اسلام آباد کے سینئر مگر سول سوسائٹی کے باخبرارکان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور جناب سراج الحق نے میاں نواز شریف کے ''اشارے‘‘ پر قومی اسمبلی میں 21ویں آئینی ترمیم کے سلسلے میں ہونے والی رائے شماری میں شرکت نہیں کی اور بالواسطہ فوج کو یہ پیغام دیا کہ مذہبی جماعتیں آرمی کورٹس کے قیام کے حق میں نہیں ہیں، حالانکہ اس سے قبل ان دونوں جماعتوں کے سربراہوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں ان فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی تھی اور واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ان عدالتوں کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے، لیکن منگل کے روز ان دونوں حضرات نے رائے شماری میں حصہ نہیںلیا۔اس طرح قومی اتحاد کا خوبصورت تصور جو اے پی سی میں ابھرا تھا،ان کے رویے سے شدید متاثر ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے پاکستانی عوام ،خصوصیت کے ساتھ اپنے کارکنوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا کرنے کے لئے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم پاکستان کو سیکولر ریاست نہیں بننے دیں گے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو کوئی بھی سیکولر نہیں بنانا چاہتا ، بلکہ سب پاکستان کو اعتدال اور رواداری کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیںاور ایک فلاحی ریاست کی حیثیت سے بھی! یہ پڑھے لکھے حضرات پاکستان میں رواداری اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں، چنانچہ فضل الرحمن صاحب ذرا بتادیں کہ وہ کون لوگ ہیں جو پاکستان کی تخلیقی اساس کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان کے پاس اس کا کوئی معقول ومناسب جواب نہیں ہوگا، کیونکہ وہ محض اپنے مذہبی کارکنوں کو جذباتی طورپر مشتعل کرکے اپنے آپ کو ایک بار پھر مقبول بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
قوم ان کے سیاسی ومذہبی کردار سے اچھی طرح واقف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں نہ تو کوئی سیکولر ہے، نہ کوئی بائیں بازو کا اور نہ ہی دائیں بازو کا۔ یہ تقسیم اب محض بات چیت کے دوران استعمال ہوتی ہے، ورنہ سب اپنے مفادات کے حصار میں ہیں اور انہی کے حصول میں ہمہ وقت کوشاں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ فکری طورپر منتشر ہوگیا ہے، جبکہ تمدنی و تہذیبی اختلاط کے تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں ، اور معاشرے میں وسیع تر بنیادوں پر باہمی ابلاغ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ فکر و نظر کے ساتھ ساتھ عمل میں انتہا پسند ی کی وجہ سے مسلکی بنیادوں پر نفرتوں نے سیاست ومعاشرت میں غیر معمولی انتشار ، عدم برداشت اور افراتفری پھیلا دی ہے۔ آج پاکستان کا مسئلہ سیکولر ازم نہیںبلکہ اپنی سالمیت و خود مختاری کو برقرار رکھنے کے علاوہ یہ ہے کہ کس طرح مذہبی انتہا پسندی اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والی دہشت گردی سے مؤثر طورپر نمٹا جاسکتا ہے؟ مولانا فضل الرحمن اور جناب سراج الحق اپنی تمام تر نیک خواہشات کے باوجود دہشت گردی کے انسداد کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں، حالانکہ وہ ایسا کرسکتے تھے۔ لیکن ووٹ لینے کے لئے وہ ان لوگوں کی حمایت کر رہے ہیں، جن کے ہاتھ معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔اس رویے کی بنا پر وہ پوری قوم کے سامنے Expose ہوگئے ہیں اور قوم نے یہ جان لیا ہے کہ کون دہشت گردوں کا دوست یا حمایتی ہے اور کون مخالف۔ آئندہ دنوں میں ان دونوں مذہبی رہنمائوں کو عوام کا سامنا کرنے میں بڑی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
جہاں تک فوجی عدالتوں کے قیام اور اکیسویں ترمیم کا تعلق ہے تو یہ تمام اقدامات ملک میں پائی جانے والے غیر معمولی حالات کے پیش نظر کیے گئے ہیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کی خواہش فوج کی نہیںبلکہ عوام کے علاوہ بعض سینئر سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کی بھی تھی، جو ملک میں جاری دہشت گردی کے سبب اپنے آپ کو بے بس تصور کررہے ہیں اور اپنے پیاروں کی شہادتوں پر نوحہ کناں بھی ہیں۔ گزشتہ پندرہ سالوں،خاص کر 2007ء سے تحریک طالبان پاکستان اور ان کے ہم خیال انتہا پسند گروپس ملک کے طول وارض میں دہشت گردی کررہے ہیں، لیکن پولیس، رینجرز اور فوج کے اہل کاروں کے علاوہ کسی نے بھی آگے بڑھ کر عملی طور پر مزاحمت نہیں کی ، بلکہ میاں نواز شریف اور ان کے ارد گرد موجود لوگوں نے تو نہ صرف طالبان سے مذاکرات کرنے پر زور دیا تھا، بلکہ دو ڈھائی مہینے تک ان کے ساتھ مذاکرات کرتے بھی رہے۔ مذاکرات کے عمل میں جماعت اسلامی کے نمائندوں کے علاوہ مولانا سمیع الحق بھی پیش پیش تھے، لیکن مذاکرات کا ڈھونگ بھی ناکام ثابت ہوا۔ دوسری طرف دہشت گردی جاری رہی ، یہاں تک کہ کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد فوج کو ازخود یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اب پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے، چنانچہ ضرب عضب کا آغاز کیا گیا ،جو اب بھی جاری ہے اورجس نے بہت حد تک ان دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملے اور بچوں کی شہادت پر پوری قوم کا غم و غصہ عروج پر تھا۔ قوم سیاسی قیادت کی دہشت گردوں کو روکنے کے سلسلے میں ناکامی اور بے حسی کا صرف ایک ہی توڑ سمجھ رہی تھی، کہ فوجی عدالتوں کے ذریعہ فوری انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملک وملت کا شیرازہ بکھرنے سے بچانے کی بھر پور کوشش کی جائے، چنانچہ قوم کا یہ مشاہدہ بالکل صحیح ہے کہ سیاسی قیادت بہ حالت مجبوری فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے تیارہوئی ہے ۔ورنہ ان کی کوشش یہی تھی کہ فوجی عدالتیں قائم نہ ہوں اور ملک یونہی بربادہوتا رہے ۔ ساری دنیا اس نا قابل تردید حقیقت سے واقف ہے کہ پاکستان کی سالمیت کا زیادہ تر انحصار فوج پر ہی ہے اور اسی ادارے کو ناکام بنانے اور بد نام کرنے کے سلسلے میں بعض حلقے غیر ملکی طاقتوں کا آلۂ کار بنے ہوئے ہیںاورفوجی عدالتوں کے خلاف بیان داغ رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ پاکستان میں اب نظریاتی سیاست ختم ہوچکی ہے۔ 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی حکومت نے قومی وسائل کو لوٹ کر ملک کو کنگال بلکہ اداروں کو بھی تباہ کردیا ہے۔ سارے سیاست دان ان کے ساتھ شامل تھے۔ مسلم لیگ ن فرینڈلی اپوزیشن کررہی تھی۔ اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ ہر چھوٹا بڑا اس ''لوٹ سیل‘‘ میں شرکت کرکے اپنی ''غربت‘‘ ختم کررہا ہے، جبکہ عوام ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت و افلاس کی اتھاہ گہرائیوںمیں اترکر جسم و جاں کا رشتہ بر قرار رکھنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ فوجی عدالتوں سے وہی عناصر خوف زدہ ہیں جنہوں نے غیر ملکی طاقتوں کے ایماپر مملکت کے خلاف کام کرتے ہوئے دہشت گردی کو پھیلایا اور اب بھی ان کی بالواسطہ حمایت کررہے ہیں۔ ان عناصر کی یہ بھی کوشش ہے کہ کسی طرح فوجی عدالتیں ناکام ہوجائیں اور انہیں یہ کہنے کا موقع مل سکے کہ ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ ایسا ہوگا۔ تاہم یہ عناصر اپنی دوغلی پالیسیوں میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ عوام وخواص بھی اچھی طرح پہچان چکے ہیں کہ ان کے اصل مقاصد کیا ہیں، اور یہ عناصر ملک کے موجودہ انتہائی سنگین حالات میںPolitical Point Scoring میں مصروف ہیں اور انہوں نے ملک کے مفادات کو اپنی خواہشات کے پیش نظر پس پشت ڈال دیا ہے ۔ان کا انجام کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوگا۔