آرمی پبلک سکول میں 134معصوم بچوں اور اساتذہ کی شہادت کو ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ واقعہ کل ہی ہوا ہے۔ جن سفاک بھیڑیوں نے اسلام کے نام پر یہ گھنائونا کھیل انجام دیا ہے، انشاء اللہ وہ نہ تو اس دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچ سکیں گے۔ ان معصوم بچوں کی یادیں آج بھی رلارہی ہیں، اگرچہ میرا ان سے کوئی خونی رشتہ نہیں ہے، لیکن سب سے بڑا رشتہ انسانیت کا ہے۔ اس انسانیت کے ناتے وہ بچے میرے اپنے بچے اورمیرے عزیز تھے۔ اس وقت میرا یہ حال ہے تو ان کے حقیقی والدین کا کیا حال ہوگا؟ والدین اس دن کی مناسبت سے سوچ رہے ہوں گے کہ ابھی ان کا لاڈلا ہنستا مسکراتا گھر میں داخل ہوگا اور بستے کو ایک طرف پھینک کر اپنی ماں سے کہہ گا کہ ''ماں مجھے بھوک لگ رہی ہے، جلدی کھانا دو‘‘ ماں تو کھانا بنانے چلی جاتی ہے وہ اپنے کھلونوں سے کھیلنے لگتا ہے۔ آج بھی اس کی ماں اس کا انتظار کررہی ہے، اور کھلونے بھی کھیلنے والے کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ ایسا انتظار ہے جو قیامت تک رہے گا۔ عربی کا مقولہ ہے ''انتظار موت سے بد تر ہے‘‘ یقینا وقت تو سب کچھ بھلا دیتا ہے، تلخ یادوںکو بھی اور خوشگوار یادوں کو بھی، لیکن ان یادوں کا کیا جائے جو رکے نہیں رک رہیں، آنسو بھی نہیں رک رہے، ان آنسوئوں میںان شہیدوں سے محبت کی گہرائی ہے جو انسانی رشتوں کے ناتے ہمیں ایک دوسرے کا غم باٹنے کا حوصلہ دے رہی ہیں۔ ٹیگور نے کہا تھا کہ ''ہر پیدا ہونے والا بچہ یہ پیغام دیتا ہے کہ خدا انسانوں سے مایوس نہیں ہے‘‘ اپنے معاشرے کے حوصلے ، قوت، یگانگت اور بچوں کے والدین پر ٹوٹنے والے غم کو بانٹتے دیکھ کر یہ احساس جاگزیں ہورہا ہے، کہ بچے زندہ ہیں، موت نے صرف پردہ کیا ہے ، کیونکہ موت کے بعد ہی انسان جاگتا ہے اور اس کی بھرپور زندگی کا آغاز موت کے بعدہوتا ہے۔ ان بچوں کی شہادت نے پوری دنیا کو بھی غمگین اور سوگوار کردیا ہے۔ بیشتر ملکوں کے سربراہوں نے اس بربریت پر اپنے دکھ درد کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ''کاش ایسا نہ ہوتا‘‘۔ میں بھی یہ کہہ رہا ہوں کہ کاش ایسا نہ ہوتا، لیکن ایسا ہوا ہے ، ہم سب کی آنکھوں کے سامنے اب قوم متحدہورہی ہے اور بزدل دشمن بھاگ رہا ہے۔ شہید بچوں کی روحیں ان کا تعاقب کررہی ہیں، بلکہ پوری انسانیت ان کا تعاقب کررہی ہے۔ سندھ کے ایک گائوں سے آج ایک بچی کا فون آیا۔ روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ ''انکل میں ابھی اسکول سے گھر آئی ہوں میری ماں نے پوچھا کھانانکالوں میں نے کہا کہ نہیں کیوں کہ آج ہی کے دن شہید بچوں کی مائیں انہیں کھانا دینے کا انتظار کررہی ہوں گی‘‘ اس ٹیلی فون نے مجھے اور بھی رلادیا ہے، پاکستان کیا ملک بن گیا ہے؟ مذہب تو آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا اور نہ ہی عداوت اور دشمنی اور وہ بھی ان معصوم بچوں کے ساتھ جو خدا کے قریب ہوتے ہیں، پھر اسلام کی تعلیم کی بنیاد تو عفو اور در گذر پر ہے۔ نبی کریمﷺ کی پوری حیات طیبہ معاف کردینے کی تعلیمات پر مشتمل ہے اور یہی آفاتی پیغام انہوںنے فتح مکہ کے دن دیا تھا۔ آپؐ نے کہا تھا جو شخص ابو سفیان کے گھر پناہ لے گا وہ بھی امان میں رہے گا۔ آج اس مملکت خداداد میں ہمارے رشتے دولت، ثروت اور مفادات کے گرد گھوم رہے ہیں۔ یہاں تک کہ مذہب کو ذاتی ا غراض ومقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ واعظوں کی باتوں میں تاخیر ختم ہوچکی ہے، ماضی کی باتوں کو دہراتے ہوئے واعظ یہ نہیں بتا رہا کہ مستقبل کو کس طرح سنوارا جائے؟ کس طرح اس حسین دنیا کو محبت ، اخوت ، پیار ، بھائی چارے اور اشتراک کے رشتوںسے جوڑ کر اس کو مزید خوبصورت اور حسین بنایا جائے، لیکن یہ کام کون کرے گا، کیوں
کرے گا؟ حالانکہ ہر مسلمان کے لبوںپر یہ دعارہتی ہے کہ ''اے اللہ ہماری دنیا اور آخرت کوبہتر بنااور ہمیں جہنم کی آگ سے محفوظ رکھ‘‘اللہ نے اپنے آفاتی پیغام میں اس دنیا کو بہتر بنانے کی تلقین کی ہے، کیوں کہ اگر کوئی فرد یا انسانی گروہ اس دنیا کو بہتر بنائے گا تو اس کی آخرت بھی اس نسبت سے اچھی ہوگی۔ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ انسانی زندگی کا پہلا اعمال نامہ اور اس کا حساب اس ہی دنیا میں بھی ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا۔ لیکن ہم اپنے نفس کے منہ زور گھوڑے پر بیٹھے ایسے راستے پر چل نکلے ہیں جہاں گھٹا ٹوپ اندھیروں میںہم ہاتھ پائوں مار رہے ہیں، اور امید کر رہے ہیں کہ کوئی نجات دہندہ آکر ہمیں اس تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے گا، لیکن وہ کون ہوگا اور کیوں آئے گا؟ جب نیکیوں کے راستوں پر شیطانوں کا قبضہ ہوجائے اور لوگ اس کی پرستش کرنے لگیں، تو پھر معاشرہ بے ہنگم، بے ترتیب، خود غرض ، مفاد پرستی، کینہ او ر لوٹ کھسوٹ کی آگ میںجل کر بھسم ہونے لگتا ہے۔ ہم بڑی بے حسی کے عالم میں اس زوال کو ویکھ رہے ہیں۔ برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کی بے مثال اور لازوال قربانیوں کے نتیجہ میں بننے والا یہ ملک اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں زخمی اور
لہولہان ہوکر دربار ایزدی میں عافیت اور امن کی بھیک مانگ رہا ہے۔ شہید بچوں کا لہو بھی پاکستان کے لئے شہید ہونے والے دیگر افراد کے خون میں شامل ہوکر ہم سے یہ سرگوشیاں کررہا ہے کہ جاگ جائو ، اپنا احتساب کرو اور نفس کے منہ زور گھوڑے کو لگام دو، ورنہ یہ گھوڑا تمہیںروندتا ہوا تمہارے نشیمن کو بھی تاراج کردے گا۔ پھر حشر وہی ہوگا جس کا متعدد بار قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے لوگوں پر ظلم وستم روا رکھا اور اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کی۔ یہ قومیں مٹ گئیں اور داستانوں میں ان کا ذکر عبرت کی علامت بن چکا ہے۔ کیا ہم ان ہی قوموں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں؟ اس کا جواب تو کچھ عرصہ بعد ملے گا، لیکن ان شہید بچوں سے وابستہ یادوں کا کیا کیا جائے جو ہمیں خون کے آنسو رلارہی ہیں۔ یہ یادیں بھلائے نہیں بھولیں گی۔ ہر صبح جب اسکولوں کی گھنٹیاں بجیں گی اور بچے سکولوں کی جانب رواں دواں ہوں گے تو ان راستوں پر شہید بچوں کی روحیں ان بچوں کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی ہوں گی اور رب کی بارگاہ میں دعا گو ہوں گی کہ اے کائنات کے مالک و رازق! ان بچوں کو واپس سلامتی کے ساتھ ان کے والدین سے ملا دینا جو ان کا کھانے پر انتظار کررہے ہیں۔
بقول شاعر ؎
جس کو فلک نے لوٹ کے ویراں کردیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اجڑے دیار کے