بروز جمعہ وزیراعظم کراچی تشریف لائے تاکہ ایم کیو ایم کی سندھ حکومت کے خلاف جو شکایتیںہیں، ان کا ازالہ کیا جاسکے۔ یقینا ان کی آمد سے سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین تلخی میںکمی واقع ہوئی ہے، لیکن ہنوز ان دونوں کے مابین اچھے تعلقات کے قیام میں خاصی دشواریوں کے علاوہ شکایتیں موجود ہیں، جن میںمسنگ پرسنزکا مسئلہ بھی ان کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ تاہم وزیراعظم صاحب نے ان دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کو'' نصیحت‘‘ کی ہے کہ وہ اپنی رنجشوں کو دور کرکے سندھ میں وسیع تر اتحاد اور تعاون کے ذریعہ عوام کے معاشی وسماجی مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ وزیراعظم صاحب کی نصیحت کے ان دونوں پارٹیوں پر کیا اثر ات مرتب ہوسکتے ہیں،یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن وزیراعظم کے کراچی میں ایک روزہ دورے کے بعد یقینا یہ دونوں سیاسی جماعتیں ضرور سوچیں گی کہ باہمی رنجش اور لڑائیاں اس صوبے کے عوام کے لئے بے پناہ معاشی وسماجی مسائل کا سبب بن رہی ہیں، اس لئے ہوسکتا ہے کہ آئندہ چند دنوں میں ان کے مابین کوئی صلح نامہ تشکیل پاجائے، جس کے بعد ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل بھی ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوجائے تو سندھ میں اس اتحاد کے ذریعے کراچی سمیت سند ھ کے دیگر حصوں میں لاقانونیت اور دہشت گردی کو ختم کرنے میں بڑی مدد ملے گی ۔ ان دونوں جماعتوں کو اپنی انا کے خول سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آکر ایک دوسرے کی شکایتوں کو دور کرتے ہوئے معاشی ترقی کے امکانات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہئے، تاکہ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوسکیں۔ عوام ان دونوں جماعتوں سے یہی توقعات رکھتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کی ایم کیو ایم کے مرحوم سیکٹرانچارج سہیل احمد کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کرائی گئی، اس ملاقات میںسہیل کے والدین نے وزیراعظم کو بڑی تفصیل سے بتایا کہ کس طرح مرحوم کو اغوا کیا گیا اور کئی دنوں کے بعد قتل کرکے اس کی لاش سڑک کنارے پھینک دی گئی۔ ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے وزیراعظم کے سامنے پولیس کے بعض افسران پر الزام لگایا ہے کہ وہ سادہ لباس میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کو اٹھا کر غائب کردیتے ہیں، بعد میں ان کی تشدد زدہ لاشیں سڑکوں پر پائی جاتی ہیں۔ ایم کیو ایم کی حکومت سندھ اور خصوصیت کے ساتھ سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ سے اس ہی مسئلہ پر نہ صرف شکایتیں ہیں بلکہ ناراضگی بھی ہے، جو ان کی شکایتوں پر دھیان نہیںدیتے ، چنانچہ وزیراعظم صاحب نے قائم علی شاہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ کوئی پولیس اہل کار سادہ لباس میں ایم کیو ایم سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن کو غائب نہ کرے۔ اگر پولیس یا رینجر کو کسی سیاسی کارکن کے طور طریقوں سے شکایت یا اعتراض ہے تو اس کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔ کراچی میں مختصر قیام کے دوران وزیراعظم کو ٹارگٹڈ آپریشن سے متعلق بریفنگ بھی دی گئی ۔ اس قسم کی بریفنگ کا حقیقت میں کوئی خاص فائدہ نہیںہوتا، بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ حکومت کے سربراہ کو اعداد وشمار کی روشنی میں یہ باور کرایا جائے کہ پولیس اور رینجرز بڑی کامیابی سے سماج دشمن عناصر اور دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں بھر پور انداز میں اپنا کام کررہے ہیں اور کامیاب بھی ہیں۔ وزیراعظم صاحب سے جیسا کہ توقع تھی اس بریفنگ سے خاصے مطمئن نظرآئے اور کہا کہ یہ آپریشن جاری رہنا چاہیے، حالانکہ انہیںاس حقیقت کا ادراک تھا کہ ایم کیو ایم کو اس آپریشن سے یہی شکایت ہے کہ یہ یکطرفہ طورپر ان کے کارکنوں کے خلاف کیا جارہاہے، ان کے کارکنوں کو بلا جواز گرفتار کرکے ماورائے عدالت قتل بھی کیا جارہا ہے۔ گزشتہ سال جس دن وزیراعظم میاں نواز شریف نے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کی اجازت دی تھی اس وقت میں بھی دیگر صحافیوں کے ساتھ گورنر ہائوس میں موجود تھا۔ انہوں نے اس آپریشن کا انچارج یا کپتان وزیراعلیٰ سندھ کو مقرر کیا تھا اور یہ بھی ہدایت کی تھی کہ اس آپریشن کی مانیٹرنگ کے لئے سندھ کی اہم پارٹیوں پر مشتمل ایک سیل بنایا جائے گا جو یہ نگرانی کرے گا کہ آپریشن صحیح سمت میں جارہا ہے اور کسی سیاسی جماعت
کے کارکنوں کو محض شک کی بنیاد پر نہ تو تنگ کیاجائے گا اور نہ ہی قتل! لیکن وزیراعظم کی ہدایت کے باوجود اب تک نہ تو مانیٹرنگ سیل قائم ہوا ہے اور نہ ہی اس کے بننے کی امید کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ٹار گٹڈ آپریشن کے خلاف ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی انگلیاں اٹھ رہی ہیں، جبکہ وزیراعظم کو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ٹارگٹڈ آپریشن صحیح سمت کی طرف جارہا ہے اور بلا امتیاز سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے ، حالانکہ اس وقت کراچی میں یومیہ آٹھ سے دس افراد کو قتل کردیا جاتا ہے۔ اب تک چار سے زائد انتہائی قابل ڈاکٹروں کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے علاوہ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ، بلکہ بعض تاجروں اور صنعت کاروں نے مجھے بتایا ہے کہ ان میں مزید اضافہ ہوا ہے اور انہیں اپنا کاروبار جاری رکھنے کے سلسلے میں سماج دشمن عناصر کوباقاعدہ بھتہ دینا پڑتا ہے۔ پولیس کی وردی میں ملبوس ڈاکو کراچی کی عام شاہراہوں پر مسافروں کو لوٹ رہے ہیں، ان کو بھی روکنے والا کوئی نظر نہیں آرہا۔ کراچی پولیس کے ایک سابق سربراہ نے اپنے ایک اخباری بیان میں یہ انکشاف کیا تھا کہ کراچی پولیس میںشامل 30 فیصد اہل کار ماضی میں جرائم میں ملوث رہے تھے۔ اب یہ عناصر پولیس کے محکمے میں شامل ہو کر اس وقت بھی ایسے ہی
کام کررہے ہیں۔ دوسری طرف کراچی کا ٹریفک نظام تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ روز مرہ کے ٹریفک جام نے عوام کے اعصاب پر برے اثرات مرتب کئے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق کراچی میں گذشتہ دس سالوں میں مختلف قسم کی اعصابی بیماریوں میں 60فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور کراچی کی بیشتر آبادیوں میں پانی کی کمی نے اس شہر کے باسیوں کے حالات کار پر انتہائی برے اثرات مرتب کئے ہیں۔سما جی رشتے بھی اپنی چاشنی اور حسن کھو رہے ہیں۔ کئی سو تعلیم یافتہ نوجوان جن میں ڈاکٹر ، انجینئر، اور آئی ٹی کے ماہرین شامل ہیں گزشتہ دوسالوں کے دوران مجبوراً اس ملک کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وزراء مبینہ طورپر کرپشن میںملوث ہیں۔ انہیں نہ تو کراچی کے باسیوں کا درد ہے اور نہ ہی اندورن سندھ اپنے سندھی بھائیوں کا جن کا ووٹ لے کر یہ لوگ اقتدار میں بیٹھ کر اپنی دولت وثروت میں اضافہ کررہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو یہ غلط تاثر دیا گیا ہے کہ ٹارگٹڈ آپریشن ٹھیک چل رہا ہے اور حالات ٹھیک ہورہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر کراچی میں یہ افراتفری کیوں پائی جارہی ہیں؟ کیوں ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتیں پی پی پی کی انتہائی ناقص کارکردگی پر تنقید کررہی ہیں؟ سب کچھ ٹھیک ہے کے ''ورد‘‘ نے کراچی کو ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے امن وامان کو تہ وبالا کردیا ہے۔ شکارپور کے دردناک اور انتہائی قابل مذمت واقعہ نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی روکنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔