پشاور میں آرمی پبلک سکول میں درندہ صفت دہشت گرد تحریک طالبان نے حملہ کرکے 132معصوم بچوں کو خاک و خون میں نہلا دیا تھا، جس کی نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ ملک کے باہر بھی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی۔آج بھی پاکستانی عوام کی آنکھیں شہید ہونے والے بچوں کی یاد میں اشکبار ہیں۔پاکستانی سیاست دان ‘جو اس المناک حادثے سے پہلے ایک دوسرے کے خلاف تھے‘ ایک دوسرے کے گریباں تلخ وتندبیانات سے تار تار کررہے تھے‘ اب ملک میں جاری دہشت گردی کو ختم کرنے کے سلسلے میں یکجا و متحد ہوگئے ہیں۔ کاش وہ پہلے ہی متحد ہوجاتے اور ان مسائل کو افہام وتفہیم سے حل کرنے کی کوشش کرتے جن کی بنا پر پوری قوم تقسیم ہوگئی تھی اور جن کی وجہ سے دہشت گردوں کے علاوہ ملک دشمن قوتوں کو پاکستان کے اندر گڑ بڑ کرنے کا موقعہ ملا تھا؛ تاہم دیر آید درست آید کے مصداق ‘اب تمام بڑے بڑے سیاست دان ملک کی سالمیت وبقا کی خاطر متحد ہوگئے ہیں۔ یہ ایک اچھااور نیک شگون ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا، کیونکہ سیاست و جمہوریت سے زیادہ اہم ہمارا پیارا وطن پاکستان ہے، اگر ملک ہی نہ رہا تو سیاست اور جمہوریت کس کام کی اور کس کے لئے؛ چنانچہ پشاور آرمی پبلک سکول پر تحریک طالبان کے حملے اور اس میں طلبہ اور اساتذہ کی شہادت کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنا ملک گیر دھرنا ختم کردیا ۔ ان کا یہ فیصلہ قابل تعریف ہے۔ اس فیصلہ کا پورے ملک میں اچھا تاثر قائم ہوا ہے۔ عمران خان نے ملک گیر دھرنوں اور ملک کے مختلف شہروں میں جلسوں جلوسوں کے ذریعہ عوام میں ‘خصوصیت کے ساتھ نوجوانوں میں ‘موجود ہ نام نہاد جمہوری نظام کے خلاف جو بیداری پیدا کی ہے‘اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اب عوام اور خواص دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک پاکستان میں الیکشن کمیشن کو آزاد اور خود مختار نہیں بنایا جائے گا،پاکستان کے انتخابات میں دھاندلیاں ہوتی رہیں گی اور انتخابات متنازع بنتے رہیں گے 'جس کے خلاف تحر یکیں شروع ہوں گی ۔اس حقیقت سے سبھی آگاہ ہیں کہ حکومت مخالف تحریکوں کے ملک کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔عمران خان نے نہ صرف دھرنے ختم کردیے ہیں ‘ بلکہ لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے میاں نواز شریف سے استعفیٰ لینے کے مطالبے سے بھی دستبردار ہوگئے ہیں۔ اب عمران خان کے فیصلوں کی روشنی میں ‘جو یقینا ملک کی بقاء اور سالمیت کے پیش نظر کئے گئے ہیں‘ حکومت کو چاہیے کہ ان کے مطالبات فوری طور پر پورے کرے یعنی جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لیاجائے ‘جو یہ فیصلہ کرسکے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلیاں ہوئی تھیں یا نہیں۔ غیر جانبدار اور محب وطن افراد پر مشتمل جو ڈیشل کمیشن کے قیام کے بعد اگردھاندلیوں کے ضمن میں کوئی فیصلہ آجاتا ہے تو اس صورت میں فریقین مطمئن ہوکر مشترکہ طورپر ملک کی ترقی اور دہشت گردی کے خلاف کام کریں گے۔لیکن اگر وزیراعظم میاں نواز شریف نے جوڈیشل کمیشن کے قیام میں تاخیر کی یا پھر تاخیری حربوں سے کام لیا تو عمران خان دوبارہ دھرنوں کی صورت میں اپنا احتجاج شروع کرسکتے ہیں۔اب گیند حکومت کے کورٹ میںہے ۔ اگرحکومت نے عمران خان کے خلوص کا مثبت جواب دیا اور حقیقی معنوں میں ایک غیر جانبدار جوڈیشل کمیشن قائم کردیا تو پاکستان کی سیاست کے حالات بہتر ہوجائیں گے ۔
اس کے ساتھ ہی ایک خودمختار اور آزاد الیکشن کمیشن کے قیام کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ایماندار اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن ہی کے ذریعہ ملک میں دھاندلیوں سے مبرّا عام انتخابات ہوسکتے ہیں۔2013ء کے عام انتخابات میںچونکہ الیکشن کمیشن پوری طرح خود مختار نہ تھا، اسی وجہ سے وسیع پیمانے پر دھاندلیاں ہوئیں، جن کا پول اب آہستہ آہستہ کھل رہا ہے‘ اس لئے حکومت کو عمران خان سمیت تمام بڑی بڑی سیاسی جماعتوں سے مشورہ کرکے ایک غیر جانبدار جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کے علاوہ ایک آزاد الیکشن کمیشن بھی قائم کرنا چاہئے تاکہ آئندہ شفاف انتخابات منعقد ہوسکیں،ان میں کسی بھی قسم کی دھاندلیاں نہ ہوسکیںاورکسی بھی سیاسی جماعت کو ان انتخابات کے خلاف تنقید کرنے کا موقع نہ مل سکے ،نہ ہی وہ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آسکے ۔میری ذاتی رائے میں اگر حکومت اپنے ساتھیوں کے مشوروں کی روشنی میں جوڈیشل کمیشن قائم کردیتی ہے اور اس کا فیصلہ دو ، تین مہینوں میں آجاتا ہے تو پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اس کے انتہائی خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی ہونے کی وجہ سے پاکستان دشمن قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا پورا موقع مل رہا ہے، لیکن اب سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد کی وجہ سے دہشت گردوں کو ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔اس کے علاوہ بعض سیاسی ومذہبی جماعتوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ در پردہ دہشت گردوں کی حمایت نہ کریں اور کھل کر ان کی مذموم کارروائیوں کی مذمت کریں تاکہ ان درندہ صفت عناصر کی حوصلہ شکنی ہواور وہ ایسے گھنائونے کام نہ کرسکیں جیسا انہوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کو شہید کرکے کیا ہے۔ پوری دنیا آرمی پبلک سکو ل میں کی جانے والی دہشت گردی کے افسوسناک واقعہ کے خلاف پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے‘ جبکہ دہشت گردوں کا بھیانک مکروہ چہرہ پاکستان کے علاوہ پوری دنیا کے سامنے آگیا ہے۔ حکومت اور فوج کے فیصلوں کے مطابق اب دہشت گردوں کو پھانسی دی جارہی ہے‘جس کی پاکستان کے عوام حمایت کررہے ہیں۔ یہ سزائیں اگر بہت پہلے دی جاتیں تو شاید پشاور آرمی سکول جیسا المناک واقعہ پیش نہ آتا۔بہر حال اگر صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو غنیمت ہے۔ دہشت گردوں کے لئے کسی بھی قسم کے رحم کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ قوم اس مسئلہ پر فوج اور حکومت کے ساتھ ہے ۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپچاس ہزار سے زائد سویلین اور فوجیوں کی قربانیاں دی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔یہ تمام دہشت گرد مذہب کا نام استعمال کرکے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔یہ تمام غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر دہشت گردی کر رہے ہیں۔ انہیں یہ دہشت گردی کرنے کا حوصلہ صرف اس لئے ملا کہ پکڑے جانے والے جرائم پیشہ عناصر کو سزائیں نہیںمل رہی تھیں۔ عدالتیں ضروری گواہ اور شواہد نہ ہونے کے سبب انہیں چھوڑ دیتی تھیں‘ لیکن اب ایسا نہیں ہوسکے گا۔ آئین میں ترمیم کی جارہی ہے تاکہ دہشت گردوں کے خلاف فوری فیصلہ کرتے ہوئے انہیں واصل جہنم کیا جاسکے۔ سمری ملٹری کورٹ کا قیام بھی ضروری ہے تاکہ قانون کی گرفت اور بالادستی کو مضبوط بنایا جاسکے اورہر سطح پر دہشت گردوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ اسی میں پاکستان کی بقاء کا راز مضمر ہے۔