معیشت کیسے بحال ہوسکتی ہے؟

موجودہ حکومت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو کس طرح ترقی سے ہمکنار کیا جائے؟ انرجی کرائسس کی وجہ سے پاکستانی معیشت گھاٹے میں جا رہی ہے، اس سلسلے میں حکومت کوشش کررہی ہے، لیکن کام انتہائی سست روی سے چل رہا ہے، بلکہ انرجی کے جن پروجیکٹس کا وزیراعظم صاحب نے بڑے زور شور سے تذکرہ کیا تھا جن میں گڈانی کے پروجیکٹس بھی شامل تھے، وہ اب منسوخ کردیئے گئے ہیں، اس منسوخی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت انرجی کے شعبے کو فعال کرنے میں کتنی دلچسپی لے رہی ہے۔ یہی حال تھر کول کا ہے، جس سے متعلق ہر روز اخباری بیانات آتے رہتے ہیں ، لیکن وہاں کسی قسم کا کام نہیں ہورہا، بلکہ اگر متعلقہ افراد سے اس سلسلے میں پوچھاجائے تو وہ لا علمی کا اظہار کرتے ہیں۔ انرجی کا شعبہ حکومت کی توجہ کا مرکز تو ہے لیکن نتائج زیادہ امید افزا نہیں ہیں۔ حکومت کے بعض ترجمان مثلاً خواجہ آصف صاحب کا یہ کہنا ہے کہ توانائی کی ضروریات کو پوری کرنے میں تین سال سے زائد کا عرصہ لگے گا، یعنی پاکستان کے صنعت کار، تاجر اور وہ تمام ادارے جو معیشت کی ترقی سے منسلک ہیں، انہیں تین سال تک انتظار کرنا ہوگا،لیکن انہیں گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ ان کی ضروریات کے مطابق بجلی اور گیس جلد دستیاب ہوسکے گی۔ اس ضمن میں، میں نے سابق وزیرخزانہ اور مشہور بینکر شوکت ترین سے ایک ملاقات کے دوران پوچھا کہ پاکستانی معیشت قرضوں کے سہارے چل رہی ہے، اس کا کیا علاج ہوسکتا ہے،تو انہوںنے کہا کہ حکومت کے پاس کوئی ویژن نہیںہے، وہ محض اخباری بیانات کے ذریعہ عوام اور خواص دونوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت جلد بحال ہوجائے گی، اور ہم جلد ہی کشکول گدائی توڑ دیں گے، لیکن پاکستانی قوم دیکھ رہی ہے کہ ہم کن شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر معیشت کو ''بحال‘‘ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اسی پیسے سے ہم قرض بھی اتار رہے ہیں۔ ہمیں جن شعبوں پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے وہ زراعت اور مینو فیکچرنگ کا شعبہ ہے جس کے ذریعہ آپ کی ایکسپورٹ بڑھ سکتی ہے اور روزگار کے نئے ذرائع بھی پیدا ہوسکتے ہیں، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ زراعت (جس سے 70فیصد آبادی وابستہ ہے)میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جارہا ہے، حالانکہ اگر ہم زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا اطلاق کرلیں تو پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے، لیکن ہمارے زمیندار بھی اس مسئلہ پر دھیان نہیں دیتے۔ وہ روایتی کاشت کاری کررہے ہیں ، جس سے گذر بسر تو ہوجاتی ہے لیکن ترقی کاگراف نہیں بڑھ رہا۔ پاکستان میں جن زمینداروں نے اپنی زمینوں میں جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کیا ہے ان کی زمینیں سونا اگل رہی ہیں، دراصل اکثریت کو ایسا کرنا چاہئے تب ہی جاکر معیشت میں ترقی کے آثار نمایاں ہوسکتے ہیں۔ مشرقی پنجاب میں جو چھوٹے زمیندار اور کسان ترقی یافتہ ممالک سے زراعت میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو زیراستعمال لائے ہیں انہوں نے مشرقی پنجاب کے عوام کی قسمت بدل دی ہے۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے، اچھی تقلید اور مثبت رویئے سے ہم پاکستان کی معیشت کو چند سالوں میں بحال کرسکتے ہیں،اس میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے۔
مینو فیکچرنگ کے شعبے میں ابھی تک ہم نیویلیو ایڈیشن کی طرف بھر پور توجہ نہیں دی۔ مثال کے طورپر ہم دھاگہ (Yarn)بیچ رہے ہیں، جبکہ ہم اس کو ویلیوایڈیشن میں تبدیل کرکے کئی گنا پیسہ کما سکتے ہیں اور ایکسپورٹ میں بھی اضافہ کرسکتے ہیں، جو اس وقت مسلسل گررہی ہیں۔ مزید برآں صرف ٹیکسٹائل پر برآمدات کے سلسلے میں بھروسہ کرنے سے کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، ہم غیر روایتی آئٹمز کی طرف توجہ دے کر برآمدات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ شوکت ترین اپنی گفتگو میں تھوڑی دیر کے لئے رکے اور پھر بولے کہ پلاننگ کمیشن کو زیادہ فعال اور متحرک ہونا پڑے گا۔ ماضی میں پلاننگ کمیشن میں بڑے نامور افراد موجود تھے جن میں ڈاکٹر محبوب الحق کا نام سرفہرست ہے ۔ اس وقت اس اہم ادارے میں کوئی بڑی شخصیت موجود نہیں ہے جو معروضی حالات کے پیش نظر ملک کی مجموعی ترقی کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ محض منصوبے بنا کر اور ان پر عمل پیرا ہوئے بغیر ملک کی تقدیر کیسے بدل سکتی ہے؟ معیشت کی ترقی کے سلسلے میں ٹیکس کا شعبہ نہایت اہم ہے، اس وقت اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں صرف دس بارہ لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ باقی لوگ جن میں سیاست دان، بیوروکریٹس کے علاوہ دولت مند افراد شامل ہیں، ٹیکس دینے سے شعوری طورپر گریز کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت 30لاکھ کے قریب ایسے دولت مند افراد موجود ہیں جو بہ آسانی ٹیکس ادا کرسکتے ہیں ، لیکن وہ ٹیکس نہیں دیتے ،حالانکہ انہوں نے این ٹی این نمبر لے رکھا ہے۔ اگر حکومت کے پاس ٹیکس کی مد میں رقم نہیں آئے گی تو ملک کس طرح آگے کی طرف بڑھ سکتا ہے، اور کس طرح ترقیاتی کام ہوسکتے ہیں؟ پاکستان میں ٹیکس دینے کا کوئی کلچر نہیں ہے، بلکہ ٹیکس نہ دینے کا کلچر پایا جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے حکومت کے پاس ٹیکس کی مد میں اربوں روپے جمع ہونے چاہئیں ،لیکن خزانہ خالی ہے جس کو قرضہ لے کر پُر کیا جا رہا ہے۔ اس طرز عمل سے نہ تو پاکستان کی معیشت بحال ہوسکتی ہے، اور نہ ہی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے، آج کل تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ملازمتوں کے سلسلے میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ لیکن نوکریاں نہیں مل رہی ہیں اور اگر ہیں بھی تو وہ سفارش کے ذریعہ ملتی ہیں۔ جو صرف نجی شعبہ ہی ہے جو کسی نہ کسی طرح ہنر مند اور غیر ہنرمند افراد کوملازمتیں دے رہا ہے۔ پبلک سیکٹر میں نوکریاں با اثر افراد کے لڑکے ، لڑکیوں کو ملتی ہیں ، یعنی ملازمتوں کے سلسلے میں میرٹ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ سفارشی کلچر کے ذریعہ نا اہل افراد اہم شعبوںمیں کام کررہے ہیں جن سے یہ امید رکھنا کہ وہ ملک کے حالات کو سدھارنے اور سنوارنے کے سلسلے میں کوئی کام کریں گے، امید موہوم ہے۔ شوکت ترین صاحب نے اپنی گفتگو ختم کرتے ہوئے کہا کہ آپ پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں نظر ڈالیں وہاں کتنی خراب صورتحال ہے؟ جی ڈی پی کا صرف 2فیصد تعلیم کے شعبے میں خرچ کیا جاتا ہے۔ کیا اس طرح ''تعلیم سب کے لئے‘‘ کا تصور فروغ پاسکتا ہے؟ جب تک تعلیم پر 6 فیصد سے لے کر 8 فیصد تک خرچ نہیں کیا جائے گا، معاشرہ معاشی طور پر آگے کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ ہمارے عہد میں جن دو افراد نے اپنے ملک کی تقدیر بدل دی ہے ان میں ملائیشیا کے جناب مہاتر محمد ہیں اور دوسرے سنگاپور کے لیوکان جنہوںنے تعلیم کے فروغ پر اولین توجہ دے کر اپنے ملک کو ترقی کے بام عروج تک پہنچادیا ہے اور ہم اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں۔کیا یہی ہماری تقدیر ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں