اٹھارویں سارک کانفرنس میں خطے کے آٹھ ممالک کو قریب لانے اور ان کے درمیان باہمی تجارت اور ثقافت کو فروغ دینے کے سلسلے میں تمام تر خوبصورت وعدوں کے باوجود کسی بھی قسم کی پیش رفت نہیں ہوسکی ۔ اس تنظیم میں شامل دو بڑے ملک بھارت اور پاکستان کے درمیان سیاسی تنائو بدرجہ اتم موجود ہے۔ اسے کم کرنے یا ختم کرنے کے سلسلے میں کوئی موثر حکمت عملی بھی سامنے نہیںآئی ۔سارک کانفرنس کے آغاز سے شرکاء کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ ماضی کی طرح اس کانفرنس سے بھی کچھ خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکیں گے۔بھارت کے وزیراعظم کا رویہ انتہائی سرداور لاتعلقی پر مبنی تھا ۔ وہ اپنے آپ کو اس خطے کا بادشاہ تصور کررہے تھے اور غالباًیہ سوچ کر اس کانفرنس میں شرکت کرنے آئے تھے کہ کسی طرح پاکستان کو Isolateکیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ کانفرنس کے پہلے روز نریندرمودی نے سارک کے تمام سربراہان مملکت سے ملاقات کی تھی لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وزیراعظم نواز شریف کو نظر انداز کردیا۔ نریندرمودی کے اس حریفانہ انداز نے سارک کے شرکاء کو یہ پیغام دیا تھا کہ ان کی نظر میں پاکستان کی کوئی زیادہ افادیت وحیثیت نہیں ہے، بلکہ پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر بھی سارک تنظیم کے جملہ کاروبار کو چلایاجاسکتاہے۔ نریندرمودی کے اس افسوسناک غیر سیاسی اور غیر اخلاقی طرز عمل کی وجہ سے سارک تنظیم میں نہ تو گرمجوشی پیدا ہوسکی اور نہ ہی اب اس تنظیم سے آئندہ یہ امیدوابستہ رکھی جائے گی کہ اس پلیٹ فارم کے ذریعہ اس خطے کی آبادی کے لئے فلاح و بہبود کے لئے باہم مل کر کوئی ٹھوس قدم اٹھائے جاسکتے ہیں۔ نریندرمودی کے اس رویے کا ردعمل یہ ہوا کہ میاں صاحب نے بھی ان سے کسی قسم کی بات نہیں کی بلکہ دونوں ایک دوسرے کو نظر انداز کرتے رہے ، یہاں تک کہ جب نواز شریف اپنی تقریر کرنے کے لئے نریندر مودی کے قریب سے گزرے تو موصوف ایک رسالے کی ورق گردانی کررہے تھے، چنانچہ پہلے ہی روز سارک کانفرنس ناکام ثابت ہوگئی تھی۔ دوسرے دن کانفرنس کے آخری روز جب کٹھمنڈو کے قریب کے ایک تفریحی مقام پر سارک کانفرنس کے سربراہ جمع ہوئے تو نریندرمودی اور نواز شریف نے ہاتھ ملایا اور کچھ رسمی باتیں بھی کیں۔ ان دونوں وزرائے اعظم کے ہاتھ ملانے سے کسی بھی طرح یہ تاثر لینا کہ کانفرنس کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے ، یا پھر اس خطے کے تمام مسائل صرف مصافحہ کرنے سے حل ہوگئے ہیں، ایک واہمہ ہے۔ دوسری طرف اس کانفرنس سے متعلق بعض مستند ذرائع سے یہ معلوم ہوا ہے کہ نریندرمودی کو ان کے مشیروں نے یہ بریفنگ دی تھی کہ وہ اس خطے کے بڑے ملک کی حیثیت سے پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات کرنے میں نہ تو پہل کریں اور نہ ہی انہیں یہ تاثر دیں کہ بھارت پاکستان سے مذاکرات کرنے کے لئے بے چین ہے ، بلکہ وہ اپنی تقریر میںممبئی واقعے کا ضرور حوالہ دیں تاکہ پاکستان کو یہ احساس ہوسکے کہ بھارت چھ سال گزر جانے کے بعد بھی دہشت گردی کے اس واقعے کو نہیں بھولا،چنانچہ انہوں نے اپنی تقریر میں جہاں اس تنظیم کی کمزوریوں کا ذکر کیا ، وہیں ممبئی کے واقعے کا ذکر کرکے نریندرمودی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر کسی قسم کی مفاہمت پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہوسکے تھے وہ بھی معدوم کر دئیے۔ چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تنظیم کا مستقبل کیا ہے اور کیا اس تنظیم کے چھوٹے ممالک بھارت اور پاکستان کے درمیان ہمسائیگی کے تعلقات کو خوشگوار بنانے کے سلسلے میں اپنا کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں؟ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ جب تک بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میںبہتری کے آثارپیدا نہیں ہوں گے، اس وقت تک سارک تنظیم نہ تو بہت زیادہ فعال ہوسکے گی اور نہ ہی اس کے چارٹر کی روشنی میں وہ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں، جو اس میں درج ہیں۔ابتدا میں جب یہ تنظیم قائم ہوئی تھی تو اس کے تخلیق کاروں کا یہ خیال تھا کہ یہ آسیان اور یورپی یونین کی طرح کام کرتے ہوئے اس خطے میںرہنے والے ڈیڑھ ارب عوام کی معاشی وسماجی اصلاحات کے لئے تن من دھن سے کام کرے گی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔ بلکہ کچھ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بھارت کی موجودہ قیادت کی وجہ سے اس خطے میں انتہا پسندی اور مذہبی جنون فروغ پارہا ہے۔ پورے جنوبی ایشیا اور اس میں شامل تمام ممالک کوکسی نہ کسی طرح سے دہشت گردی کا سامنا ہے، جبکہ انتہا پسندی اور عدم برداشت نے اس خطے کے عوام اور خواص دونوں کے رویوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ دوسری طرف استعماری طاقتیں اپنے پہلے سے طے شدہ اہداف کی روشنی میں اس خطے میںامن کے قیام کے لئے کوئی واضح یا ٹھوس قدم نہیں اٹھارہیں، بلکہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے یا پھر ان دونوں ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات کرانے کے سلسلے میں بھی لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں جنگ کے بادل چھارہے ہیں۔ نریندرمودی اس خطے میں بھارت کی چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے جنگ کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ اس کی اس مذہبی جنون پر مبنی جنگی سوچ سے مغربی ممالک بھی واقف ہیں ، لیکن وہ اپنے سامراجی مفادات کے پیش نظر بھارت پر کسی قسم کی پابندی عائد کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں ۔
چنانچہ نیپال کے درالحکومت کٹھمنڈو میں اٹھارویں سارک کانفرنس تمام تر حوالوں سے ناکام ثابت ہوئی ہے، نیز جب تک بھارت اور پاکستان کے مابین سیاسی وسفارتی تعلقات خوشگوار نہیں ہوں گے سارک تنظیم کبھی بھی فعال نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ان تخیلات کو عملی جامعہ پہنایا جاسکتا ہے، جس کی بنیاد پر اس کا قیام عمل میں آیا تھا ۔ پاکستان نے اس کانفرنس میں صرف بجلی کی فراہمی اور ترسیل سے متعلق سمجھوتے پر دستخط کئے ہیں جبکہ ریل اور سڑکوں کی تعمیر اور اس کے ذریعہ ہونے والی تجارت پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے۔ پاکستان کا یہ طریقہ کار بالکل مناسب تھا کیونکہ ریلوے لائن اور سڑکوں کی تعمیر کے ذریعہ تجارت کا فارمولا بھارت کا تھا جو اس نے پہلے ہی تیار کیا ہوا تھا اور بڑی چالاکی سے اس نے نہ تو سیکرٹری سطح پر اور نہ وزرائے خارجہ کی سطح پر اس سے متعلق بات کی تھی۔ اس طرح بھارت کی دھوکے بازی کی ایک اور مثال کھل کر سامنے آگئی۔ اختتامی اعلان کے مطابق آئندہ سارک کانفرنس 2015ء میں اسلام آباد میں منعقد ہوگی ،لیکن جب تک بھارت کا پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ نہیں بدلے گا، ایسی کانفرنسوں کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اس خطے کے عوام کی اکثریت جنگ کے خوف کے سائے میں رہتے ہوئے اپنی آنکھوں میں امن کا خواب سجاتی رہے گی... ایک امیدِ موہوم کے ساتھ۔