی چاہئے جو گذشتہ 30سال سے باری باری اقتدار میںآکر اپنی دولت وثروت میں اضافہ کرنے کے علاوہ ملک کو بھی کمزور کررہے ہیں، جس کی آغوش میں انہیں یہ عزت، تخفظ اور وقار ملا ہے، حالانکہ اپنی کارکردگی کی روشنی میں یہ لوگ اس کے اہل نہیں ہیں، ''منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں