گزشتہ دنوں پاکستان کے تین سینئر سیاستدان جناب محمود خان اچکزئی، آفتاب خان شیرپائو اور افراسیاب خٹک کابل گئے‘ جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے خاصی طویل ملاقات کی اور پاک افغان تعلقات کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اس ملاقات میں سابق افغان صدر حامد کرزئی، اشرف غنی کی معاونت کر رہے تھے۔ اس اہم ملاقات میں ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر آگے کی طرف دیکھتے ہوئے دونوں ملکوں کے تعلقات مستحکم بنانے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے انسداد کے سلسلے میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی اشد ضرورت پر زور دیا گیا‘ تاکہ سرحد کے دونوں طرف امن کے امکانات پیدا ہو سکیں۔
مستند اطلاعات کے مطابق افغان سیاست دانوں کا ایک وفد جلد ہی پاکستان کا خیر سگالی دورہ کرنے والا ہے‘ تاکہ باہمی تعلقات میں مزید گرم جوشی پیدا ہو سکے۔ پاکستان کے ان سیاست دانوں کی افغانستان کے دورے سے قبل صدر مملکت جناب ممنون حسین بھی افغانستان گئے تھے اور نئی منتخب افغان قیادت سے ملاقات کر کے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں موجود غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ افغان صدر اشرف غنی، جیسا کہ اس خطے کے تمام باخبر لوگ اچھی طرح واقف ہیں، ماہر معاشیات ہیں، ورلڈ بینک میںکام کر چکے ہیں اور فارسی اور اردو شاعری کا بہت ذوق رکھتے ہیں۔ شنید ہے کہ صدر مملکت جناب ممنون حسین نے اشرف غنی کو پاکستانی شعرا کے بہت اچھے شعر سنائے‘ جنہیں سن کر اشرف غنی بہت محظوظ ہوئے۔ انہوں نے بھی جواباً جناب ممنون حسین کو فارسی اور اردو کے اشعار سنائے۔ ذرائع کے مطابق صدر ممنون حسین نے اشعار کے ذریعے اشرف غنی کا دل جیت لیا؛ چنانچہ اب دونوں صدرو کے مابین ذاتی سطح پر بھی دوستی استوار ہو چکی ہے۔ 16 دسمبر کو جب پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں نے 149 بچوں اور اساتذہ کو شہیدکر دیا تھا‘ تو فوراً ہی چیف آف آرمی سٹاف جناب راحیل شریف نے افغانستان کا ایک روزہ دورہ کیا اور افغان صدر سے ملاقات کر کے انہیں بتایا کہ کس طرح افغانستان کے سرحدی علاقوں سے ملا فضل اللہ اور وہاں روپوش تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے انسانیت کے خلاف سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے، لہٰذا ان عناصر کو پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ افغان صدر نے جنرل راحیل شریف کے مطالبے سے اتفاق کیا؛ تاہم ابھی تک اس بات کا تعین نہیں ہوا کہ وہ کب پاک افغان سرحد کے قریب واقع علاقوں سے ان دہشت گردوں کو نکال کر پاکستان کے حوالے کریں گے۔ جنرل راحیل شریف کے بعد آئی ایس آئی کے سربراہ جناب رضوان اختر نے بھی پیر کے روز افغانستان کا دورہ کیا اور افغان صدر سے پاک افغان سرحد کے ارد گرد پاس چھپے ہوئے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ پاکستانی فوج کے ان دونوں انتہائی ذمہ دار افسران نے افغان صدرکو ایک بار پھر اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ اگر افغانستان کی حکومت نے دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی نہ کی تو دونوں ملک ان کی مذموم کارروائیوں کی زد میں آ جائیں گے‘ جس سے دونوں ملکوں کا امن تباہ ہو سکتا ہے؛ بلکہ پورے خطے کا بھی...!
بعض مستند ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے‘ جس کا اظہار صدر اشرف غنی اور دوسرے افغان رہنمائوں کے حالیہ دورہ پاکستان سے ہوا ہے، لیکن جیسا کہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا بھارت، افغانستان میں بیٹھ کر افغان معیشت کو مستحکم نہیں کر رہا بلکہ وہاں قدم جما کر دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارت کے ناپاک عزائم کو تقویت سابق صدر حامد کرزئی نے پہنچائی جو بیک وقت امریکی سامراج اور توسیع پسند بھارت کی خوشنودی حاصل کر کے اپنے اقتدار کو مضبوط کرتے رہے۔ وہ تحریک طالبان کے ہاتھوں روپے پیسے اور اسلحے کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کراتے رہے۔ اس وقت بھی وہ ہر چند کہ اقتدار میں نہیں، لیکن پاکستان کے خلاف افغانستان کی موجودہ قیادت کو بھڑکاتے رہتے ہیں؛ تاہم موجودہ افغان صدر کو اس بات کا احساس ہے کہ پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا بلکہ اس خطے میں امن کا دار و مدار ہی پاکستان اور افغانستان کے مابین اچھے اور خوشگوار تعلقات پر ہے نا کہ بھارت پر‘ جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مفاہمت پیدا نہ ہو اور دہشت گردی کی لہر یونہی قائم رہے۔ امریکہ بہادر کو بھی اس بات کا احساس ہو چلا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں اس خطے کے تمام ملکوں سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور اب بھی دے رہا ہے‘ اس لیے امریکہ کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر اس نے بھارت کی افغانستان کے اندر ''افغان معیشت کی تعمیر‘‘ کی آڑ میں پاکستان کے خلاف کی جانے والی مذموم حرکتوں کو نہ روکا تو اس صورت میں افغانستان میں امن کس طرح قائم ہو سکتا ہے اور یہ کون کرے گا؟ امریکہ اور بھارت کے درمیان گزشتہ کئی سالوں سے اچھے مراسم قائم ہیں جبکہ امریکی صدر26 جنوری یعنی بھارت کی یوم جمہوریہ کے موقع پر مہمان خصوصی کی حثیت سے دہلی میں موجود ہوں گے۔ اس موقع پر امریکی صدر بارک اوباما کو چاہیے کہ وہ بھارت کو قائل کریں کہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف اکسانے یا استعمال کرنے میں نہ تو بھارت کا فائدہ ہے اور نہ ہی افغانستان کا کیونکہ اگر پاکستان کے خلاف دہشت گردی جاری رہتی ہے تو اس کی وجہ سے اس پورے خطے کی معیشت، سیاست اور معاشرت تباہ ہو سکتی ہے۔
دراصل بھارت افغانستان میں پاکستان کے خلاف انتہائی خطرناک پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور یہ سمجھ رہا ہے کہ پاکستان اپنے اندرونی حالات کی وجہ سے کمزور ہو گیا ہے۔ بھارت گمراہ کن غلط فہمی میں مبتلا ہے جو اس کو کسی وقت ناقابل تلافی نقصان پہنچا نے کا سبب بن سکتی ہے۔ مزید برآں، افغان طالبان‘ جو افغانستان کے اندر غیرملکی فوجوں کے خلاف مسلح جدوجہد کر رہے ہیں، وہ خالصتاً افغانستان کا اندونی مسئلہ ہے؛ حالانکہ پاکستان نے امریکہ کے ایما پر ماضی کی افغان حکومت اور افغان طالبان کے ساتھ قطر میں ملاقات کرانے کا اہتمام کیا تھا، لیکن حامد کرزئی نے پاکستان اور امریکہ کی ان کوششوں کو سبوتاژ کر دیا تھا۔ اس وقت بھی افغان طالبان افغانستان کے اندر اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، اس صورت حال کے پیش نظر پاکستان، افغانستان کے اندر قیام امن کے سلسلے میں ایک بار پھر اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے بلکہ چین کو بھی اپنے ساتھ ملا کر افغانستان میں امن قائم کرنے میں اس کی مدد کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت سے زیادہ چین نے افغانستان کی معیشت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے (تقریباً 5بلین ڈالر) اور اب بھی کر رہا ہے۔ چین کو پاکستان کے خلاف افغان علاقے سے اور بھارت کی مدد سے ہونے والی دہشت گردی پر سخت تشویش ہے کیونکہ اس طرح چین بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے۔ افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے معاملات میں بھارت کی دخل اندازی کو مسترد کرتے ہوئے دہشت گردی کے انسداد کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرے‘ جیسا کہ اشرف غنی اور ان کے رفقا کی خواہش ہے، افغان طالبان کے اگر بعض مطالبات تسلیم کر لیے جائیں تو وہاں جنگ رک سکتی ہے اور افغان طالبان حکومت کا حصہ بن کر افغانستان کی تعمیر میں حصہ لے سکتے ہیں۔