بھارت کا دفاعی بجٹ

بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ کے لئے اس سال 40بلین ڈالر مختص کئے ہیںیعنی گزشتہ سال کے مقابلے میں 7.9فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس طرح بھارت جنوبی ایشیاکا وہ واحد ملک ہے جو اپنے دفاع پر سب سے زیادہ پیسے خرچ کررہا ہے اور غیر ممالک سے سب سے زیادہ مہلک ہتھیار خریدنے والا ملک بن چکا ہے۔ بھارت کے دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں یہ اضافہ چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کے پیش نظر کیا ہے، جبکہ اصل میں بھارت کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کا مقصد پاکستان پر اپنی بالادستی قائم کرنا ہے، کیونکہ اگر پاک بھارت تعلقات کا گزشتہ کئی سالوں پر محیط تعلقات کا جائزہ لیاجائے تو یہ حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ بھارت نے اپنی فوجی طاقت کے ذریعے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں بھارت کا کلیدی کردار رہا تھاجسے کوئی بھی محب وطن پاکستانی ابھی تک نہیں بھولا اور نہ ہی بھول سکتا ہے۔ اس لئے جب بھارت اپنا دفاعی بجٹ بڑھادیتا ہے تو اس کے براہ راست اثرات پاکستان پر پڑتے ہیں جو پہلے ہی اس پڑوسی ملک کا زخم خوردہ ہے۔ بھارت کی یہ منطق کہ اس نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ چین کی بھارت کے خلاف ممکنہ جارحیت کا موثر جواب دینے کے سلسلے میں کیا ہے، ایک ناقابل فہم بات ہے۔ چین اور بھارت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ چین کا دفاعی بجٹ بھارت کے دفاعی بجٹ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ چین بحرہند میں اپنا جائز مقام حاصل کرنا چاہتاہے جبکہ چین جنوبی ایشیا اور ایشیا پیسیفک میں امریکہ اور بھارت کی دفاعی اور سیاسی سرگرمیوں سے بھی خطرہ محسوس کررہا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ South China seaمیں جہاں کچھ ممالک نے امریکہ کی شہ پر چین کے خلاف ایک حصار قائم کررکھا ہے، اور چین کو اس اہم خطے سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے،یہاںآئندہ چھوٹا موٹا فوجی تصادم بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کے دفاعی بجٹ کے مقابلے میں پاکستان کا دفاعی بجٹ سات بلین ڈالر کے قریب ہے، بلکہ حالیہ دنوں میںپاکستان نے اس اہم شعبے میں کٹوتی بھی کی ہے، جس کی وجہ سے افواج پاکستان تمام تر خواہشات کے باوجودجدید اسلحہ خرید نے کے سلسلے میں اس خطے میں اسلحہ کی بڑھتی ہوئی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہتا ۔ اس قسم کے خیالات کا اظہار خارجہ امور کے مشیر جناب سرتاج عزیز نے بھی اپنے ایک اخباری بیان میںکیا ہے ۔ سرتاج عزیز صاحب کا یہ بیان مثبت ہے، لیکن اس بیان کا یہ ہرگز مطلب نہیںہے کہ پاکستان اپنے دفاع سے غافل ہوجائے گا، بلکہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے پیش نظر جدید اسلحہ کے ذریعے اپنے دفاع کو مضبوط و مستحکم بنانے کی پالیسی پر گامزن رہے گا۔ ویسے بھی بھارت کو اپنے دفاع پر اتنی بھارتی رقم خرچ کرنا زیب نہیں دیتا ، جبکہ اس کی آدھی جنتا خطہ افلاس کے نیچے بڑی محروم اور تکلیف دہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، جبکہ بھارتی حکومت کو اتنی بڑی آبادی کی محرومیوں کو دور کرنے کے لئے بجٹ کا ایک بڑا حصہ خرچ کرنا چاہیے جس میں تعلیم، صحت اور ملازمتوں کے شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس وقت بھارت کی بہت سی انتہا پسند تنظیموں کے لیے بھارت کا موجودہ دفاعی بجٹ خوشی و مسرت کا باعث بن رہا ہے، لیکن دفاعی شعبے کو مضبوط بنا کر اور عوام کو ان کی بنیادی ضروریات کو پس پشت ڈال کر بھارت ایک مضبوط ملک نہیں بن سکتابلکہ وسائل کی کمی کے باعث بھارت میں معاشرہ افراتفری کا باعث بنا ہوا ہے۔ بھارت کے پاس اس وقت تیسری بڑی فوج موجود ہے جسے جدید اسلحہ سے لیس کیاجارہاہے۔ اتنی بڑی فوج بھارت کی معیشت پر بہت بڑا بوجھ بنتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ دفاعی بجٹ کو محدود کیا جانا چاہئے نیز پڑوسی ملکوں کے ساتھ جس میں سرفہرست پاکستان شامل ہے، پر امن تعلقات استوار کرنے چاہئیں تاکہ اسلحہ کی دوڑ اور ممکنہ جنگ کے خطرے سے بچاجاسکے۔ گزشتہ
صدی یعنی بیسویں صدی میں دو بڑی ہولناک جنگیں ہوچکی ہیں، جن میںلاکھوں آدمی مارے گئے تھے اور اربوں مالیت کی پراپرٹی تباہ وبرباد ہوئی تھی، لیکن موجودہ صدی یعنی اکیسویں صدی کو معاشی ترقی اور انسانی فلاح و بہبود کی ترقی سے معمور کیا جارہاہے، بلکہ اس کی طرف پیش رفت بھی کی جارہی ہے، لیکن اس صدی میں کسی بڑی جنگ (تیسری جنگ) کا تصور نہیںکیا جاسکتا ، کیونکہ اگر خدانخواستہ کسی بھی ملک کی نادانی ،ناسمجھی اور حماقت سے کسی بڑی جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو اس صورت میںپوری دنیا تباہ ہوجائے گی ، کیونکہ دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کے علاوہ جرمنی کے پاس ایسے مہلک ہتھیار موجود ہیں جنہیں اگر جنگ کے دوران استعمال کیا گیا تو اس کرہ ارض سے انسانی زندگی ناپید ہوسکتی ہے، اس لئے بھارت کے دفاعی بجٹ سے متعلق پاکستان کے اندیشے مفروضوں پر نہیں بلکہ ماضی کی تاریخ کی روشنی میں حقائق پر مبنی ہیں۔ اس لئے پاکستان جنوبی ایشیا میں اسلحہ کی دوڑ میں شامل نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی دفاعی ضروریات سے غافل نہیں رہ سکتا ، کیونکہ بھارت ایک ایسا ملک ہے جس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیںاور جن مسائل پر جنگیں ہوچکی ہیں، وہ مسائل ہنوز بدرجہ اتم موجود ہیں، مثلاً کشمیر، پانی، سیاچن ، سرکریک وغیرہ جن پر دونوں جانب سے وقتاً فوقتاً مذاکرات ہوتے رہتے 
ہیںاورجن کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکل سکا ۔
یہ بات بھی فراموش نہیںکرنی چاہئے کہ بھارت ، روس، فرانس، امریکہ اور برطانیہ سے جدید اسلحہ خریدتا رہتا ہے۔ گزشتہ چارسالوں کے دوران بھارت نے جدید اسلحہ کی درآمدپر 12.7بلین ڈالر خرچ کئے تھے۔اس کے علاوہ بھارت کے اندر چالیس سے زائد چھوٹی بڑی اسلحہ ساز فیکٹریاںکام کررہی ہیں، ان اسلحہ ساز فیکٹر یوں میں تیار ہونے والا اسلحہ زیادہ تر غیر ممالک کو برآمد کردیا جاتاہے، بھارت کا پرائیویٹ سیکٹر بھی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں پیسہ لگاتا رہتا ہے، اور اس شعبے میں جدید ریسرچ کی ذمہ داری بھی بھارت کا نجی شعبہ پوری کرتا ہے، اس ضمن میں میرا خیال ہے کہ آئندہ برسوں میں بھارت دفاعی اخراجات میں مزید اضافہ کرے گا، کیونکہ اسے دنیا کی ایک بڑی طاقت بننے کا جنون سوار ہوگیا ہے۔ پہلے ہی وہ اس خطے کے چھوٹے ممالک کے لئے خطرے کا باعث بنا ہوا ہے اور جن سے اس کے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے ہیں۔ پاکستان کے سلسلے میں بھارتی قیادت کے دل میں نہ پہلے اور نہ اب کسی قسم کا نرم گوشہ موجود ہے۔اسے اگر موقع ملے تو وہ پاکستان کو مزید نقصان پہنچانے سے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں اٹھارکھے گا۔ اگر بھارت کے دل میں پاکستان کے لئے کوئی نرم گوشہ ہوتا تو وہ ان مسائل کے حل کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرتا جو ماضی میں بھی اور اب بھی کشیدگی کا باعث بننے ہوئے ہیں، تاہم پاکستان اس خطے میں بھارت کے جنگی جنون کے خلاف اپنی پر امن مزاحمت جاری رکھے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں