سری لنکا کے انتخابات، راجا پاکسے کیوں ہارے؟

میں اپنی صحافتی زندگی میں تقریباً پندرہ مرتبہ سری لنکا جا چکا ہوں۔ سب سے پہلے میں اگست 1976ء میں غیروابستہ ممالک کی دوسری عالمی کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان کے دیگر صحافیوں، سلامت علی، چودھری افتخار اور منصوری صاحب کے ساتھ گیا تھا۔ میں روزنامہ مساوات کی نمائندگی کر رہا تھا، سلامت علی روزنامہ مسلم‘ چودھری افتخار اے پی پی اور منصوری صاحب روزنامہ ڈان کے نمائندے کی حیثیت سے اس کانفرنس کو کور کرنے گئے تھے۔ میں ان میں سب سے جونیئر تھا۔ مجھے ذاتی طور پر بھٹو مرحوم نے اس کانفرنس کے لئے چنا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ اردو اخبار کا نمائندہ بھی اس اہم کانفرنس کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کرے۔ پاکستان اس وقت غیروابستہ ممالک کا کارکن نہیں تھا، بلکہ اس کو مبصر کا درجہ ملا ہوا تھا۔ سفیر کی حیثیت سے جناب ستار صاحب پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ ستار صاحب انتہائی قابل اور زیرک سفیر تھے۔ وہ بھارت میں بھی پاکستان کے سفیر رہے تھے۔ ان دنوں مسز بندرانائیکے سری لنکا کی وزیر اعظم تھیں اور جناب بھٹو مرحوم سے بہت زیادہ متاثر تھیں۔ اس کانفرنس کے دوران میں نے بھارت کی وزیر اعظم آنجہانی مسز اندرا گاندھی، افغانستان کے مرحوم صدر جناب سردار دائود اور لیبیا کے کرنل قذافی کے انٹرویوز لئے تھے، جو بعد میں روزنامہ مساوات میں بڑے اہتمام کے ساتھ شائع ہوئے تھے۔ فلسطین کے عظیم رہنما اور پی ایل او کے چیئرمین جناب یاسر عرفات سے بھی اسی کانفرنس کے دوران ملاقات ہوئی تھی۔ اس کانفرنس کے کچھ عرصہ بعد جب وہ بھٹو مرحوم سے ملنے کے لئے پاکستان آئے تو انہوں نے خصوصی طور پر مجھے یاد فرمایا تھا اور اخبار کے لئے چار گھنٹے کا طویل انٹرویو دیا تھا‘ جس میں مشرق وسطیٰ کی اس وقت کی سیاست اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے متعلق پیشین گوئی کی تھی، جو بہت حد تک درست ثابت ہوئی۔
اس کے بعد دو تین مرتبہ جناب میاں نواز شریف اور سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں سارک کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے سری لنکا گیا۔ پھر مجھے یورپ کے ایک اہم ٹی وی کی جانب سے ہاتھیوں سے متعلق فلم بنانے کی دعوت دی گئی، خصوصیت کے ساتھ پورن ماشی کے موقع پر جب ہاتھیوں کا جلوس نکلتا ہے۔ اس فلم میں گوتم بدھ کے دانت کو بھی فلمانا تھا، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود اس کی اجازت نہ مل سکی۔ ہاتھیوں سے متعلق فلم کا بکس لندن پہنچنے سے پہلے ہی کارگو میںکہیں گم ہو گیا اور پھر کبھی نہ مل سکا۔ اس کا مجھے اور سپانسر کرنے والوں کو بھی بہت افسوس ہوا؛ تاہم انہوں نے مجھے میری محنت کا پورا معاوضہ ادا کیا۔ اس دفعہ میں سری لنکا کے انتخابات کو ایک ٹی وی کے لیے کور کرنے کے لئے جانے والا تھا، لیکن کراچی میں مسلسل تشدد اور دہشت گردی کے رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے فیملی نے اجازت نہ دی؛ تاہم میں نے دوستوں کے ساتھ اپنی معلومات اور سری لنکا کے پس منظر کا ادراک کرتے ہوئے پیشین گوئی کی تھی کہ راجا پاکسے انتخابات نہیں جیت سکیں گے، جبکہ میرے دوست‘ جو گزشتہ نومبر میں سری لنکا گھوم کر آئے تھے، نے میری پیشین گوئی سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ راجا پاکسے بھاری اکثریت سے انتخابات جیت جائیں گے۔ انہوںنے یہ نتیجہ اس لئے اخذ کیا تھا کہ حالیہ برسوں میں راجا پاکسے کی حکومت کی طرف سے سری لنکا کی ترقی اور معیشت کو مستحکم بنانے کے سلسلے میں اختیار کی جانے والی تمام پالیسوں کے نتائج بہت اچھے نکلے تھے۔ ذرائع حمل و نقل کی تعمیر کے علاوہ چین کی مدد سے تعمیر ہونے والی بندرگاہیں بھی سری لنکا کی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ چین نے براہ راست بھی مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ دراصل چین کے ساتھ معاشی و سیاسی تعلقات استوار کرنے میں راجا پاکسے کا اہم کردار رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ دوستی کو مزید توانا اور بامقصد بنانے میں بھی راجا پاکسے کا کردار قابل تحسین ہے۔ میرے ان دوستوں کی باتیں خاصی مضبوط دلائل رکھتی تھیں۔ شاید اسی بنیاد پر وہ ان کی کامیابی سے متعلق پیشین گوئی کر رہے تھے، لیکن میرے خیال میں راجا پاکسے نے تین بڑی غلطیاںکی تھیں، جن کی بنا پر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پہلی یہ کہ گزشتہ دو تین سالوں سے ان کا مزاج آمرانہ بنتا جا رہا تھا۔ وہ اپنے اوپر کی جانے والی تنقید کو برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔ بعض سینئر صحافیوں کو وہ انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے، بلکہ کچھ صحافیوں کے قتل سے متعلق الزامات بھی براہ راست راجا پاکسے پر عائد کئے جا رہے تھے۔ ان کے دور میںکئی نامور صحافیوں کو قتل کیا گیا، جس کی وجہ سے ان کی دہشت ہر خاص و عام پر بیٹھ گئی تھی، ان کا دوسرا ''کارنامہ‘‘ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی حکومت کے تمام بڑے بڑے عہدوں پر اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کو بٹھا دیا تھا، جن پر مالی کرپشن کے الزامات لگ رہے تھے اور حکومت بدنام ہو رہی تھی۔ راجا پاکسے پر تیسرا بڑا الزام یہ بھی تھا کہ انہوںنے تامل ٹائیگرز کی جانب سے شروع کی جانے والی تحریک کو ختم کرنے کے لیے ایسے ''طریقے‘‘ اختیار کئے، جن سے انسانی حقوق متاثر ہوئے، جبکہ مغربی ممالک کی انسانی حقوق سے متعلق تنظیمیں ان سے ملاقات کرکے ان حقائق کو جاننا چاہتی تھیں، لیکن راجا پاکسے نے نہ تو ان تنظیموں سے ملاقات کی اور نہ ہی انہیں سری لنکا آنے کی اجازت دی تھی۔ مغربی میڈیا نے انہیں تاملوں کا قاتل قرار دیا تھا۔ ان کے ہارنے کی یہی وجوہ تھیں۔ تامل اور مسلمانوں نے باہم مل کر حزب اختلاف کے رہنما ماہتری پالا سری سنیا کے حق میں زبردست مہم چلا کر انہیں عام انتخابات میں کامیاب کرایا ہے۔ انہیں 51.3 فیصد ووٹ ملے، جبکہ ''مرد آہن‘‘ راجا پاکسے کل 47.6 فیصد ووٹ حاصل کر سکے اور اس طرح وہ شکست سے دوچار ہوئے۔ ماہتری پالا سری سنیا کچھ عرصہ قبل تک راجا پاکسے کی کابینہ میں شامل رہے تھے، لیکن بعد میں انہوں نے راجا پاکسے کی حکومت کی کرپشن کے معاملے پر علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ انہیں سری لنکا کی سول سوسائٹی کی حمایت حاصل تھی اور سری لنکا کا میڈیا بھی ان کی حمایت کر رہا تھا؛ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ سری لنکا کے موجودہ منتخب صدر کی پاکستان اور چین سے متعلق کیا پالیسی ہو سکتی ہے؟ پاکستان کی حکومت کو سری لنکا کے نئے صدر کے ساتھ فی الفور اچھے تعلقات کی تجدید کے لئے سرگرم ہو جانا چاہئے تاکہ سری لنکا کے سابق صدر کی پاکستان کے سلسلے میں اختیار کی جانے والی پالیسی کا تسلسل جاری رہ سکے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں