گزشتہ ماہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق ہونے والے مذاکرات ناکام ہوگئے ، حالانکہ پاکستان نے تمام تر سیاق و سباق کے حوالے سے بھارت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ عالمی بینک کے ذریعے1960ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی رو سے بھارت پاکستان کا پانی روک کر اس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کررہا ہے، جو ان دونوں ملکوں کے درمیان مزید کشیدگی کا باعث بن رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر پہلے ہی ان دونوں ملکوں کو اکثر جنگ کے قریب لے آتا ہے اور اب بھارت کی جانب سے پاکستان کے حصہ کا پانی روکنے کا سلسلہ ان دونوں ملکوں کے درمیان مزید تلخی، کشیدگی اور دوری کا باعث بن رہا ہے ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ عالمی بینک نے 1960ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائوں کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ کرایا تھا،جسے انڈس واٹر ٹریٹی کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کو مزید تقویت دینے کی خاطر برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈاور کینیڈا نے عالمی بینک کی معاونت کی تھی۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین دریا مختص کئے گئے تھے، جن میں دریائے جہلم، چناب اور سندھ شامل ہیں، جبکہ بھارت کو راوی، ستلج، اور بیاض دیئے گئے تھے۔ جب یہ معاہدہ طے پایا تھا اس وقت فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت تھی۔ پاکستان کے پانی سے متعلق ماہرین نے اس معاہدے کو منصفانہ قرار دیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ تمام دریا مقبوضہ کشمیر سے نکلتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، چنانچہ بھارت نے اپنی جغرافیائی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں خصوصیت کے ساتھ پاکستانی دریائوں پر ڈیم بنانے شروع کردیئے جس کی وجہ سے پاکستان کے حصہ کا پانی رک رہا ہے اور یہ دریا خشک ہوتے جارہے ہیں، مزید برآں اس کے پاکستان کی زراعت پر سنگین نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ خصوصیت سے ساتھ بھارت دریائے چناب پر مقبوضہ کشمیر میں بگلیہارڈیم بنا رہا ہے۔ اس ڈیم سے بھارت 450میگاواٹ بجلی بھی پیدا کرے گا، چنانچہ پاکستان نے اس مسئلہ پر بھارت سے بات چیت کی تھی ، لیکن بھارت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ ملنے کی صورت میں اب پاکستان دوبارہ عالمی بینک سے رجوع کررہا ہے، تاکہ پاکستان کے جائز موقف کو تسلیم کرتے ہوئے اس ڈیم کی تعمیر کو رکوایا جائے، یااس کے ڈیزائن میں ایسی ضروری تبدیلیاں لائی جائیں تاکہ دریائے چناب سے پاکستان کو ملنے والا پانی کم نہ ہوسکے۔ واضح رہے کہ اس ڈیم کی اونچائی 470اور چوڑائی 317میٹر ہے ۔اس میں ایک مستند ذرائع کے مطابق 15بلین کیوسک پانی جمع کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ڈیم کے موجودہ نقشے کے مطابق اگر یہ ڈیم بن جاتا ہے تو پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے پاکستان کی مجموعی زراعت متاثر ہوگی۔
اس پس منظر میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کئے تاکہ کوئی نتیجہ نکل آئے، لیکن بھارت کی پاکستان کے ساتھ روایتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوگئے جس کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر عالمی بینک سے رجوع کیا ہے۔ پاکستان نے 2005ء میں بھی عالمی بینک سے اس ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں بات چیت کی تھی جس پر ماہرین نے اس کے ڈیزائن کی تبدیلی پر زور دیتے ہوئے اس کی تعمیر کی اجازت دی تھی جسے پاکستان نے منظور نہیںکیا۔ اب پاکستان نے عالمی بینک کے ساتھ ساتھ انٹر نیشنل کورٹ سے مدد کی درخواست کی ہے تاکہ اس سنگین مسئلہ کو 1960ء کے معاہدے کی روشنی میں حل کیا جائے او ر پاکستان کے زرعی شعبے کو تباہ و برباد ہونے سے بچایا جا سکے۔ پاکستان کے نمائندے نے بھارت کے ساتھ اس مسئلہ پر مذاکرات کی ناکامی کا الزام بھارت پر عائد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
India is neither willing to compensate Pakistan's massive water losses nor consider bringing any change to the physical structure of the dam.
دوسری طرف بھارت کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ اس ڈیم سے متعلق پاکستان کے تمام خدشات دور کردیے گئے ہیں، حالانکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔پاکستان نے اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی اٹھایا تھا تاکہ عالمی کمیونٹی میں یہ احساس پیدا ہوسکے کہ بھارت جہاں مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ان کا بنیادی حق دینے کو تیار نہیں ہے، وہیں وہ پاکستان کے حصے کا پانی روک کر پاکستان کو اقتصادی طورپر تباہ کرنا چاہتا ہے۔پنجاب کے اری گیشن سیکرٹری نے بھارت کی جانب سے دریائے چناب کے پانی کو روکنے کے سلسلے میں بڑی وضاحت سے کہا ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کو مجموعی طورپر 321,000میگافٹ پانی کی کمی واقع ہوگی، جس کے سبب پنجاب میں پھیلی ہوئی زمین خشک ہوجائے گی اور جس کی وجہ سے پنجاب کی 13ملین ایکٹر زرعی زمین شدید متاثر ہو گی جس میں پنجاب کے محنت کش کسان چاول، گندم، گنا اور جانوروں کے چارے کی کاشت کرتے ہیں۔ اس متنازعہ ڈیم کی تعمیر سے پاکستان میں بجلی کی پیداوار پر بھی منفی اثرات پڑرہے ہیں، جبکہ تربیلاڈیم کے ذریعہ بجلی کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہورہی ہے،جس کی وجہ سے پنجاب میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ تکلیف دہ حد تک بڑھ گیا ہے۔ اگر بھارت کی جانب سے پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کا سلسلہ جاری رہا تو ہوسکتا ہے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے حصول کے سلسلے میں ایک بھیانک جنگ کا آغاز ہوجائے ،جو بعد میں خدانخواستہ ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ ہمالیہ میں واقع گلیشیرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ماحولیات سے متعلق ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ گلیشیرز کا پگھلنا خطرے کی واضح گھنٹی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے آئندہ سالوں میں بھارت سمیت پاکستان میں پانی کی شدید کمی واقعہ ہوسکتی ہے۔ نیز گلیشیرز کے خاتمے کی صورت میں پاکستان اور بھارت دونوں میں خشک سالی بڑھ سکتی ہے اور خوراک میں بھی کمی واقعہ ہوسکتی ہے۔ اس لئے بھارت کی حکومت کو اس سنگین مسئلہ پر ہمدردی سے غور کرتے ہوئے پانی کے مسئلہ پر با معنی با مقصد مذاکرات شروع کرنا ہوں گے تاکہ حالات کو مزید بگڑنے سے بچایا جاسکے۔ عالمی بینک کو اس سلسلے میں منصفانہ فیصلہ کرنا چاہئے تاکہ پانی کے مسئلہ پر ان دونوں ملکوں کے درمیان متوقع جنگ کو روکا جاسکے اور پاکستان کے زرعی شعبے کو تباہی سے بچایا جاسکے۔